قرآن کا علم غیب: سائنس کے اعتراضات کا جواب
تحریر: عدیل طارق خان

قرآن مجید کی آیت اور عمومی اعتراض

إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (لقمان 31:34)

اعتراض کیا جاتا ہے کہ موسم کی پیشگوئی اور حاملہ عورت کے بچے کی جنس معلوم کرنے کے بعد، اس آیت کی افادیت یا صداقت چیلنج ہو چکی ہے۔ اس کی حقیقت جاننے کے لیے اس آیت کے پس منظر اور بیان کردہ علم کی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔

علم غیب کی وضاحت

یہ آیت علم غیب کے بارے میں ہے، نہ کہ کسی عام علم کے متعلق۔ سورۃ الانعام میں فرمایا گیا ہے:

"وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ” (الانعام 6:59)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہا:

”وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ ” پانچ چیزیں ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے: قیامت کب آئے گی، بارش کب ہو گی، رحموں میں کیا ہے، کل کیا ہوگا، اور انسان کہاں مرے گا۔“
(تفسیر طبری جلد 11 صفحہ 402 الرقم:13307)

النسفی نے غیب کے بارے میں لکھا: "غیب وہ ہے جس پر کوئی ثبوت نہیں ہے”۔
(تفسیر نسفی جلد 2 صفحہ 617)

آیت کا شان نزول

وارث بن عمرو نامی ایک بدو نے حضرت محمد ﷺ سے قیامت، بارش، حاملہ بیوی کی حالت، آئندہ عمل اور موت کی جگہ کے بارے میں سوال کیا تھا۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ان باتوں کا حقیقی علم صرف اللہ کو ہے۔
(فتح القدیر للشوکانی جلد 4 صفحہ 282)

علامہ مودودی فرماتے ہیں کہ ان پانچ امور کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، اور حقیقتاً غیب کی کوئی حد نہیں ہے۔
(تفہیم القرآن جلد 4 صفحہ 29)

علم کی نوعیت

یہاں علم سے مراد ایسا علم ہے جو قطعی اور کسی بھی ذریعہ پر منحصر نہ ہو۔ مثلاً اگر کسی بادلوں کو دیکھ کر بارش کا اندازہ لگایا جائے تو یہ علم خداوندی علم کے معیار کا نہیں ہے۔

قرآن میں اللہ کا علم دو اقسام پر مشتمل ہے:

  • علم غیب – وہ علم جو کسی ذریعہ سے نہیں حاصل کیا جا سکتا۔
  • علم محیط – ہر شے کا احاطہ کرنے والا علم۔

"وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ” (الانعام 6:59)

انسانی علم کی حدود

انسانی علم نہ تو مکمل ہے اور نہ قطعی۔ ایک ڈاکٹر مشاہدے سے علم حاصل کرتا ہے، لیکن یہ علم وحی یا مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ علم، علم غیب نہیں ہے۔

رحم مادر کے علم کا انتقال

اس آیت میں "عند” کا لفظ خاص علم کے لیے استعمال ہوا ہے، جو کہ دوسروں کو عطا بھی کیا جا سکتا ہے۔ علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ فرشتوں اور مخلوق میں سے جسے چاہے، رحم مادر کا علم عطا کرتا ہے۔
(روح المعانی جلد 11 صفحہ 109)

ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ اللہ نے جن کو چاہا، علم دیا۔
(تفسیر ابن کثیر جلد 6 صفحہ 315)

مَا فِي الْأَرْحَامِ کے معانی

کچھ علماء کے مطابق "مَا فِي الْأَرْحَامِ” میں صرف جنس کا علم نہیں، بلکہ بچے کی زندگی کے دیگر پہلو جیسے رنگ، کردار، اور روزی بھی شامل ہیں۔

خلاصہ

مَا فِي الْأَرْحَامِ کے علم کی دو قسمیں ہیں: علم غیب اور علم محیط۔ ڈاکٹروں کا بچہ کی جنس یا موسم کی پیشگوئی کرنا، کسی بھی طرح ان اقسام میں سے نہیں ہیں۔ قرآن اور علماء نے واضح کیا ہے کہ اللہ چاہے تو کسی کو علم عطا کر سکتا ہے، خواہ وہ وحی سے ہو یا مشاہدے کے ذریعہ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے