قرآن کی صریح تعلیمات اور سائنسی نظریات کی تاویلات
ایک وقت تھا جب نیوٹن کے "میکانکی نظریہ کائنات” نے دنیا کو متاثر کیا، جس کے مطابق کائنات علت و معلول کے قانون میں جکڑی ہوئی تھی۔ اس نظریے کے تحت مافوق الفطرت حقائق کا مذاق اڑایا جانے لگا، اور بعض مسلم مفکرین نے قرآن کے معجزات کو بھی سائنسی اصولوں کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر:
- حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا اثر نہ ہونا
- رسول اکرم ﷺ کا معراج کا سفر
ایسے واقعات کی مافوق الفطرت حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کے لیے عادی اسباب کی تاویلات گھڑی گئیں۔ یہ رجحان صرف معجزات تک محدود نہیں رہا بلکہ:
- حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق
- شیطان کا انکارِ سجدہ
- فرشتوں اور جنت و دوزخ کے وجود جیسے حقائق کو بھی تمثیلات قرار دے کر ان کی تاویلات کی گئیں۔
سر سید احمد خان کی تفسیر
سر سید احمد خان نے اپنی "تفسیرالقرآن” میں قرآنی مفاہیم کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنے کی کوشش کی، جس میں:
- فرشتوں کو انسان کی مثبت صلاحیتیں
- جنات و شیاطین کو منفی جذبات
- حضرت آدم علیہ السلام کو ایک فرد کے بجائے پوری انسانیت کی علامت
- جنت و دوزخ کو مقامات کے بجائے خوشی و غم کی کیفیات سے تعبیر کیا گیا
یہ تاویلات قرآن کے صریح مفہوم کو بدلنے اور اسلامی علمیت کے انکار کا راستہ کھولتی ہیں۔
دل کے حوالے سے سائنسی اور قرآنی نقطہ نظر
قرآن میں "قلب” کا ذکر
قرآن میں کئی جگہ "قلب” کا ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ:
"فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ”
"بے شک، آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔”
(سورہ حج: 46)
یہ آیت بتاتی ہے کہ حقیقت کا انکار دل کی اندھی بصیرت کی وجہ سے ہوتا ہے، نہ کہ ظاہری آنکھوں کے اندھے پن کی وجہ سے۔ لیکن جدید سائنس دل کو محض خون پمپ کرنے والی ایک مشین سمجھتی ہے اور سوچنے کا عمل دماغ سے جوڑتی ہے۔
سائنسی نظریات اور تاویلات کی گمراہی
کچھ مفکرین نے یہ دلیل دی کہ عربی میں "قلب” کا مطلب ذہانت یا عقل بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا، دل پر مہر لگانے کا مطلب ذہن پر مہر لگانا ہے۔ مزید یہ کہ "صدر” (سینہ) کو "وسط” (مرکز) سے تعبیر کیا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ قلب درحقیقت دماغ ہے۔
اعتراضات
حدیث کی وضاحت
رسول اکرم ﷺ کی مشہور حدیث:
"إن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب”
"بے شک جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب وہ ٹھیک ہو تو پورا جسم ٹھیک ہو جاتا ہے، اور جب وہ خراب ہو تو پورا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے۔”
(صحیح بخاری، کتاب الإیمان)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ "قلب” سے مراد جسم کا وہ گوشت کا ٹکڑا (دل) ہے جو پورے جسم کی اصلاح یا خرابی کا سبب بنتا ہے۔ یہ ذہانت کی تاویل سے مطابقت نہیں رکھتا۔
سائنسی دعووں کی حدود
سائنس کے پاس حتمی ثبوت نہیں کہ سوچنے کا عمل صرف دماغ سے ہوتا ہے۔ جدید نفسیات اور حیاتیات نے یہ تسلیم کیا ہے کہ دل اور دماغ کے درمیان ایک خاص تعلق موجود ہے۔ اگر آئندہ تحقیقات دل کے سوچنے میں کردار کو ثابت کر دیں تو کیا قرآن کی تفسیر دوبارہ بدلی جائے گی؟
روح کا انکار
سائنس روح کا انکار کرتی ہے، جبکہ قرآن و احادیث روح کے وجود پر واضح ہیں۔ کیا روح کو بھی سائنسی مفہوم میں توانائی (Energy) کہہ کر بیان کیا جائے گا؟ یہ طرزِ عمل اسلامی عقائد کے لیے نقصان دہ ہے۔
قرآنی حقائق کا اصل معیار
قرآن کو ہر چیز کے لیے پیمانہ ماننے کے بجائے اگر سائنس کو معیار بنایا جائے تو قرآن کی حیثیت ثانوی بن جاتی ہے۔ حالانکہ قرآن ہی حق و باطل کو پرکھنے کا اصل ذریعہ ہے۔
دینی عقائد کے دفاع میں علما کا کردار
بزرگ علما اور صوفیاء کرام جیسے مولانا احمد رضا خانؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ اور دیگر نے زمانے کے رجحانات سے متاثر ہوئے بغیر قرآن کی اصل تعلیمات کا دفاع کیا۔ اگر یہ علما سائنسی نظریات کے مطابق قرآن کی تاویلات کرتے تو نیوٹن کے نظریے کے بعد جب سائنس نے اس کی تردید کی تو عوام کا قرآن پر ایمان متزلزل ہو سکتا تھا۔
اصولی نکات
- قرآن کے مطابق سائنسی نظریات کا جائزہ لیا جائے نہ کہ سائنس کے مطابق قرآن کو بدلا جائے۔
- دل اور دماغ کا تعلق جدید تحقیقات کا موضوع ہو سکتا ہے، لیکن قرآن اور احادیث میں "قلب” کے ذکر کو لغوی یا ظنی سائنسی تاویلات کے ذریعے بدلا نہیں جا سکتا۔
- روحانی حقائق کو سمجھنے کے لیے امام غزالیؒ کی کتاب "احیاء العلوم” جیسی کتب سے رہنمائی لی جائے۔
- قرآن کی حتمیت کو تسلیم کیا جائے کیونکہ وہ خود "الحق” اور "فرقان” (حق و باطل میں فرق کرنے والا) ہے۔