قرآن کو پاکی کے بغیر چھونے کی ممانعت کے دلائل
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

بغیر وضو قرآن کو چھونے کا حکم: قرآن و حدیث کی روشنی میں

 قرآنِ کریم سے دلیل

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ”
(الواقعہ: 79)

ترجمہ:
"اسے (قرآن کو) صرف پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔”

تفسیرِ مفسرین:

◈ امام طبریؒ فرماتے ہیں:
"لا يمسه إلا المطهرون: لا يمسّ القرآن إلا من هو طاهر من الأحداث والأنجاس، وهكذا قاله جماعة من السلف.”
"اسے (قرآن کو) صرف وہی (شخص) چھوئے جو پاک ہو، یعنی جو حدث اور نجاست سے پاک ہو۔ اسی طرح یہی بات جماعتِ سلف نے بھی کہی ہے۔”
(تفسیر الطبری، 23/282)

◈ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:
"وهذا يدلّ على أن القرآن لا يمسه إلا طاهر، كما في الحديث المرويّ.”
"اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کو صرف پاک شخص ہی چھوئے، جیسا کہ مروی حدیث میں بھی آیا ہے۔”
(الجامع لأحكام القرآن، 17/205)

یہ آیت واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ قرآن کو صرف وہی لوگ چھو سکتے ہیں جو پاک ہوں، یعنی وہ افراد جو وضو میں ہوں یا جن پر جنابت وغیرہ نہ ہو۔

 حدیثِ مبارکہ سے دلائل

(1) حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی روایت

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ”
(موطأ الإمام مالك 1/199، سنن الدارمي 2/527، مصنف عبدالرزاق 1/341، سنن البيهقي 1/88، صحيح ابن حبان 3/72، مسند أحمد 4/136)

ترجمہ:
"قرآن کو صرف پاک شخص ہی ہاتھ لگائے۔”

یہ حدیث حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے نام نبی ﷺ کے تحریری فرمان میں مذکور ہے، جسے محدثین نے حسن اور صحیح قرار دیا ہے۔

(2) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت

"كنا مع النبي ﷺ، فقال: لا يمس القرآن إلا طاهر.”
(المعجم الأوسط للطبراني، حدیث: 5081، صحیح ابن حبان 3/72)

ترجمہ:
"ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: قرآن کو کوئی ناپاک شخص نہ چھوئے۔”

یہ احادیث واضح طور پر ثابت کرتی ہیں کہ بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانا ممنوع ہے۔

 آثارِ صحابہ سے دلائل

(1) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا قول

"لا يمسّ القرآن إلا المطهرون.”
"قرآن کو صرف وہی (لوگ) چھوئیں جو پاک ہیں۔”
(مصنف ابن أبي شيبة، 1/121، رقم: 1466)

(2) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول

"لا يمسّ المصحف إلا الطاهر.”
"مصحف کو صرف پاک شخص ہی چھوئے۔”
(مصنف ابن أبي شيبة 1/121، رقم: 1467، صحيح ابن حبان 3/72)

یہ دونوں آثار اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس مسئلے پر اجماع تھا کہ قرآن کو بغیر وضو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا۔

 ائمہ محدثین اور فقہاء کا موقف

(1) امام نوویؒ فرماتے ہیں:

"أجمع المسلمون على أنه يحرم على المحدث مس المصحف.”
"مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ بے وضو شخص کے لیے مصحف کو چھونا حرام ہے۔”
(المجموع شرح المهذب، 2/80)

(2) امام ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں:

"أجمع الفقهاء من الصحابة والتابعين أن المصحف لا يمسه إلا الطاهر من الأحداث.”
"صحابہ کرام اور تابعین میں سے فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مصحف کو صرف وہی شخص چھو سکتا ہے جو حدث سے پاک ہو۔”
(التمهيد لابن عبدالبر، 17/349)

(3) امام ابن قدامہ حنبلیؒ فرماتے ہیں:

"ولا يجوز مس المصحف إلا لمتوضئ، وهو قول علي، وابن مسعود، وسعد، وابن عباس، وعطاء، وطاووس، والشعبي، والنخعي، والحكم، وحماد، ومالك، والشافعي، وإسحاق، وأبي عبيد.”
"اور مصحف کو صرف باوضو شخص ہی چھو سکتا ہے، اور یہی قول حضرت علی، ابن مسعود، سعد، ابن عباس، عطاء، طاووس، شعبی، نخعی، حکم، حماد، امام مالک، امام شافعی، اسحاق اور ابو عبید کا ہے۔”
(المغني لابن قدامة، 1/193)

(4) امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

"ولا يمس المصحف إلا من هو على طهارة.”
"اور مصحف کو صرف وہی شخص چھوئے جو طہارت (پاکی) کی حالت میں ہو۔”
(الأم للشافعي، 1/45)

یہ تمام اقوال اس بات پر متفق ہیں کہ بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔

➎ نتیجہ

مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں درج ذیل نکات واضح ہوتے ہیں:

◈ قرآن کی آیت (الواقعہ: 79) صراحتاً بیان کرتی ہے کہ قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔
◈ احادیث مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ کا واضح حکم ہے کہ بغیر وضو قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا۔
◈ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع اس بات پر ہے کہ قرآن کو بغیر وضو ہاتھ لگانا ناجائز ہے۔
◈ ائمہ اربعہ اور جمہور محدثین و فقہاء اس مسئلے پر متفق ہیں کہ بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانا ممنوع ہے۔

لہٰذا، جو لوگ بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانے کو جائز سمجھتے ہیں، ان کا موقف نصوصِ شرعیہ کے خلاف اور باطل ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1