قبروں اور آستانوں پر چراغاں کرنا: ایک جائزہ
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

قبروں اور آستانوں پر چراغ جلانے کی بدعت

قبروں اور آستانوں پر چراغ جلانا ایک ایسی بدعت ہے جو دین میں اضافے، کفار کی مشابہت اور مال کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔ یہ عمل نہ تو قرآن و سنت سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ یا تابعین کے دور میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔

بدعت کی مذمت

بدعت ایک ایسی راہ ہے جو دین میں نیاپن اور گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ ایک بدعت دوسری بدعت کا راستہ ہموار کرتی ہے کیونکہ بدعت میں علم اور عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَانٍ مَرِيدٍ”
(الحج: 3)
ترجمہ: "اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کا اتباع کرتے ہیں۔”

قرآن و حدیث سے تردید

قبروں پر چراغ جلانے اور ان کی تعظیم کرنے کو قرآن و سنت سے ثابت کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ حافظ ابن کثیر نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بدعتی لوگ حق سے منہ موڑتے ہیں اور باطل کی پیروی کرتے ہیں۔

امام بریلویت کی رائے

بریلوی مکتبہ فکر کے امام، جناب احمد یار خان نعیمی نے اپنی کتاب "جاء الحق” میں اس بدعت کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق، اگر چراغ جلانے سے فائدہ ہو تو جائز ہے، خاص طور پر بزرگوں کی قبروں کے لیے۔ تاہم، یہ دلیل کمزور ہے کیونکہ نہ صحابہ کرام نے ایسا کیا اور نہ ہی تابعین نے۔

صحابہ اور تابعین کا عمل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے کبھی قبروں پر چراغاں نہیں کیا۔ اگر یہ عمل درست ہوتا تو صحابہ ضرور اس کا اہتمام کرتے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تابعین نے بھی صحابہ کی قبروں پر ایسا کوئی عمل انجام نہیں دیا۔

حنفی فقہاء کا موقف

حتی کہ حنفی فقہ میں بھی قبروں پر چراغ جلانے کو بدعت اور جاہلیت کی رسم قرار دیا گیا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے کہ:
"قبروں پر شمعیں لے جانا بدعت ہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔”
(فتاویٰ عالمگیری: 5/351)

علماء کی آراء

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ قبروں پر چراغ جلانا بالاتفاق ناجائز ہے۔
علامہ ابن القیم نے اسے کبیرہ گناہ قرار دیا ہے اور اس عمل کو نصاریٰ کی تقلید سے تشبیہ دی ہے۔
حافظ ابن عبد الہادی نے بھی قبروں پر چراغ جلانے کو شرک کے فتنوں میں سے قرار دیا ہے۔

نعیمی صاحب کی تاویلات

نعیمی صاحب قبروں پر چراغاں کے جواز کے لیے مختلف تاویلات پیش کرتے ہیں، جیسے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی مسجد پر روشنی کرنا۔ تاہم، یہ دلیل غیر متعلقہ ہے کیونکہ بات قبروں کی ہو رہی ہے، نہ کہ مسجدوں کی۔

قبروں پر چراغاں اور عوام میں فریب

یہ بدعت عوام میں اس عقیدے کو فروغ دیتی ہے کہ قبروں پر چراغاں کرنے سے کسی روحانی فائدے کا حصول ممکن ہے، جو کہ سراسر بے بنیاد ہے۔ علماء کرام نے اس عمل کی سختی سے مخالفت کی ہے اور اسے مال کا ضیاع اور دین میں غلو کا سبب قرار دیا ہے۔

نتیجہ

قبروں اور آستانوں پر چراغ جلانا، قندیلیں روشن کرنا اور ان کی تعظیم میں مبالغہ کرنا ایک بدعت ہے، جس کی کوئی بنیاد نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی سنت میں۔ صحابہ اور تابعین نے کبھی ایسا عمل نہیں کیا، اور یہ عمل صرف عوامی فریب اور گمراہی کا باعث ہے۔

دعوتِ فکر

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دین کے صحیح فہم کی طرف رجوع کریں اور بدعات سے بچتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے اعمال انجام دیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے