قرآن کریم کی حقانیت اور اعجاز
قرآن کریم کی حقانیت کی ایک نمایاں دلیل اس کی اعجاز کی خصوصیت ہے۔ یہ ایک ایسا کلام ہے جس کی مثال پیش کرنا انسان کے بس سے باہر ہے۔ اسی وجہ سے اسے رسول اللہ ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس تحریر میں ہم مختصراً ان پہلوؤں پر بات کریں گے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ کلام بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور کسی انسانی ذہن کا اس میں کوئی دخل نہیں۔
فصاحت و بلاغت کی حقیقت
فصاحت و بلاغت اور کلام کی سحر انگیزی ایسی خصوصیات ہیں جو سمجھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کو مکمل طور پر الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ جیسے کسی حسین چہرے کی مکمل تعریف نہیں کی جا سکتی، اسی طرح کسی کلام کی خوبصورتی کو بھی مکمل بیان کرنا مشکل ہے۔ کلام کے حسن کا اصل فیصلہ ذوق و وجدان ہی کرتا ہے۔
اہلِ زبان کی اہمیت
کسی کلام کی فصاحت و بلاغت کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ اس زبان کو بخوبی سمجھا جائے۔ لہٰذا فصاحت و بلاغت کا ذوق صرف اہلِ زبان کا معتبر ہے، خواہ کوئی غیر زبان میں کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو، وہ اہلِ زبان کے برابر نہیں ہو سکتا۔
زمانۂ جاہلیت کے عرب اور قرآن کا چیلنج
زمانۂ جاہلیت کے اہلِ عرب خطابت اور شاعری میں مہارت رکھتے تھے، فصاحت و بلاغت ان کی رگوں میں دوڑتی تھی۔ ایسے ماحول میں ایک اُمی (رسول اللہ ﷺ) نے قرآن کا اعلان کیا اور چیلنج دیا کہ:
"وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ”
(البقرہ: 23)
"اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے، تو اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ”۔
مزید چیلنج اور عربوں کی خاموشی
قرآن نے پھر چیلنج دیا:
"قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ”
(الاسراء: 88)
"اگر تمام انسان اور جنّ مل کر اس قرآن جیسا کلام لانا چاہیں، تو نہیں لا سکتے، چاہے وہ ایک دوسرے کی مدد کیوں نہ کریں”۔
عرب کے بڑے بڑے شعراء اور ادباء اس کے مقابلے میں چند جملے بھی نہ پیش کر سکے۔ حتیٰ کہ ولید بن مغیرہ جیسے فصیح افراد نے بھی قرآن کی فصاحت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:
"خدا کی قسم! جو محمد ﷺ بولتے ہیں، اس میں بلا کی مٹھاس اور کشش ہے، یہ کلام غالب ہی رہتا ہے” (الخصائص الکبریٰ، ص 113 ج 1)
معارضہ کی ناکام کوششیں
کچھ لوگوں نے قرآن کے مقابلے میں اپنی طرف سے کلام بنانے کی کوشش کی، لیکن ان کی تحریریں مضحکہ خیز ثابت ہوئیں۔ مسیلمہ کذاب کے جملے ملاحظہ ہوں:
"یا ضفدع بنت ضفدعين، نقّي ما تنقّين، نصفك في الماء ونصفك في الطين”
"اے مینڈک! بیٹی دو مینڈکوں کی، تیرا آدھا جسم پانی میں اور آدھا مٹی میں ہے”۔
ان جملوں کی حقیقت جاننے کے لیے کسی عربی زبان کے ماہر ہونے کی بھی ضرورت نہیں، یہ خود ہی اپنی ناکامی کی گواہی دیتے ہیں۔
قرآن کا معجزانہ اسلوب
مصری عالم علامہ طنطاوی نے ایک مجلس میں جرمن مستشرقین کے ساتھ ایک تجربہ کیا۔ جب انہوں نے قرآن کا یہ جملہ:
"يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ”
(ق:30)
"جس دن ہم دوزخ سے کہیں گے: کیا تو بھر گئی؟ اور وہ کہے گی: کیا کچھ اور بھی ہے؟”
سنایا تو جرمن مستشرقین حیرت سے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے اور قرآن کی اعجازیت پر حیران رہ گئے۔
نتیجہ
قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا چیلنج آج بھی قائم ہے۔ عرب و عجم میں بڑے بڑے ادباء اور شعراء کے باوجود کوئی شخص اس کے مثل کلام پیش نہ کر سکا ہے۔ جو بھی اس کے مقابلے میں کلام پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ محض مذاق کا نشانہ بن جاتا ہے۔