قرآن کی الہامی حقیقتیں اور تاریخی غلط فہمیاں

تورات، زبور، انجیل، اور قرآنِ مجید

یہ چار الہامی کتابیں ہیں جو خالق کائنات نے مختلف عہود میں اپنے پیغمبروں پر نازل کیں۔ ان کتابوں کا نزول حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر بالترتیب ہوا۔ ان الہامی کتابوں اور دیگر صحائف کا مقصد بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود، رشدوہدایت، اور اللہ سے تعلق قائم کرنا تھا۔ ان کتابوں میں اطاعت کرنے والوں کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی اور سرکشی کرنے والوں کے لیے عذاب کی وعید دی گئی ہے۔

حضرت محمد ﷺ کی رسالت اور قرآن مجید

حضرت محمد ﷺ سے پہلے کے انبیاء کا پیغام خاص اقوام تک محدود تھا اور وقت کے ساتھ ان کی تعلیمات مٹ گئیں۔ حضرت محمد ﷺ چونکہ آخری نبی ہیں، اس لیے قرآن مجید کو پوری انسانیت کے لیے رہنمائی کے طور پر قیامت تک محفوظ رکھا گیا۔ یہود و نصاریٰ نے حضرت محمد ﷺ کی نبوت کو قبول نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ یہود حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد ﷺ کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے، اور عیسائی حضرت محمد ﷺ کی رسالت اور قرآن کو الہامی کتاب نہیں مانتے۔

یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت

یہودی بنی اسرائیل میں ایک نبی کے انتظار میں تھے، مگر وہ نبی بنی اسماعیل میں مبعوث ہوئے جس پر یہودی مخالفت پر اتر آئے۔ جب حضرت محمد ﷺ مدینہ تشریف لائے تو انہیں یہودیوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ آپ ﷺ نے انہیں برابر کے حقوق دیے۔ انہوں نے سازشوں، پراپیگنڈے، اور حتیٰ کہ قتل کی سازشوں میں حصہ لیا۔ عیسائی بھی حضرت محمد ﷺ کی نبوت کو قبول نہیں کرتے تھے، اور ان کی مخالفت صلیبی جنگوں اور استشراق کی تحریکوں تک جاری رہی۔

قرآن پر اعتراضات

استشراقی اعتراضات میں سب سے بڑا یہ تھا کہ "قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ محمد ﷺ کا کلام ہے”۔ اس میں کہا گیا کہ قرآن کا بیشتر حصہ پچھلی امتوں کے واقعات پر مشتمل ہے، جو حضرت محمد ﷺ نے دیگر مذاہب سے حاصل کر کے قرآن میں شامل کیے۔

اعجاز قرآن کی دلیل

قرآن مجید کے اعجاز پر تفصیلی دلائل موجود ہیں، اس کا کلام، اسلوب، زبان، پیشن گوئیاں اور تعلیمات انسانی کلام سے بالاتر ہیں۔ قرآن میں سابقہ انبیاء اور امتوں کے حالات کا ذکر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ وحی اور ربانی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔

مستشرقین کے اعتراضات اور دعوے

مستشرقین کا دعویٰ تھا کہ حضرت محمد ﷺ نے شام کے تجارتی سفر میں راہبوں سے قرآن کے واقعات سیکھے۔ ورقہ بن نوفل کا نام بھی ان کی طرف سے پیش کیا گیا، مگر تاریخی حقائق کے مطابق ورقہ سے آپ ﷺ کا براہِ راست کوئی علمی تعلق نہیں تھا۔ علاوہ ازیں، خدیجہ رضی اللہ عنہا کا آپ ﷺ کی نبوت پر ایمان اور ان کی قربانیاں بھی اس دعویٰ کی تردید کرتی ہیں۔

قرآن کے علم کا الٰہی ذریعہ

نبی کریم ﷺ کی نبوت 23 برس تک جاری رہی، اگر آپ ﷺ کسی انسانی معلّم سے فیض لے رہے ہوتے تو وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا اور یہ بات مشرکین مکہ کی نظروں سے چھپی نہ رہتی۔ نیز، خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ایمان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کے علم کا واحد ذریعہ وحی اور اللہ تعالیٰ کی تعلیمات تھیں۔

خلاصہ

قرآن کو کسی انسانی علم یا کسی دوسرے ذریعہ سے منسوب کرنا تاریخی اور منطقی اعتبار سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن، نبی کریم ﷺ کی زندگی اور ان کی نبوت پر خدیجہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام کے ایمان کی روشن دلیلیں ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ قرآن محض اللہ کا کلام ہے اور کوئی انسانی تخلیق نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توحید ڈاٹ کام پر پوسٹ کردہ نئے اسلامی مضامین کی اپڈیٹس کے لیئے سبسکرائب کریں۔