قرآنی اسالیب کی منفرد خصوصیات اور بلاغت
تحریر: ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی

قرآن کریم کا منفرد اسلوب

قرآن کا اسلوب ایک منفرد اور غیر معمولی ہے جس میں نثر کی سادگی اور تسلسل کے ساتھ نظم کی خوبصورتی اور موسیقی کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔ تاہم، اسے نہ تو مکمل طور پر نثر کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظم۔ قرآن کی ساخت ایسی نہیں ہے جیسی عام کتابوں کی ہوتی ہے، جن میں ابواب و فصول قائم کر کے مخصوص موضوعات پر بحث کی جاتی ہے۔ اس کی بے نظیر زبان، دلائل کی ندرت، اور معنوی ربط اسے ایک منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔

قرآن کے مختلف اسالیب کا تعارف

قرآن کے مقام اور اس کے پیغام کو سمجھنے کے لیے اس کے مختلف اسالیب کا مطالعہ ضروری ہے۔ ذیل میں قرآن کے چند اہم اسالیب پر روشنی ڈالی گئی ہے:

1- عَود علیٰ البَدء (کلام کا آغاز اور اختتام ایک ہی مضمون پر)

یہ اسلوب قرآن میں کلام کو مؤثر بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی جس چیز سے بات شروع کی گئی ہو، اسی پر کلام کا اختتام کیا جائے تاکہ وہ مضمون ذہن نشین ہو جائے۔

مثال: سورہ مومنون کی ابتدائی آیات میں مومنین کی صفات بیان کی گئی ہیں اور ابتدا نماز سے کی گئی ہے:
قَد اَفلَحَ المُومِنُونَ۔ الَّذِینَ ھُم فِی صَلَاتِھِم خَاشِعُونَ
(مومنون 1-2)

درمیان میں دیگر صفات کے ذکر کے بعد اختتام پھر نماز پر کیا گیا:
وَالَّذِینَ ھُم عَلٰی صَلَاتِھِم یُحَافِظُونَ
(مومنون 9)

اس سے مقصد یہ ہے کہ نماز نیکیوں کا منبع ہے اور ان کی حفاظت بھی کرتی ہے۔

2- علیٰ سبیل المشاکلہ (الفاظ کی صوتی ہم آہنگی)

عربی ادب میں بعض اوقات الفاظ صرف صوتی ہم آہنگی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جبکہ ان کا مفہوم موقع و محل سے متعین ہوتا ہے۔

مثال: سورہ شوریٰ میں فرمایا:
وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃ مِّثلُھَا
(شوریٰ 40)

یہاں برائی کے بدلے میں برائی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، حالانکہ اس سے مراد انصاف کے تحت انتقام لینا ہے۔

3- نہی کے ساتھ قید (نہی کے ساتھ اضافی وضاحت)

یہ اسلوب قرآن میں کسی چیز کی برائی کو نمایاں کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تاکہ قارئین اس کے گھناؤنے پن کو سمجھ سکیں۔

مثال: سورہ نور میں فرمایا گیا:
وَلَاتُکرِھُوا فَتَیٰتِکُم عَلَی البِغَآءِ اِن اَرَدنَ تَحَصُّنًا
(نور 33)

یہاں مقصد یہ نہیں کہ اگر لونڈیاں پاکدامنی اختیار نہ کرنا چاہیں تو انہیں زنا پر مجبور کیا جائے، بلکہ اس قید کا مقصد اس عمل کی برائی کو ظاہر کرنا ہے۔

4- تصریف (آیتوں کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرنا)

قرآن ایک ہی مضمون کو مختلف سورتوں میں بار بار بیان کرتا ہے، لیکن ہر جگہ مختلف پہلوؤں سے پیش کرتا ہے تاکہ قارئین کو گہرائی سے سمجھ آئے۔

مثال: توحید کا ذکر کہیں فطرت انسانی کے اعتبار سے کیا گیا ہے، کہیں انبیاء کی دعوت کے طور پر، اور کہیں کائنات کے نظام سے دلائل کے ذریعے:
فِطرَتَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیھَا
(روم 30)

5- تخلیص (مضمون کے دوران موقع کی مناسبت سے موضوع کی تبدیلی)

یہ اسلوب قرآن میں کسی بیان کے دوران موقع کی مناسبت سے نصیحت یا واقعہ بیان کر کے دوبارہ اصل مضمون کی طرف پلٹنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

مثال: سورہ مومنون میں شروع میں مومنین کی صفات اور آخر میں حق کی تکذیب کرنے والوں کا ذکر ہے، درمیان میں حضرت نوحؑ کا واقعہ شامل کر کے پھر اصل موضوع پر واپس آیا گیا۔

حاصل مطالعہ

قرآن کی عظمت اور بلاغت کو سمجھنے کے لیے ان اسالیب کا مطالعہ ضروری ہے۔ قرآن کا ہر اسلوب مختلف پیرایوں اور اسلوبوں کے ساتھ اللہ کی وحدانیت، آخرت اور رسالت کی دعوت کو واضح کرتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے