اعتراض: حضرت ابراہیم کے آگ سے بچ جانے کا قصہ
ملحد معترض لکھتے ہیں:
"یہ قصہ قرآن میں مکمل نہیں ملتا بلکہ مختلف سورتوں جیسے سورہ بقرہ، سورہ انعام، سورہ انبیا، سورہ مریم وغیرہ میں ٹکڑوں میں آیا ہے۔ انبیاء کے واقعات پر لکھی گئی کتابوں جیسے قصص الانبیا اور عرائس المجالس وغیرہ میں یہ قصہ تسلسل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ان کے مطابق، چاہے یہ واقعہ قرآن میں ہو یا دوسری کتابوں میں، سب کا ماخذ یہودی کتاب ‘مدراش رباہ’ ہے۔ کلیئر ٹسڈل نے اپنی کتاب میں اس کا تفصیلی موازنہ کیا ہے، اور فرق نہ ہونے کے سبب محمد ﷺ نے اس کو یہودیوں سے سنا اور اسے قرآن میں شامل کیا۔”
اس کے علاوہ، اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے تورات میں موجود بابل کی آیت کا حوالہ دیا جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کا ذکر ہے، اور دعویٰ کیا کہ محمد ﷺ نے یہ بات بغیر علم کے یہودیوں سے سنی اور اپنی کتاب میں شامل کر دی۔ مزید اعتراض میں، مصنف نے لفظوں اور زبان کی تاریخی الجھنوں کو بنیاد بنا کر دعویٰ کیا کہ نبی ﷺ نے اپنی لاعلمی میں یہودیوں کے خیالات کو اپنی تعلیمات کا حصہ بنایا۔
ردِ اعتراض
پہلی بات یہ ہے کہ یہ تمام باتیں اندازوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ یہ الزام تراشی کا ایک سراسر جھوٹا طریقہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مصنف کا علم نہایت محدود ہے، اور اس کی تحقیق انٹرنیٹ پر موجود اسلام مخالف ویب سائٹس مثلاً Answering Islam جیسی سائٹوں پر انحصار کرتی ہے۔ یہ مضامین سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔
حضرت ابراہیم کے والد کے نام پر اعتراض
ملحد کا دوسرا اعتراض ہے کہ قرآن نے حضرت ابراہیم کے والد کا نام ’’آزر‘‘ ذکر کیا ہے، جبکہ تورات میں ’’تارح‘‘ اور بعض یونانی روایات میں ’’آثر‘‘ نام آیا ہے۔ ان کے بقول محمد ﷺ نے یہ نام تجارت کے دوران شام کے سفر کے دوران سنا ہوگا، اور اسے اپنی کمزور یادداشت کی وجہ سے ’’آزر‘‘ لکھا۔
جواب:
ملحدین کی قیاس آرائی کا جواب دیتے ہوئے، یہ کہنا لازم ہے کہ محمد ﷺ جیسے ذہین انسان پر ’’کمزور یادداشت‘‘ کا الزام نہایت مضحکہ خیز ہے۔ قرآن جیسے مکمل کتاب کو ایک بار سن کر بھی اسی انداز میں سنانا ان کی ذہانت کا ثبوت ہے، جو ان کے دشمن بھی مانتے تھے۔
جارج سیل، جو کہ انگریزی میں قرآن کے پہلے مترجم ہیں، کہتے ہیں کہ ’’آزر‘‘ کا ذکر دراصل صحیح ہے، کیونکہ یہ کلیدی، اسیری اور فارسی زبانوں میں یہی تلفظ ہے۔ یہ نام آتش سے منسلک دیوتا سے وابستہ تھا اور قدیم عراقی تہذیب میں یہ نام عزت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مزید یہ کہ یہودی تالمود نے حضرت ابراہیم کے والد کا نام ’’ذارہ‘‘ یا ’’ذرہ‘‘ لکھا ہے، جو آزر سے ملتا جلتا ہے، اور بائبل کا متضاد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو (الف) دونوں نام ایک ہی شخصیت کے تھے، یا پھر آزر ہی اصل نام تھا۔
بائبل اور تالمود کی حقیقت
یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ بائبل حضرت ابراہیم کے ہزار سال بعد تحریر ہوئی اور چار مکاتب فکر نے اسے مختلف ادوار میں مرتب کیا۔ ان کے درمیان تضادات بھی موجود ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نسب نامے میں پندرہ پشتوں کا فرق۔ یہ بات بائبل کے متن کے ناقابل اعتبار ہونے کا ثبوت ہے۔
یوسی بیوس، مسیحی مؤرخ، نے ’’آثر‘‘ نام درج کیا اور بائبل کی گواہی کو رد کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسے توریت کی نسبت تالمود کی روایت پر زیادہ اعتماد تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ بائبل کے متضاد تفصیلات پر اندھا اعتماد کرنا کسی طرح بھی عقلمندی نہیں ہے۔
قرآن پر اعتراض کے عمومی اصولوں کی حقیقت
ایک عام اصول یہ فرض کیا جاتا ہے کہ جو بات پہلے آتی ہے، وہی سچ ہوتی ہے۔ حالانکہ اگر سچائی ایک ہی ہو تو بعد میں بھی بیان کی جائے، وہ سچائی وہی رہتی ہے۔ یہی اصول قرآن کے متعلق ہے کہ حضرت ابراہیم اور ان کے والد کا واقعہ قرآن میں موجود ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے نقل کیا گیا بلکہ اس سچائی کو اللہ نے محمد ﷺ پر وحی کے ذریعے نازل کیا۔
سورہ عنکبوت، آیت 12:
’’اور جو لوگ حق کا انکار کرتے ہیں اور ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ تُم ہمارے طریق کی پیروی کرو، تمہارا جُرم ہمارے ذمہ ہو گا۔ حالانکہ وہ اُن کی خطاؤں کا بوجھ اُٹھانے والے نہیں۔ بلکہ وہ تو بلاشبہ جھوٹے ہیں۔‘‘