دفن کے بعد قبر پر اذان کہنا بدعت سیئہ;ہے، نہ احادیث میں اس کی کوئی اصل ہے اور نہ صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ دین اور سلف صالحین کے زمانہ ہی میں اس کا کوئی وجود ملتاہے، یہ;ہندوستان کی ایجاد ہے، اس کے باوجود ‘‘ قبوری فرقہ’’ اس کو جائز قرار دیتاہے، امام بریلویت احمد رضا خاں بریلوی نے اس مسئلہ پر ’’ایذان الاجرفی اذان القبر‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی لکھا ہے، جس میں وہ حسن یا صحیح تو درکنار کوئی ضعیف اور موضوع (من گھڑت) روایت بھی اس بدعت کے ثبوت میں پیش نہیں کر سکے۔
اگر دفن کے بعد قبر پر اذان کہنا کوئی نیکی کا کام ہوتا یا شریعت کی رو سے میت کو کوئی فائدہ پہنچتا تو صحابہ کرام ضرور اس کا اہتمام کرتے، کیونکہ وہ سب سے بڑھ کر قرآن وسنت کے معانی، مفاہیم و مطالب اور تقاضوں کو سمجھنے والے اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے تھے۔
چاروں اماموں سے بھی اس کا جواز یا استحباب منقول نہیں، مزے کی بات تو یہ ہے کہ حنفی مذہب کی تمام معتبر کتابوں میں اس بدعت قبیحہ کا نام ونشان تک نہیں ملتا، بلکہ بعض حنفی اماموں نے قبر پر اذان کے عدم جواز اور اس کے بدعت ہونے کی صراحت کی ہے۔
۱۔ درالبحارمیں ہے:
من البدع الّتی شاعت فی بلاد الھند الأذان علی القبر بعد الدّفن۔
‘‘ ہندوستان میں عام ہونے والی بدعتوں میں سے ایک بدعت دفن کرنے کے بعد اذان کہنا بھی ہے۔’’
(منقول از ‘‘ جاءالحق’’: ۳۱۸/۱)
۲۔ حنفی مذہب کے جلیل القدر امام محمود بلخی کہتے ہیں:
الأذان علی قبر لیس بشئ۔
‘‘ قبر پر اذان کہنا کچھ نہیں ہے۔’’
(منقول از ‘‘ جاء الحق’’ : ۳۱۸/۱)
۳۔ ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں:
لا یسنّ الأذان عند ادخال المیّت فی قبرہ، کما ھو المعتاد الآن، قد صرّح ابن حجر بأنّہ بدعۃ و قال: من ظنّ أنّہ سنّۃ، فلم یصب۔
‘‘ میت کو قبر میں داخل کرتے وقت مروجہ اذان سنت نہیں، حافظ ابن حجر المکی نے اس کے بدعت ہونے کی صراحت کی ہے اور فرمایا ہے کہ جس نے اسے سنت سمجھا، وہ درستی کو نہیں پہنچا۔’’
تنبیہ:
ابن عابدین شامی حنفی نے بعض شافعیوں کی کتابوں سے اذان کے مواقع ذکر کیے ہیں، ان میں سے ایک میت کو قبر میں اتارتے وقت کی اذان کا ذکر کیا ہے، ساتھ یہ بھی لکھا ہے:
لکن ردہ ابن حجر فی شرح العباب۔
‘‘ لیکن ابن حجر(مکی) نے شرح العباب کتاب میں اس کا رد کیا ہے۔’’
اس کے جواب میں احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:
‘‘ اولاً توابن حجر (مکی) شافعی ہیں، بہت سے علماء جن میں بعض احناف بھی شامل ہیں، فرماتے ہیں کہ اذان قبر سنت ہے اور امام ابن حجر شافعی اس کی تردید کرتے ہیں تو بتاؤ کہ حنفیوں کو مسئلہ جمہور پر عمل کرنا ہوگا کہ قول شافعی پر۔’’
(‘‘ جاء الحق’’: ۳۱۶/۱)
تبصرہ:
ابن عابدین شامی حنفی نے شافعیوں کی کتاب سے میت کو قبر میں اتارتے وقت اذان کا ذکر کیا ہے نہ کہ قبر پر اذان کا، ساتھ ہی ابن حجر مکی کا انکار ورد ذکر کر دیا، اتنی سی بات پر نعیمی بریلوی نالاں نظر آتے ہیں، اگر ابن حجر مکی شافعی ہیں تو شافعیوں کی بعض کتابوں سے منقول بدعت کیوں محبوب ہے؟ اس پر سہاگہ یہ کہ اس بدعت کا تعلق قبر پر اذان سے نہیں ہے بلکہ میت کو قبر میں داخل کرتے وقت کی اذان ہے، جس کے بریلوی قائل نہیں، رہا ان کا یہ کہنا کہ ‘‘ بہت سے علماء جن میں بعض احناف بھی شامل ہیں، فرماتے ہیں کہ اذان قبر سنت ہے اورامام ابن حجر (مکی) شافعی اس کی تردید کرتے ہیں۔’’
تو ہم کہتے ہیں کہ ‘‘ مفتی صاحب تو فوت ہوگئے ہیں، کیا ان کے حواری ایک بھی حنفی عالم کا نام بتا سکتے ہیں؟ اگر نہ بتا سکے تو۔۔۔۔۔۔
اہل بدعت کے دلائل
دلیل نمبر۱:
اہل بدعت کا عمومی دلائل سے اس کا ثبوت پیش کرنا صحیح نہیں، کیونکہ بدعات یا تو عمومی دلائل کے تحت آتی ہی نہیں یا ان سے مستثنی ہوتی ہیں۔
دلیل نمبر۲:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نزل آدم بالھند واستوحش، فنزل جبریل، فنادیٰ بالأذان: اللہ أکبر، اللہ أکبر، أشھد أن لا الہ الّا اللہ، مرّتین، أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ، مرّتین، قال آدم: من محمّدا رسول اللہ، مرّتین، قال آدم: من محمّد؟ قال: آخر ولدک من الأنبیاء۔
‘‘ آدم علیہ السلام (جنت سے) ہندوستان میں اترے اور وحشت زدہ ہو گئے، پھر جبریل علیہ السلام اترے اور اذان کہی
اللہ أکبر، اللہ أکبر، أشھد أن لا الہ الّا اللہ،أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ
تو آدم علیہ السلام نے کہا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ جبریل نے کہا، آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ہیں۔’’
(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی: ۱۰۷/۵، تاریخ دمشق لابن عساکر: ۴۳۷/۷)
تبصرہ:
۱۔ یہ روایت ‘‘ ضعیف’’ ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فیہ مجاھل
‘‘ اس میں کئی مجہول راوی ہیں۔’’ (فتح الباری: ۷۹/۲)
۲۔ اس کے راوی علی بن (یزید بن) بہرام الکوفی کی توثیق نہیں مل سکی۔
۳۔ عمروقیس راوی کا تعین اور اس کی توثیق مطلوب ہے۔
۴۔ اس روایت میں قبر پر اذان کا اشارہ تک نہیں، اہل بدعت خواہ مخواہ اپنی کتابوں میں خام مال لوڈ کرتے رہتے ہیں، یہ روایت ان کی بدعت کو کمزور سہارا بھی نہیں دیتی۔
دلیل نمبر ۳:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے راویت ہے:
رآنی النّبی صلّی اللہ علیہ وسلّم حزینا، فقال: یا ابن أبی طالب! انّی أراک حزینا، فمر بعض أھلک یؤذّن فی أذنک، فانّہ درءالھمّ۔
‘‘ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غمگین دیکھا تو فرمایا، اے ابو طالب کے بیٹے! میں آپ کو غمگین دیکھتا ہوں، اپنے کسی گھر والے کو حکم دیں کہ وہ آپ کے کان میں اذان کہے کیونکہ یہ اذان غموں کا مداوا ہے۔’’
(مسند الفردوس بحوالہ: ‘‘ جاء الحق’’: ۳۱۴)
تبصرہ:
یہ روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے، نیز اس میں قبر پر اذان کا ذکر تک نہیں ہے۔
دلیل نمبر ۴:
سیدنا عبداللہ بن عمرو عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا رأیتم الحریق فکبّروا، فانّ التّکبیر یطفئہ۔
‘‘ جب تم آگ کو دیکھو تو تکبیر کہو، کیونکہ اللہ اکبر کہنا اس کو بجھا دیتاہے۔’’
(عمل الیوم واللیۃ لابن السنی: ۲۹۸-۲۹۵، الدعا للطبرانی: ۱۲۶۶)
تبصرہ:
۱۔ یہ روایت موضوع(من گھڑت) ہے، کیونکہ اس کی سند میں قاسم بن عبداللہ بن عمرراوی ‘‘ متروک’’ ہے، امام احمد رحمہ اللہ نے اسے جھوٹا کہا ہے۔
(تقریب التھذیب: ۵۴۶۸)
امام طبرانی کے ہاں الدعاء: ۱۲۶۷-۱۲۶۶ میں اس کی متابعت اس کے بھائی عبدالرحمن بن عبداللہ بن عمر نے کر رکھی ہے، وہ بھی ‘‘ کذاب’’ ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے بھی ‘‘ متروک’’ کہاہے۔
(التقریب: ۳۹۲۲)
اگر کوئی کہے کہ الکامل لابن عدی ( ۱۴۶۹/۴، وفی نسختہ: ۱۵۱/۴) اور الدعوات الکبیر للبیہقی (۲۳۸) میں متابعتا ابن لہیعہ کی روایت آتی ہے تو یہ ابن لہیعہ (ضعیف عند الجمہور) کی تدلیس ہے، جیسا کہ ابن ابی مریم کہتے ہیں:
ھذا الحدیث سمعہ ابن لھیعۃ من زیاد بن یونس الحضرمی، رجل یسمع معنا الحدیث، عن القاسم بن عمر، و کان لھیعۃ یستحسنہ، ثمّ انّہ قال: انّہ یرویہ عن عمرو بن شعیب۔
‘‘ اس حدیث کو ابن لہیعہ نے ہمارے ایک ساتھی زید بن یونس الحضرمی سے سنا، وہ قاسم بن عبداللہ بن عمر سے بیان کرتے ہیں، ابن لہیعہ اسے مستحسن خیال کرتے تھے، پھر انہوں نے کہا، اسے وہ عمروبن شعیب سے بیان کرتاہے۔’’
(الضعفاء الکبیر للعقیلی: ۲۹۶/۲)
ثابت ہوا کہ یہ متابعت اس سند کی ہے، جس میں قاسم بن عبداللہ ‘‘ کذاب’’ راوی موجود ہے۔
دلیل نمبر۵:
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ دفن ہوئے، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے تسبیح بیان کی، لوگوں نے بھی تادیر آپ کے ساتھ تسبیح بیان کی، پھر آپ نے بڑائی بیان کی، لوگوں نے بھی بڑائی بیان کی، پوچھا، اے اللہ کے رسول! آپ نے تسبیح بیان کیوں کی، فرمایا:
لقدتضایق علی ھذا العبد الصّالح قبرہ، حتی فرّجہ اللہ عزّوجلّ عنہ۔
‘‘ اللہ کے اس نیک بندے پر اس کی قبر تنگ ہوگئی تھی، حتی کہ اللہ عزوجل نے اسے فراخ کر دیا۔’’
(مسند الامام احمد:۳۲۰/۳، ح:۳۷۷،۱۴۹۳۴،ح: ۱۵۰۹۴)
تبصرہ:
اس کی سند ‘‘ ضعیف ’’ ہے، اس میں محمود بن عبدالرحمن بن عمروالجموع راوی کی توثیق و عدالت ثابت نہیں، حافظ ہیثمی لکھتے ہیں:
قال الحسینی: فیہ نظر، قلت: ولم أجد من ذکرہ غیرہ۔
‘‘ حسینی نے کہا ہے کہ اس میں ‘‘ نظر’’ ہے، میں کہتا ہوں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ ان کے علاوہ کسی اور نے اسے ذکر کیا ہو۔’’
(مجمع الزوائد: ۴۶/۳)
دلیل نمبر ۴:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا نودی للصّلاۃ أدبر الشّیطان لہ ضراط حتی لا یسمع التّاذین۔
‘‘ جب نماز کے لیے اذان کہی جاتی ہے تو شیطان گوزمارتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے تاکہ وہ اذان نہ سنے۔’’
(صحیح بخاری: ۶۰۸، صحیح مسلم: ۳۸۹)
تبصرہ:
یہاں مطلق اذان کا ذکر نہیں، بلکہ نماز کے لیےاذان کا ذکر ہے،لہذا اس سے قبر پر اذان کا جواز ثابت کرنا ناعاقبت اندیشی ہے، کیونکہ شریعت مطہرہ میں قبر پر اذان کا ثبوت نہیں، نہ صحابہ کرام کی زندگیوں میں اس کا ثبوت ملتاہے، لہذا اس کے بدعت قبیحہ اور ایجاددین ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
دلیل نمبر ۷:
قبر پراذان کو تلقین پر قیاس کیا گیاہے، قبر پر تلقین شیعوں کا شعار ہے، جسے بریلویوں اور دیوبندیوں نے اپنا دین بنا لیا ہے، جبکہ دفن کے بعد میت کو قبر پر تلقین کرنا دلائل شرعیہ سے ثابت نہیں بلکہ بدعت ہے، ایک بدعت کو دوسری بدعت پر قیاس کرنا کیونکر صحیح ہوگا۔
قارئین کرام! ان دلائل کو باربار پڑھیں ‘‘ مفتی’’ احمد یارنعیمی صاحب کی اس بات پر بھی غور کریں کہ ‘‘ مسلمان میت کو قبر میں دفن کر کے اذان دینا اہل سنت کے نزدیک جائزہے جس کےبہت سے دلائل ہے۔’’ (‘‘جاء الحق’’:۳۱۰/۱) پھر فیصلہ کریں کہ ‘‘ مفتی’’ صاحب اپنے دعوی میں کتنے سچے ہیں؟ نیز لکھتے ہیں: ‘‘ قبر پر بعد دفن اذان دینا جائز ہے، احادیث اور فقہی عبارات سے اس کا ثبوت ہے۔’’
(‘‘ جاء الحق’’ : ۳۱۱/۱)
ہمیں بھی بتایا جائے کہ وہ احادیث اور فقہی عبارات کہاں ہیں؟ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ حنفی مذہب بلکہ مذاہب اربعہ میں اس کا نام و نشان تک نہیں ہے، مدعی پر دلیل لازم ہے، ہندوستانی بدعت کو ‘‘ اہل سنت کے نزدیک جائز’’ قرار دینا انصاف نہیں، ان کو معلوم نہیں کہ یوم حساب آنے والا ہے، اللہ تعالیٰ پوچھ لے گا۔