قرآن اور سائنس: علم، مشاہدے اور تحقیق کا لازمی تعلق
تحریر: ڈاکٹر شہباز منج

سائنس کی تعریف

ماہرین کے مطابق، سائنس کائنات کے فطری پہلوؤں کا غیر جانبدارانہ مشاہدہ اور ان سے جڑے بنیادی حقائق کا مطالعہ ہے۔ اس کا مقصد علم حاصل کرنا، مشاہدے اور تجربے کے ذریعے حقیقت کو سمجھنا اور منظم انداز میں نتائج کو مرتب کرنا ہے۔ سائنس کو حقیقت تک پہنچنے کے لیے مشاہدہ، تجربہ اور استقرائی منطق پر مبنی مطالعاتی عمل کہا جا سکتا ہے۔

سائنس اور مذہب کی ہم آہنگی

قرآن کا مطالعہ کرنے والا ہر قاری محسوس کر سکتا ہے کہ قرآن علم، مشاہدہ، غور و فکر اور حقائق کے غیر جانبدارانہ مطالعے پر زور دیتا ہے۔ قرآن کے مطابق، انسان کو تخلیق کے بعد سب سے پہلے "علم الاشیاء” دیا گیا، جو اس کی فضیلت کی بنیاد ہے۔ (البقرہ: 30-33) قرآن کی ابتدا ہی علم و تعلم کی آیات سے ہوئی۔ (العلق: 1-5) قرآن کہتا ہے کہ اہل علم اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے۔ (الزمر: 9) قرآن کے مطابق اللہ سے حقیقی خوف صرف اہل علم رکھتے ہیں۔ (الفاطر: 28)

مشاہدہ اور تجربہ کی اہمیت

قرآن نے کائنات کے مظاہر پر غور و فکر کو بار بار تاکید کی ہے اور ان مظاہر میں اللہ کی نشانیاں دیکھنے کی دعوت دی ہے۔ قرآن میں بار بار نگاہ ڈالنے اور غور و فکر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یہ عمل جدید سائنسی زبان میں مشاہدہ (Observation) اور تجربہ (Experiment) کہلاتا ہے۔ بار بار مشاہدہ کرنے اور مختلف حالات میں تجربے سے نتائج حاصل کرنا، سائنسی تحقیق (Scientific Research) کی بنیاد ہے۔

سائنس اور مذہب کا تعلق

قرآن سائنس کی کتاب نہیں، اس کا بنیادی مقصد انسان کی ہدایت ہے۔ تاہم، یہ اللہ کی قدرت، خلاقیت اور علم و حکمت کو سمجھنے کے لیے کائنات کی حقیقتوں کا مشاہدہ کرنے پر زور دیتا ہے۔ قرآن اور سائنس دونوں حقیقت تک پہنچنے کے لیے مشاہدہ اور تجربے کا راستہ اختیار کرتے ہیں، جس سے ان کے درمیان ہم آہنگی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔

سائنس دانوں کے خیالات

بہت سے معروف سائنس دانوں نے مذہب اور سائنس کی قربت کو تسلیم کیا ہے:

  • آئن اسٹائن: "سائنسی تحقیق آدمی میں مذہبی جذبات پیدا کرتی ہے، میرے لیے ایمان کے بغیر حقیقی سائنس دان کا تصور محال ہے۔”
  • ڈاکٹر موریس بکائی: "اسلام نے ہمیشہ مذہب اور سائنس کو جڑواں بہنوں کے طور پر تسلیم کیا ہے۔”
  • آئزک نیوٹن: نیوٹن نے دہریت کی مخالفت اور مذہب کے حق میں مضامین لکھے اور کہا کہ کائنات اللہ کے وجود کی واضح شہادت ہے۔
  • گلیلیو: "کائنات اور اس کے حقائق خدا کے تخلیق کردہ ہیں، سائنس اور مذہب میں تصادم نہیں۔”
  • کیپلر: اپنے مذہبی رجحانات کی وجہ سے سائنس کی طرف آئے اور اپنی سائنسی دریافتوں سے خدا کو پایا۔

اسلامی علماء کی آراء

علمائے اسلام بھی سائنس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں:

  • علامہ اقبال: "مذہب اور سائنس، مختلف طریقوں کے باوجود حقیقتِ واقعہ تک پہنچنے کا مقصد رکھتے ہیں۔”
  • مولانا مودودی: "سائنس کے حقائق ایمان کو گہرائی میں جڑ پکڑنے میں مدد دیتے ہیں۔”

اسلامی فکر و تہذیب اور سائنسی ترقی

مسلم اور غیر مسلم محققین کے مطابق قرونِ وسطیٰ کے مسلمانوں کی سائنسی ترقی قرآن و حدیث کی مشاہداتی و تجرباتی تعلیمات پر مبنی تھی۔ مثلاً، الجبرا، فلکیات، جغرافیہ اور طب کو اسلامی تعلیمات اور شرعی احکام کے تحت ترقی ملی۔ ابن النفیس نے بخاری کی حدیث کو بنیاد بنا کر پھیپھڑوں میں خون کی گردش کا نظام دریافت کیا۔

مغربی محققین کی رائے

مغربی محققین نے بھی اسلامی تہذیب کے سائنسی ترقی پر اثرات کو تسلیم کیا ہے:

  • رابرٹ بریفالٹ: "مسلمانوں نے یونانیوں سے زیادہ تجربات پر زور دیا۔”
  • ول ڈیوراں: "مسلم کیمیا دان علمِ کیمیا کے بانی ہیں۔”
  • راجر بیکن: مسلم سائنس دانوں کے تجرباتی طریقہ کار سے متاثر تھے۔

نتیجہ

قرآن کی دعوتِ مطالعۂ فطرت نے سائنس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسلامی فکر و تہذیب نے نہ صرف سائنس کو فروغ دیا بلکہ اس کے تجرباتی اور مشاہداتی اصولوں کو تقویت بھی دی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے