فقہ حنفی کی مجلس شوریٰ کی حقیقت

یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کیجانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

جھنگوی صاحب فقہ حنفی کی وجہ ترجیح اور دیگر آئمہ کی بجائے امام ابو حنیفہ کی تقلید کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس لیے کہ امام صاحب کی فقہ شورائی ہے۔ امام صاحب نے علماء کی ایک مجلس شوریٰ بنائی ہوئی تھی جو مسئلہ پیش آتا اسی شوریٰ میں رکھا جاتا۔ شوریٰ جو بھی فیصلہ کرتی اور جس مسئلہ پر متفق ہو جاتی وہ مسئلہ مدون کر لیا جاتا۔ بخالف دوسرے آئمہ کرام کے ان کی فقہ غیر شوریٰ ہے ہر ایک نے اکیلے اکیلے بیٹھ کر لکھی ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 79)
الجواب:- اولاً:- جھنگوی صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ یہ مجلس شوریٰ کتنے ارکان پر مشتمل تھی؟ اور اس میں کون کون سے فقہا شامل تھے ؟ پھر ان کی علمی لیاقت کیا تھی؟ اور یہ کب اور کہاں شوریٰ بنائی گئی تھی؟ حالانکہ ان کا اخلاقی فرض تھا ان تمام چیزوں کی صراحت کرتے اور اس پر معتبر حوالے نقل کرتے۔ مگر یہ تمام باتیں محض جھوٹ کا پلندہ اور سینہ گزٹ تھیں۔ اس لیے جھنگوی صاحب نے محض لکھ دنیا ہی کافی جانا۔

ثانیاً: علماء دیوبند کی طرف سے انوار الباری میں اس مجلس شوری کی داستان لکھی ہوئی ہے اب ترتیب وار ان اراکین کا حال ملاحظہ کریں۔
◈۔۔۔اسد بن عمر و کوفی وفات ۱۹۰ ھ
یہ اس داستان شوریٰ کا رکن ہے جیسا کہ ،انوار الباری ص 186 ج1 میں ہے، اس کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں کہ اسد محمد ثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
(کتاب الضعفاء ص 285)
❀ امام جوزجانی فرماتے ہیں کہ اللہ اس سے فارغ ہو چکا ہے۔ (احوال الرجال ص 76)

❀ امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے مذہب کے موافق احادیث وضع کر لیا کرتا تھا۔(میزان ص 206 ج1)

◈۔۔۔حبان بن علی عنزی وفات ۱۷۲ ھ
اس کو بھی رکن مجلس شوریٰ کہا گیا ہے۔ انوار الباری ص 164 ج 1، یہ شیعیت کی طرف مائل تھا۔ محدثین نے اسے ضعیف و متروک قرار دیا ہے۔
(تہذیب ص 174 ج 2 و میزان ص 449 ج 1)

◈۔۔۔حسن بن زیاد لولوی وفات۲۰۴ ھ یہ بھی داستان شوریٰ کا رکن بنایا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 203 ج1)
اس کے بارے امام ابن مدینی فرماتے ہیں کہ اس کی حدیث لکھی نہ جائے۔ ابو حاتم کہتے ہیں ثقہ نہیں۔ دار قطنی متروک کہتے ہیں۔ امام ابن معین ، امام یعقوب ، امام عقیلی اور ساجی کہتے ہیں کہ کذاب ہے۔ (لسان ص 208,209 ج 2)

❀ امام نسائی فرماتے ہیں خبیث اور کذاب ہے۔ (کتاب الضعفاء ص 289,310)

◈۔۔۔حفص بن عبدالرحمن بلخی ولادت ۱۱۹ وفات ۱۹۹ ھ یہ بھی شوریٰ کے رکن تھے۔
(انوار الباری ص 202 ج1)
اس کے تفصیلی حالات معلوم نہیں ہو سکے۔ بھلا جو شخص کوفہ سے دور دراز کے علاقہ بلخ میں ۱۰۹ ھ میں پیدا ہوا وہ کب کوفہ آیا ہو گا اور کب کسب فیض کر کے مجلس شوریٰ کا رکن بنا ہو گا۔

◈۔۔۔امام حفص بن غیاث قاضی معروف محدث اور فقہی ہیں ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 200 ج1)
حالانکہ یہ حنفی قطعاً نہ تھے بلکہ ان سے بسند صحیح ثابت ہے کہ میری امام ابو حنیفہ سے مجلس تھی۔ وہ ایک ایک مسئلہ میں دس دس فتوے دیتے تھے۔ ہم نہیں جان سکتے تھے کہ ان میں سے کسی فتویٰ پر عمل کریں اور وہ خود بھی ان سے رجوع کر لیتے۔ ایک مجلس میں ایسا ہوا کہ انہوں نے ایک ہی مجلس میں پانچ فتوے دیئے میں نے جب ان کی یہ حالت و کیفیت دیکھی تو ان کو ترک کر دیا اور حدیث کی طرف متوجہ ہو گیا۔
(کتاب اللہ ص 220, 205 ج 1 لا بن احمد بن حنبل)

◈۔۔۔ابو مطیع حکم بن عبد اللہ ولادت ۱۱۵ ھ وفات ۱۹۹ ھ یہ بھی مجلس شوریٰ کے رکن بتائے جاتے ہیں۔
(انوار الباری ص 202 ج1)

❀ امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ مرجیوں کا سرغنہ تھا اور محدثین سے بغض رکھتا تھا۔ امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ کذاب اور مرجئی تھا۔ امام جوزجانی فرماتے ہیں سنت سے دشمنی اور احادیث گھڑا کرتا تھا۔ذھبی کہتے ہیں نہایت کمزور اور واہ تھا۔ اس نے احادیث وضع کی ہیں۔
(میزان ص 574 ج 1 ولسان ص 334 ج 2)

◈۔۔۔حماد بن دلیل قاضی مدائن یہ بھی مجلس شوریٰ کا رکن بتایا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 205 ج 1)

موصوف فقہ میں امام صاحب کے شاگر د تھے ذھبی نے ثقہ کہا ہے۔ (الکاشف ص 187 ج 1 )
لیکن ابو داؤد کے علاوہ کسی معروف کتاب میں ان سے کوئی حدیث مروی نہیں۔

❀ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں اہل الرائے سے تھے ۔اہل حدیث نہ تھے ۔ میں نے صرف دو حدیثیں ان سے سنی ہیں۔ (تہذيب ص 8 ج 3)

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ صدوق ہے۔ اہل الرائے ہونے کی وجہ سے اس سے کراہت کی گئی ہے۔ ( تقریب ص 82)

اس کے متعلق معلوم نہیں ہو سکا کہ کب پیدا ہوئے اور کب تحصیل علم کی طرف متوجہ ہوئے اور عمر کے کس حصہ میں انہوں نے مجلس شوریٰ کی رکنیت اختیار کی۔

◈۔۔۔حماد بن ابی حنیفہ وفات ۱۷۶ ھ یہ بھی رکن شوریٰ ہیں۔
(انوار الباری ص 175 ج 1 )

❀ امام ابن خلقان فرماتے ہیں کہ اپنے والد کے مذہب پر تھے۔ نیک اور بہتر آدمی تھے۔ (بحوالہ لسان ص 347)

ابورجا کہتے ہیں کہ میں نے امام جریر سے حماد کی ایک روایت بیان کی تو امام جریہ کہنے لگے کہ حماد نے جھوٹ بولا ہے۔ ان سے کہہ دو تمہارا حدیث سے کیا تعلق تم تو محض جھگڑالو ہو۔ (الکامل لابن عدی ص 669 ج 2)

ذھبی فرماتے ہیں کہ حماد کو ابن عدی اور دیگر محدثین نے حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔ (میزان ص 590 ج1)

❀ امام شریک فرماتے ہیں کہ حماد افاک، یعنی جھوٹ گھڑنے والا ہے۔ (کتاب الحجر و حسین ص 72 ج 3)

◈۔۔۔خالد بن سلیمان بلخی ولادت ۱۱۵ ھ وفات ۱۹۹ ھ یہ بھی مجلس شوریٰ کے رکن بتائے جاتے ہیں۔
(انوار الباری ص 203 ج1)

ان کے حالات رجال کی معروف کتب سے دستیاب نہ ہو سکے۔ ان کے متعلق بعض حقائق مولانا محمد رئیس ندوی نے (اللمحات ص 531 ج 4) میں بیان کیے ہیں جن کا مفاد یہ ہے کہ خالد پر حدیث غالب تھی ان کا بطور فقیہ کوئی شمار نہیں۔ امام ابن معین نے ضعیف کہا ہے۔ ابن عدی فرماتے ہیں کہ اس کی احادیث موضوع ومن گھڑت روایات کے مشابہ ہیں۔
(الکامل لابن عدی ص 915 ج 3)

◈۔۔۔امام داؤد بن نصیر طائی وفات ۱۶۰ ھ یہ بھی مجلس شوریٰ کے رکن بتائے جاتے ہیں۔
(انوار الباری ص 162 ج 1 )

معروف محدث تھے۔ لیکن انہوں نے امام ابو حنیفہ کی زندگی میں ہی ان سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ اور اپنی کتب کو بصیرت تامہ کے بعد دریا برد کر دیا تھا۔
(حلیۃ الاولیاء ص 336 ج 6)و تاریخ بغداد ص 347 ج 8 و تہذیب ص 203 ج 3)

قاسم بن معن نے امام داؤد طائی سے پوچھا کہ آپ نے اپنے استاد کی صحبت و مجلس کو کیوں چھوڑ دیا جس نے آپ کو علم سکھایا ؟ امام داؤد طائی نے جواب دیا کہ میں نے اس شخص اور اس کے اصحاب کے دلوں کو غافل پایا اور ان کے یہاں سنن نبویہ کو مردہ پایا ان کے اغراض و مقاصد میں خدا طلبی کے بجائے مختلف دنیاوی مطامع کو مخفی پایا ان میں دنیا طلبی کا تر جیحی ذوق پایا و غیرہ لہذا میں نے ان کی مجلس و مصاحبت چھوڑ کر گوشہ گیری و خانه نشینی ہی میں عافیت محسوس کی اور عبادت میں لگ گیا۔
(اخبار ابی حقیقة للصیمری ص 113)

◈۔۔۔امام زفر بن حذیل ولادت ۱۱۰ ھ وفات ۱۵۸ ھ یہ بھی مجلس شوریٰ کے رکن بتائے جاتے ہیں۔
(انوار الباری ص 160 ج 1 )
امام ابو حنیفہ کے شاگرد اور قیاس کے ماہر تھے۔

❀ امام ابو حنیفہ فرمایا کرتے تھے کہ زفر کے قیاس نہ لیا کرو۔ ورنہ تم حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر بیٹھو گے۔ (بحوالہ مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ ص 74 ج 4)

ان کی ثقات مختلف فیہ ہے امام ابن معین نے ثقہ کہا ہے۔ (لسان ص 437 ج 2)
امام ثوری اس سے روایت لینے سے منع کرتے تھے۔ (عقیلی ص 98 ج 3)
ابن سعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں کچھ بھی نہیں۔ (میزان ص 71 ج 2)
بہر حال موصوف صدوق قسم کے راوی ہیں۔

◈۔۔۔امام زهیر بن معاویہ ولادت ۱۰۰ وفات ۱۷۲ ھ یہ بھی مجلس شوریٰ کے رکن بتائے جاتے ہیں۔
(انوار الباری ص 164 ج 1)

حالانکہ یہ مسلک محدثین پر تھے ۔ امام سفیان ثوری سے بڑا لگاؤ رکھتے تھے۔ اہل عراق عام ثوری کی زندگی میں کہا کرتے تھے کہ جب سفیان ثوریٰ فوت ہو گئے تو ز ھیر ان کے جانشین ہونگے۔ (تہذیب ص 352 ج 3)

❀ امام سفیان ثوری اور امام ابو حنیفہ کے درمیان اعتقادی و فروعی اختلافات پھر امام ثوری کا امام ابو حنیفہ سے مخالفانہ موقف اس بات کی بین دلیل ہے کہ ان دونوں کی آپس میں راہیں الگ تھلگ تھیں۔ اگر زھیر بھی مجلس شوریٰ کارکن ہوتا تو اہل عراق ان کو امام ثوری کا جانشین کبھی خیال نہ کرتے بلکہ حق یہ ہے کہ ان کا شمار اہل الرائے کی بجائے محدثین اور اصحاب سنت سے ہے۔ جیسا کہ امام ابن عیینہ اور ابو حاتم نے صراحت کی ہے۔ (تہذیب ص 352 ج 3)

الغرض انہیں مجلس شوریٰ کا رکن کہنا خالص جھوٹ اور سولہ آنے غلط بیانی ہے۔

◈۔۔۔شریک بن عبد الله القاضی ولادت ۹۵ وفات ۱۷۷ ھ یہ بھی مجلس شوریٰ کے رکن بتائے جاتے ہیں۔
(انوار الباری ص 166 ج 1)
بلاشبہ شریک ایک فاضل اور قاضی تھے عدل وانصاف سے متصف تھے۔ سنت کے حامی اور بدعت کا قلع قمع کرنے والے تھے۔ مسلک محدثین کے پابند تھے۔ مرجیہ کے سخت مخالف تھے۔ حسن درجہ کے راوی ہیں۔ مگر انہیں مجلس شوریٰ کار کن کہنا غلط ہے۔ وہ تو حفیت کے سخت مخالف تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ’’کوفہ کے ہر محلہ میں مجھے شراب فروشی تو گوارہ ہے مگر وہاں کسی حنفی کا ہونا گوارہ نہیں۔‘‘
(کتاب اللہ ص 203 204 215 وابن عدی ص 1324 ج 3)

ابوحنیفہ کے یار قمی چوروں سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں اور یہ کہ احناف کا مذہب احادیث کو رد کرنے کا ہے۔ (کتاب السنہ ص 304 ج 1)
مگر یار لوگ انہیں بھی مجلس شوریٰ کا رکن کہتے ہیں۔

◈۔۔۔امام شعیب بن اسحق دمشقی ولادت ۱۱۸ وفات ۱۸۹ ھ یہ بھی مجلس شوریٰ کے رکن باور کرائے جاتے ہیں۔
(انوار الباری ص 202 ج1)
معروف محدث اور ثقہ ہیں لیکن عقیدہ کے لحاظ سے مرجی تھے۔ ان کی ولادت شام کے شہر دمشق میں کوفہ سے بہت زیادہ دور ہوئی تھی۔ یہ کب پروان چڑھے اور کب کوفہ آکر انہوں نے مجلس شوریٰ کی رکنیت اختیار کی۔ یہ سب باتیں تاحال پردہ غیب میں ہیں۔
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ شورائی کہانی ہی داستان ہے۔

◈۔۔۔ابو عاصم ضحاک بن مخلد ولادت ۱۲۲ء وفات ۲۱۲ ھ ۔ یہ بھی مجلس شوری کے رکن بنائے جاتے ہیں۔
(انوار الباری ص 204 ج1)
یہ بالا تفاق ثقہ راوی ہیں۔ ان کے امام سفیان ثوری سے گہرے مراسم تھے۔ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے وہیں سے امام ابن جریج کی درسگاہ میں تعلیم حاصل کی۔ پھر بصرہ تشریف لے گئے اور تادم وفات وہیں رہے۔
(تہذیب ص 451 ج 4)
ان کا امام ابو حنیفہ سے تلمذ ثابت ہی نہیں۔ جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ان کو شوریٰ کا رکن کہنا محض تقلید ی ہاتھ کی صفائی ہے۔

◈۔۔۔امام عافیہ بن یزید وفات ۱۸۰ ھ ۔ان کو بھی شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 166 ج 1)
حدیث میں ثقہ ہیں، مگر جب ۱۲۰ ھ میں یہ مجلس شوری قائم ہوئی تو کیا یہ پیدا ہو چکے تھے۔ ان کی کتنی عمر تھی؟ تحصیل علم کے بعد یہ کب رکن بنے ؟ ان تمام باتوں کا سرے دست کسی حنفی کو بھی علم نہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ داستان شورائی ہی سرے سے افسانہ ہے۔

◈۔۔۔امام عبد اللہ بن ادریس ولادت ۱۲۰ وفات ۱۹۲ھ ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن قرار دیا گیا ہے۔
(انوار الباری ص 199 ج 1)
حالانکہ امام عبد اللہ محد ثین کے مذہب و مسلک سے وابسطہ تھے۔ اہل الرائے سے ان کا مذہباً کوئی تعلق نہ تھا۔ امام یعقوب فرماتے ہیں کہ عابد اور فاضل تھے ان کے اکثر فتوے مذہب اہل مدینہ پر تھے۔ ان کے اور امام مالک کے درمیان دوستی تھی۔
( تہذیب ص 148 ج 5)

ظاہر ہے کہ مدینہ والوں کا مذہب اعتقاد اور احکام میں اہل الرائے سے بہت مختلف ہے۔ الغرض وہ سنت کے فدائی مرجی مذہب سے بیزار اور نیند کو حرام کہتے تھے۔ ان سے بسند صحیح ثابت ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ ایمان زیادہ اور کم نہیں ہوتا وہ کذاب ہے۔
( تاریخ بغداد ص 393 ج 13 )

مزید فرماتے ہیں کہ
الايمان يزيد وينقص
’’یعنی ایمان میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے۔‘‘
(کتاب السنہ ص 336 ج 1 )

اس سے معلوم ہوا کہ وہ مذہب الرجاء پر نہ تھے بلکہ الرجاء کے حاملین کو کذاب کہتے تھے۔ مگر مؤلف انوار نے صرف انہیں کوفہ کے مقیم ہونے کی وجہ سے شوریٰ میں شامل کر لیا ہے۔ حالانکہ ان کی ولادت ۱۲۰ ھ میں ہوئی تھی۔
(تذکرہ ص 284 ج 1)

اور بقول مؤلف انوار الباری یہ شوری ۱۲۰ ھ میں تشکیل پائی تھی۔ مگر کتنے ستم کی بات ہے کہ اسی سال پیدا ہونے والے کو بھی رکن باور کرایا جارہا ہے۔

◈۔۔۔امام عبد اللہ بن مبارک ولادت ۱۱۹ ھ وفات ۱۸۱ء ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن بتایا جاتا ہے۔
( سيرة النعمان ص 363)

ثقہ، محبت ، فقہی ،امام، قرآن کے خادم ،سنت کے فدائی ،پوری امت مرحومہ کے عظیم محسن یہ ان بزرگ ہستیوں میں شامل ہیں جن پر امت کو بجاطور پر فخر ہے۔ امیر المومنین فی الحدیث کا شرف حاصل ہے۔ صحاح کے ایک اہم راوی ہیں۔ عراق میں پیدا ہوئے ۔ سنت کے علمبردار تھے۔ اہل بدعت کا خوب رد کرتے تھے ۔ امام ابو حنیفہ سے عقائد سے لے کر احکام تک بہت زیادہ اختلاف رکھتے تھے۔ بلکہ امام ابو حنیفہ کو انہوں نے مرجی المذہب کہا ہے۔
(تاریخ بعد اد ص 380 ج 13)

ایک بار انہوں نے چند احادیث بیان فرمائیں۔ ایک آدمی کہنے لگا کہ امام ابو حنیفہ تو ان احادیث کے مخالف ہیں۔ یہ سن کر امام عبد اللہ غصے میں آگئے اور فرمانے لگے۔ میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام سے بیان کر رہا ہوں اور تو میرے سامنے ایسے شخص کو پیش کرتا ہے جو امت محمدیہ پر تلوار کو جائز سمجھتا ہے۔
(کتاب السنہ ص 213 ج 1)

آپ فرماتے ہیں کہ میں چپکے چپکے امام ابو حنیفہ کی مجلس میں جایا کر تا تو میرے ساتھیوں کو جب علم ہو تا تو وہ مجھے اس پر ملامت کرتے۔
(کتاب السنه ص 212 ج 1)

اس سے معلوم ہوا کہ امام عبد اللہ جس حلقہ سے منسلک تھے اس حلقہ میں امام صاحب کی فقہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ کیونکہ امام صاحب کی مجلس احادیث و امار کی بجائے محض قیاس پر مشتمل ہوتی تھی۔ یہ ایک ایسی حقیقت تھی کہ جس کا ادراک امام ابن مبارک کو بھی ہو گیا۔ امام ابو حنیفہ کے ایک فتویٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ڈاکہ ڈال لینا اس سے بہتر ہے۔
(کتاب السنہ ص 214 ج 1 )

امام ابن مبارک امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔ ( ترمذی مع تحفہ ص 256 ج 1)

رفع الیدین پر تو امام ابو حنیفہ سے ان کا مناظرہ معروف ہے۔ (بیہقی ص 82 ج 2 و جزور فع الدین ص 124)

بہر حال امام ابن مبارک نے امام ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تھا۔ جس کی تفصیل کتاب السنہ جلد اول اور تاریخ بغداد جلد 13 میں صحیح اسناد سے ثابت ہے۔
بلکہ انہوں نے امام ابو حنیفہ پر جرح کرتے ہوئے کہا کہ وہ علم حدیث میں یتیم تھے۔ قیام اللیل ص 212 ، مگر یار لوگ انہیں بھی مجلس شوریٰ کا رکن کہتے ہیں۔

◈۔۔۔عبدالحمید بن عبدالرحمن ولادت ۱۲۰ وفات ۲۰۲ ھ ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن بتایا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 203 ج 1 )
بحیثیث میں راوی صدوق ہیں۔ مذہب کے لحاظ سے مرجی تھے۔
( تقریب ص 197)

علامہ ذھبی کی تحقیق کے مطابق عبدالحمید ۱۲۰ ھ میں خوارزم میں پیدا ہوئے (سیر اعلام النبلاء ص 540 ج 10) کوفہ سے دور خوارزم میں ۱۲۰ ھ میں پیدا ہونے والے نے کس سے کسب علم کیا؟ اور کمیٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق محدث و فقہی بن کر کب وہ رکن بنے تھے ؟ جبکہ بقول مؤلف انوار اس شوریٰ کا قیام بھی ۱۲۰ ھ میں ہوا تھا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ شوریٰ کا سرے سے وجود ہی نہ تھا یہ سب خرافات اور تاریخ ور جال سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔

◈۔۔۔علی بن ظبیان وفات ۱۹۲ھ ان کو اس شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 200 ج 1)
ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ہو مگر اس کا شمار محدثین میں نہیں ہو تا۔ امام ابن معین فرماتے ہیں کہ کذاب اور خبیث ہے۔ امام بخاری منکر الحدیث کہتے ہیں۔ نسائی متروک قرار دیتے ہیں۔ ابو زرعہ واہی الحدیث کہتے ہیں۔ ابو حاتم متروک اور ساجی منکر روایات بیان کرنے والا کہتے ہیں۔
(تہذیب ص 322 ج 7)

◈۔۔۔امام علی بن مسهر ولادت ۱۱۹۔۱۲۰ وفات ۱۸۹ ھ ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن قرار دیا گیا ہے۔
(انوار الباری ص 198 ج 1)
یہ محدث تھے صحاح کے مرکزی راوی ہیں۔ لیکن ان کا شوریٰ میں ہونا ناقابل فہم ہے۔ کیونکہ یہ تو ۱۲۰ ھ کی حدود میں پیدا ہوئے۔
(سیر اعلام العلماء ص 485 ج 8)

اور اسی سال اس شوریٰ کی تشکیل بتائی جاتی ہے۔ وہ جو ان کب ہوئے ؟ شوریٰ کی رکنیت کی شرائط کے اہل کتنی دیر میں ہوئے ؟ الغرض یہ داستان شوریٰ ہی سرے سے جھوٹی اور من گھڑت افسانہ ہے۔

◈۔۔۔امام عمر بن میمون بلخی وفات ۱۷۱ ھ ان کو بھی شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔ بغداد آکر امام اعظم کی خدمت میں رہے۔
(انوار الباری ص 163)
امام ابن معین نے ان کی توثیق کی ہے۔ ترمذی میں ان کی روایت ہے۔ مولانا محمد رئیس ندوی فرماتے ہیں کہ بغداد کی تعمیر ۱۴۵ ھ سے شروع ہو کر۱۴۹ کے لگ بھگ مکمل ہوئی۔ امام صاحب اپنی عمر کے آخری پندرہ دن بغداد رہے۔ اگر اس سے پہلے کسی دن عمر اور امام صاحب کے مابین بغداد میں چند لمحات کی ملاقات ہوئی بھی ہو تو ۱۴۵ کے بعد ہی ہوئی ہو گی۔ جبکہ عمروہاں شیخ الحدیث کی حیثیت سے وارد ہوئے تھے ۔ اور اس سے پہلے کوفہ میں یا کہیں اور امام صاحب سے موصوف کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں۔
(اللمحات ص 41 ج 4)

ہمارے شیخ فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو علویوں کی حمایت کے الزام میں ۱۴۵ یا ۱۴۶ ھ کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا اور آپ کی وفات بھی جیل میں ہوئی۔ تواب بتائیے جناب عمر بن میمون بلخی نے امام صاحب سے کب اور کہاں حدیث وفقہ کی تحصیل کی اور وہ کس دور میں اس فرضی کمیٹی کے رکن بنے۔ صاحب انوار کی اپنی تحریر نے بھی اس افسانوی کہانی کا بھانڈا چورا ہے میں پھوڑ دیا ہے۔
(داستان حنفیه ص 149)

◈۔۔۔امام فضل بن موسیٰ سینائی ولادت ۱۱۵ ھ وفات ۱۹۲ھ ان کو بھی مؤلف انوار نے مجلس شوریٰ کا رکن کہا ہے۔
(انوار الباری ص 199 ج1)
مذہباً اہل سنت تھے ۔ ثقہ اور آئمہ حدیث سے ہیں۔ تہذیب ص 286 ج 8 جمی معتزلی یا مرجی نہ تھے سنت کے فدائی تھے۔ امام صاحب سے مجلس بھی تھی لیکن ان کے بارے حسن ظن نہ رکھتے تھے۔ بلکہ ان کی نظر میں امام صاحب حدیث نبوی کو استہزاء اور تمسخر سے ٹھکرا دیتے تھے۔ ان سے حسن سند کے ساتھ مروی ہے کہ میں نے ابو حنیفہ سے سنادہ کہتے تھے کہ میرے بعض شاگرد ایسے ہیں اگر پیشاب کریں تو دو مٹکے پانی ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کو ٹھکرایا جائے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب پانی دو مٹکے ہو تو پلید نہیں ہوتا۔
(تاریخ بغداد ص 405 ج 13 )

ان کی ولادت ۱۱۵ میں خراسان میں ہوئی تھی۔ (تہذیب ص 287 ج 8)

کوفہ سے دور خراسان میں ۱۱۵ ھ میں پیدا ہونے والے شخص کو کوفہ میں ۱۲۰ ھ میں شوریٰ کا رکن بتایا جاتا ہے جب کہ وہ عمر کے لحاظ سے ابھی پانچ سال کا بچہ تھا۔ جس مجلس شوریٰ کے نابالغ بچے بھی رکن ہوں ان کی علمی حیثیت کیا ہو گی؟

◈۔۔۔فضیل بن عیاض ولادت ۱۰۶ ھ وفات ۱۸۷ ھ ان کو بھی شوریٰ کا رکن بتایا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 186 ج 1 )

معروف محدث اور ثقہ ہیں۔ ابتدائی زندگی میں ڈاکہ زنی اور ایک لڑکی سے عشق تھا۔ پھر اللہ نے توبہ کی توفیق عطا کی اور مکہ مکرمہ میں کعبہ کے مجاور بن کر رہ گئے۔
(تہذیب ص 295 ج 8 و فتاوی شامی ص 58 ج 1)

مکہ میں چونکہ محدثین کرام ہی تھے۔ جو فقہا تھے وہ بھی محدث ہی تھے ان پر قیاس ورائے کا غلبہ کیا شائبہ تک بھی نہ تھا۔ اور یہی اثر امام فضیل پر تھا۔ یہ مرجیہ کے سخت مخالف تھے ۔ کتاب و سنت پر عمل کرتے بدعات سے نفرت تھی۔ فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ایمان کا داخل اور خارج سے تعلق ہے۔ زبان سے اقرار دل سے قبول اور عمل کا نام ایمان ہے۔
(کتاب السنہ ص 337 ج 1)

اس سے واضح ہے کہ وہ عقائد میں حنفیہ کے مخالف تھے۔ مگر یار لوگ ان کو بھی شوریٰ کا رکن باور کراتے ہیں۔ پھر ان کی ولادت ۱۰۶ ھ کی ہے اور زندگی کا ابتدائی حصہ ڈاکہ زنی کی نظر ہو گیا۔ توبہ کے بعد کب تحصیل علم کرکے یہ۱۲۰ ء میں بنائی گئی شوریٰ کے رکن ہے تھے۔ جس سے ثابت ہوا کہ یہ سب داستان ہی وضعی اور افسانہ ہے۔ بالخصوص جب حسن بن عثمان سے مروی ہے کہ فضیل بن عیاض امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب پر تجریح و تنقید کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد ص 152 ج 8)

◈۔۔۔امام قاسم بن معن وفات ۱۷۵ ھ ان کو بھی رکن شوریٰ کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 165 ج 1)
فقیہ ثقہ اور محدث تھے لیکن مرجی مذہب کی طرف جھکاؤ تھا۔
(تہذیب ص 339 ج 8)

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پوتے تھے۔ لیکن کسی معتبر خبر سے معلوم نہیں کہ وہ امام ابو حنیفہ سے فقہ و عقائد میں کامل متفق تھے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ ارجاء کے معاملہ میں ان کا رجحان مرجیہ کی طرف تھا۔ فقہ حنفی کی کتب میں ان کے فتاویٰ نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ بھی اس کے پاسبانوں میں سے تھے ۔ پھر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تشکیل شوریٰ کے وقت یہ پیدا ہو چکے تھے یاطالب علمی کے دور میں تھے۔ صرف اندازے اور قیاس سے بھائی ان کو بھی شوریٰ کا رکن کہتے ہیں۔

◈۔۔۔امام مالک بن مغول وفات ۱۵۹ ھ کو بھی شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 162 ج 1)
عابد وزاہد کوفہ کے بہترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ حدیث میں ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔ صحاح کے مرکزی راوی ہیں۔ لیکن ان کا تعلق اہل سنت سے تھا۔ مرجی مذہب سے نفرت کرتے تھے۔ اہل علم نے انہیں سنت و جماعت کہا ہے۔
(تاریخ و مشق لابی زرعه ص 578 ج 1 بحوالہ الصلحات ص 9 ج 4)

نیز امام عبد الرحمن بن مهدی ، سفیان ثوری اور امام مالکؒ کی مدح کرتے تھے۔ جس سے مستفاد ہوتا ہے کہ موصوف حنفی مذہب کے پیرو نہ تھے کیونکہ یہ حضرات امام ابو حنیفہ اور مذہب ابی حنیفہ سے ناراض تھے۔
(اللمحات ص 10 ج 4)

نیز ابوالعباس احمد بن علی نے امام مالکؒ کو ان اہل علم میں شمار کیا ہے جو امام صاحب کے مخالف اور ان کا رد کیا کرتے تھے۔
( تاریخ بغداد ص 371 ج 13 )

ان تمام حقائق سے ثابت ہوا کہ انہیں مجلس شوریٰ کا رکن قرار دینا غلط بیانی ہے۔ پھر جس دلیل سے مصنف انوار نے ان کا امام صاحب سے تعلق ثابت کیا ہے اس میں حسن بن زیاد لولوی راوی کذاب ہے۔
(مناقب ابی حنیفہ اللہ ھی ص 17)

◈۔۔۔امام محمد بن حسن شیبانی ولادت ۱۳۵ وفات ۱۸۹ ھ ان کو مجلس شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 188 ج 1)

فقہ حنفی کی نشر و اشاعت میں امام محمد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا حتی کہ فقہ حنفی کے تین ستونوں میں سے ایک ستون شمار کیے گئے۔ اور فقہ حنفی میں ان کے بہت سے فتاوی مفتی بھا قرار پائے۔

امام محمد چونکہ مکتب ابو حنیفہ کے تربیت یافتہ تھے گو بعض نامور محدثین سے بھی اکتساب کیا تھا۔ مگر ان پر امام صاحب کے مکتب کا رنگ غالب تھا۔ حدیث کی بجائے قیاس و آراء میں زیادہ انہماک رکھتے تھے۔ امام ابن سعد فرماتے ہیں کہ انہوں نے ابو حنیفہ سے مجلس کی اور ان سے علم کو سنا رائے میں غور و فکر کرتے تھے اور ان پر رائے غالب تھی حتی کہ یہی ان کی شناخت بن گئی۔
(بحوالہ مقدمه تعلیق المجد ص29)

❀ امام مزنی فرماتے ہیں کہ یہ فقہی تفریعات میں تمام آئمہ احناف سے بڑھ کر تھے۔ (ایضاً)

◈احادیث کا رد:

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ
أبويوسف مضعفا في الحديث واما محمد بن الحسن وشيخه كانا مخالفين للاثر
یعنی قاضی ابو یوسف حدیث میں ضعیف تھے اور امام محمد اور ان کے شیخ اثر (احادیث ) کی مخالفت کرتے تھے۔
(لسان ص 122 ج 5)

◈مذہب:

امام محمد بھی اپنے شیخ کی طرح ایمان میں اعمال کو شامل نہیں سمجھتے تھے۔ اور نہ ہی ایمان میں کمی و زیادتی کے قائل تھے ۔ الغرض مذہبا مرجی تھے ۔ قاضی شریک مرجیہ کی شہادت قبول نہ کرتے تھے۔ جس کی بنا پر انہوں نے امام محمد کی گواہی قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا تھا کہ
(انا اجيز شهادة من يقول الصلوة ليست من الايمان)
یعنی میں اس شخص کی شہادت کیسے قبول کر لوں جو نماز کو ایمان سے نہیں کہتا۔
(ابن عدی ص 2183 ولسان ص 122 ج 6)

امام ابن حبان نے (کتاب الحجر وحین ص 276 ج 2) میں اور ساجی نے (لسان ص 122 ج 5) میں امام محمد کو مرجیہ قرار دیا ہے۔

◈نظریہ تقلید:

امام محمد نے اپنے شیخ سے اسی (۸۰) فیصد مسائل میں اختلاف کیا ہے۔ جس کی غالب وجہ یہ ہے کہ وہ تقلید کو جائز نہیں سمجھتے تھے خود فرماتے ہیں کہ
لوجاز التقليد كان من مضى من قبل أبي حنيفة مثل الحسن البصري وابراهيم النخعى احدى أن يقلدوا

اگر کسی کی تقلید جائز ہوتی تو جو لوگ ابو حنیفہ سے پہلے گزر چکے ہیں جیسا کہ امام حسن بصری ابراهیم شخصی و غیرہ وہ زیادہ حق دار تھے کہ ان کی تقلید کی جاتی۔
(المبسوط للسرخی ص 28 ج 12) کتاب الوقف

◈جرح:

محد ثین کرام نے ان پر سخت جرح کر رکھی ہے۔ امام یحیٰی بن معین (ابن عدی ص 183 2 ج 5 ولسان ص 122 ج 5) اور ابن حبان نے (کتاب الحجر وحین ص 276 ج 2 ) کذاب کہا ہے۔ نسائی نے ضعیف۔ (کتاب الضعفاء ص 310)

ہمیں تلاش کے باوجود کسی محدث سے ان کے غیر مشروط ثقہ ہونے کا قول نہیں مل سکا۔ اگر کسی نے کوئی ہلکا سا تعدیل کا درجہ بیان بھی کیا ہو تو ان پر جرح مفسر کو اٹھا نہیں سکتا بہر حال ہمارے نزدیک کذاب نہ تھے۔ ہاں سوء حفظ کی وجہ سے ضعفاء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔

◈رکنیت

امام محمد کی ولادت ۱۳۵ ھ میں ہوئی۔ جبکہ مجلس شوریٰ کو قائم ہوئے بقول مصنف انوار پندرہ برس بیت چکے تھے۔ امام محمد جب لکھنے پڑھنے اور شعور کی زندگی میں آئے تو امام ابو حنیفہ علویوں کی حمایت کے الزام میں جیل جاچکے تھے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام محمد کا تعلق شوریٰ اور امام ابو حنیفہ سے نہایت قلیل تھا۔ امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ امام محمد نے امام ابو حنیفہ کی صرف چند ایام شاگردی کی ہے۔
(کتاب الحجر و حسین ص 275 ج 2)

◈۔۔۔امام مکی بن ابراہیم بلخی ولادت ۱۲۶ ھ وفات ۲۱۵ ھ ان کو بھی شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 204 ج 1)

جلیل القدر محدث تھے۔ ۱۲۶ ھ میں پیدا ہوئے۔ (تہذیب ص 294 ج10) سترہ برس کی عمر میں تحصیل علم کی طرف رجحان ہوا
(تذکرۃ الحفاظ ص 366 ج 1)

گویا امام کی ۱۴۳ ھ میں حصول علم میں مشغول ہوئے۔ ظاہر ہے کہ پہلے اپنے وطن بلخ کی درسگاہ میں داخل ہو کر پڑھے ہونگے ۔ پھر کسی زمانہ ۱۴۳ ھ کے بعد موصوف نے عراق کے شہر کوفہ کی طرف رخ کیا ہو گا بھلاوہ کب درسگاہ ابو حنیفہ میں داخل ہو کر مجتہد و فقہی بن کر ۱۲۰ ھ میں ہی رکن مجلس شوریٰ بن گئے تھے، معلوم ہوا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔

◈۔۔۔مندل بن علی معنوی ولادت ۱۰۳ھ وفات۱۶۸ ھ ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 163 ج 1)
عابد وزاہد تھے۔ لیکن حدیث میں ضعیف تھے۔ ( تقریب ص 347)
مذہب کے لحاظ سے مرجی تھے۔ (کتاب المجر و حین ص 25 ج 3)
شیعیت کی طرف میلان تھا۔ (تہذیب ص 299 ج 10)

۱۰۳ ھ میں پیدا ہونے والے نے کب تحصیل علم کیا اور محدث فقہی بن کر ۱۲۰ ھ میں تشکیل پانے والی شوریٰ کا رکن کس زمانہ میں منتخب ہوا۔ سر دست ان چیزوں کا بھائیوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔

◈۔۔۔نصربن عبد الکریم وفات ۱۶۹ ھ ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن بتایا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 163 ج 1)
امام ابو حنیفہ سے مصاحبت کی روایات ساقط الاعتبار ہیں ۔ جن کی ضروری تفصیل (اللمحات ص 38 ج4) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ لہذا ایسا شخص جس کے بارے کوئی واضح ثبوت اور معلومات ہی نہیں ان کو رکن قرار دینا محض مفروضہ ہے۔

◈۔۔۔قاضی نوح بن دراج وفات ۱۸۲ ھ ان کو بھی رکن بتایا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 185 ج 1)
ان کی فقاہت کے بارے تو معلوم نہیں ہاں البتہ آئمہ ناقدین اور محدثین عظام نے اس پر سنگین قسم کی جرح کی ہے۔ امام ابن معین کہتے ہیں کذاب اور خبیث ہے۔
( تاریخ بغداد ص 317 ج 1)

❀ امام حاکم فرماتے ہیں ثقہ راویوں کا نام لے کر من گھڑت روایات بیان کرتا تھا۔ (المد ظل ص 216)

علامہ ذھبی نے کذاب کہا ہے۔ (تلخیص المستدرک ص 144 ج 3)

ابن حبان فرماتے ہیں کہ ثقہ راویوں کا نام لے کر موضوع روایات بیان کرتا۔ بسا اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ بکثرت روایات بیان کرنے کے لیے ایسا جان بوجھ کر کرتا ہے۔
(کتاب الحجر و حسین ص 46 ج 3)

ایسے خبیث اور بد باطن نے شوریٰ میں بھی جو گل کھلائے ہو نگے وہ عیاں راچہ بیاں۔

◈۔۔۔ابو عصمہ نوح بن ابی مریم ان کو بھی شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 164 ج 1)

نوح بن ابی مریم فقہ حنفی سے بغض رکھتا تھا۔ اس کا اپنا بیان ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ابو حنیفہ کی فقہ میں مشغول ہو گئے ہیں اور قرآن سے اعراض کر لیا ہے تو میں نے قرآن کی فضیلت میں حدیث وضع کی۔
(المدخل لعلوم الحدیث للحاکم ص 20 والكفايه ص 126 والفوائد الحمید ص 222 التعميد والا بیضاح ص 130)

راقم کو اس کے بارہ میں کتب رجال میں سے کوئی ادنی سا کلمہ توثیق بھی نہیں ملا۔ تمام آئمہ جرح و تعدیل اس کو کذاب و دجال اور خبیث کہتے ہیں۔ دیکھیے (عقیلی ص 305 ج 4 ابن عدی ص 2506 ج 7 میزان ص 279 ج 4 تہذیب ص 488 ج 10 و کتاب الحجر و معین ص 48 ج 3)
ایسے دجال و کذاب بھی جس مجلس شوریٰ کے رکن ہوں ان کی علمی حالت بیان کرنے سے باہر ہے۔

◈۔۔۔امام وکیع بن جراح ولادت ۱۲۹ ھ وفات ۱۹۸ ھ ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 200 ج 1)

ثقه ثبت عابد وزاہد اور کبائر محدثین میں ان کا شمار ہوتا۔ صحاح ستہ کے مرکزی راوی ہیں۔ مذہب اہل سنت تھے۔ خفیت کے مخالف تھے۔
(ترمذی معه تحفه ص 107 ج 2)

میں شعار بدن کی حدیث کے سلسلہ میں اہل الرائے پر سخت تنقید فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ لوگو! ابو حنیفہ کی رائے سے بچو۔
(کتاب السنه ص 227 ج 1)

فرماتے ہیں کہ میرے علم کی حد تک امام ابو حنیفہ نے دو سو احادیث کی مخالفت کی ہے۔
( تاریخ بغداد ص 408 ج 13)

مرجیہ کے سخت مخالف تھے۔ ایمان کے زیادہ اور کم ہونے کا عقیدور کھتے تھے۔
(کتاب السنه ص 336, 310 ج 1)

امام ابو حنیفہ کے بارے حسن ظن نہ تھا۔ ان کو مرجی اور امت مرحومہ پر تلوار چلانے کو جائز سمجھنے والوں میں سے جانتے تھے۔
(عقیلی ص 283 ج 4)

۱۲۸ھ یا ۱۲۹ ھ میں پیدا ہوئے۔ (تہذیب ص 130 ج 11)
جب کہ مجلس شوریٰ ان کی ولادت سے آٹھ یا نو سال پہلے قائم ہو چکی تھی اور ان کے تحصیل علم کے وقت وہ اپنی طبعی عمر بھی پوری کر چکی ہو گی۔ مثابت ہوا کہ یہ ساری داستان ہی جھوٹ پر بنائی گئی ہے۔

◈۔۔۔قاضی ہشام بن یوسف وفات ۱۹۷ ـ ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 201 ج1)

صنعاء کے قاضی تھے معروف محدث ہیں۔ بالاتفاق ثقہ ہیں۔ مسلم کے علاوہ باقی صحاح میں ان سے احادیث مروی ہیں۔ ان کا حنفی ہونا ثابت نہیں۔ علامہ ذھبی کی تحقیق کے موافق ۱۲۰ ھ کے بعد پیدا ہوئے۔
(سیر الاعلام النبلاص 581 ج 9)

ان کا امام ابو حنیفہ کی زندگی میں کوفہ آنا بھی ثابت نہیں۔ بھلا جو شخص تاسیس شوریٰ کے سال پیدا ہوا ہو وہ عمر کے کس سن میں علم حاصل کر کے درجہ اجتہاد پاکر کمیٹی کارکن بنا ہوگا ۔ حالانکہ ان کی جوانی آبائی وطن یمن میں گزری تھی ۔ تہذیب ص 57 ج 11 میں ہے کہ جب امام ثوری یمن تشریف لائے تو ان کے لیے ہشام کو کاتب رکھا گیا۔ الغرض ان کو شوریٰ کا رکن قرار دینا محض داستان سرائی ہے۔

◈۔۔۔ھشیم بن بشیر واسطی ولادت ۱۰۵ ھ وفات ۱۸۳ ھ ان کو بھی شوریٰ کا رکن بتایا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 185 ج 1)

ثقہ و ثبت تھے البتہ تدلیس کرتے تھے ۔ مذہباً کیا عقیدہ تھا معلوم نہیں ہو سکا۔ ایک روایت کے مطابق ۱۰۵ ھ میں واسط میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہاں حاصل کی ۱۲۳ ھ یا ۱۲۴ ھ کو تحصیل علم کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔
ان کا چار ماہ کے لیے کوفہ جاتا تو ثابت ہے لیکن کوفہ میں مستقل رہائش اختیار نہ کی تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے
(الصلحات ص 416 ج 4)
الغرض انکا شوریٰ میں شامل ہو نا محض فرضی کہانی ہے۔

◈۔۔۔ھیاح بن بسطام تیمی وفات ۱۷۷ ھ بقول مصنف انوار یہ بھی رکن شوریٰ تھے۔ بڑے فصیح، سخی ،رحم دل تھے۔
(انوار الباری ص 165 ج 1)

ممکن ہے ان میں یہ اوصاف پائے جاتے ہوں۔ لیکن راوی حدیث کی حیثیت سے وہ ضعیف ہیں۔ ابن معین نے ضعیف کہا ہے۔
(ابن عدی ص 2592 و عقیلی ص 366 ج 4)

امام احمد نے متروک قرار دیا ہے۔ امام صالح نے منکر الحدیث کہا ہے۔ (تہذیب ص 88 ج 11 )

مذہباً مرجی اور اس کے داعی تھے۔ (کتاب الحجر وحين ص 96 ج 3)

ایسا شخص جس کی سنہ ولادت معلوم نہیں مذہباً مرجی ہے اس کا مجلس شوریٰ کا رکن ہونا تعجب اور معنی خیز ہے۔

◈۔۔۔امام یحیی بن زکریا ابی زائده ولادت ۱۲۰ ھ وفات ۱۸۳ ھ ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن بتایا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 185 ج 1)

جلیل القدر محدث اور فقہی ہیں ۔ بقول امام عجلی ثقہ، فقہ وحدیث کے جامع ،مدائن کے قاضی اور حفاظ کو فہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ثقہ محبت مفتی اور صاحب سنت تھے۔
(تاریخ اشعات ص 471)

ان کی پیدائش کے سال تو مجلس شوریٰ کی بنیاد رکھی گئی تھی معلوم ہوا کہ ان کو مجلس شوریٰ کا رکن کہتا محض مفروضہ اور من گھڑت داستان ہے۔

◈۔۔۔امام یحیی بن سعید القطان ولادت ۱۲۰ ھ وفات ۱۹۸ ان کو بھی رکن شوریٰ بتایا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 201 ج 1 )

بالا تفاق ثقہ ثبت ہیں۔ اکا بر محدثین سے ہیں۔ مسلک محد ثین پر تھے۔ عقائد میں اہل سنت تھے۔ مرجیہ کے مخالف تھے ۔ ایمان میں زیادتی اور کمی کے قائل اور قول و عمل کو ایمان کہتے تھے۔ (کتاب سنہ ص 310 ج 1 )

❀ امام سفیان ثوری سے نقل کرتے ہیں
استتاب اصحاب أبي حنفية ابا حنفية مرتين (ايضاص 192 ج1)

امام ابو حنیفہ کی فقہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم بعض چیزوں میں امام صاحب پر عیب لگاتے ہیں اور جنہیں ہم اچھا سمجھتے ہیں ان میں موافقت کر لیتے ہیں۔
(الاتقاء ص 131)

۱۲۰ ھ میں بمقام بصرہ پیدا ہوئے ۔ (تہذیب ص 219 ج11) ابتدائی تعلیم کوفہ میں ہوئی۔ امام شعبہ سے بیس سال تک تحصیل علم کیا۔
(تقدمه الجرح والتعديل ص 249)
ان کی پیدائش کے سال تو مجلس شوریI کی تاسیس ہوئی۔ تعلیم کو شروع کیا تو بیس سال تک امام شعبہ سے منسلک رہے۔ بصرہ میں اصحاب امام مالک میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ (تہذیب ص 220 ج 11)

بھلا یہ کب شوریٰ کے رکن بنے تھے معلوم ہوا کہ یہ محض داستان کاذبہ ہے۔

◈۔۔۔قاضی ابو یوسف ولادت ۱۱۳ ء وفات ۱۸۲ ھ ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن بتایا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 174 ج 1)

مصنف انوار نے ان کو مجتہد مطلق کہا ہے ۔ احناف میں بہت بلند مقام کے حامل ہیں۔ فقہ حنفی میں ان کے اقوال بکثرت موجود ہیں۔ بعض مقام پر ان کے اقوال پر فتوی ہے امام ابو حنیفہ سے عقائد و اصول اور فروع میں اختلاف رکھتے تھے۔ ایک زمانہ تک ارجاء کا اثر تھا
( جیسا کہ ان کے استاذ ایمان میں کمی و بیشی اور اعمال کے ایمان میں داخل نہ ہونے کے مسئلہ میں مرجیہ کے حامی تھے )۔ امام قاضی شریک ان کی گواہی کو اسی وجہ سے قبول نہ کرتے تھے کہ نماز وغیرہ کو ایمان میں داخل نہ مانتے تھے۔
(لسان ص 210 ج 6)

لیکن بعد وہ قاضی ابو یوسف نے اہل سنت کا مذہب اپنا لیا تھا۔ امام ابن حبان لکھتے ہیں کہ امام قتیبہ بن سعید فرماتے ہیں کہ
سمعت ابا يوسف يقول الايمان قول وعمل يزيد وينقص
میں نے قاضی ابو یوسف سے سنا وہ فرمارہے تھے کہ ایمان قول و عمل ہے جو کم اور زیادہ ہوتا ہے۔
(کتاب اثتقات ص 645 73)

امام ابن عدی نے نقل کیا ہے کہ قاضی ابو یوسف نے فرمایا کہ جو یہ کہے کہ میرا ایمان جبریل کے ایمان کے برابر ہے وہ بدعتی ہے۔
(الکامل لابن عدی ص 2603 ج 7)

ان حقائق سے ثابت ہوا کہ انہوں نے مذہب ارجاء کو ترک کر کے مسلک اہل سنت کو اختیار کر لیا تھا۔ ہاں البتہ فروع میں امام صاحب کے درست فتوی کی موافقت کرتے تھے فرماتے
ہیں کہ
انما كان ابو حنيفة مدرسا فما كان من قوله حسنا قبلنا وماكان قبيحا تركناه عليہ

امام ابو حنیفہ صرف ایک مدرس تھے (یعنی استاذ) ان کی اچھی بات کو ہم قبول کر لیتے ہیں اور قبیح کو چھوڑ دیتے ہیں۔
( تاریخ بغداد ص 375 ج 13)

انا كنا ناتيه يدرسنا الفقة ولم نكن نقلده دينا
ہم امام ابو حنیفہ سے فقہ کا درس لینے آتے مگر دین میں ان کی تقلید نہیں کرتے تھے۔
(تاریخ بغداد ص 376 ج 13)

◈قاضی القضاۃ :

قاضی صاحب کی ابتدائی زندگی غربت و افلاس سے دوچار تھی ۔ کوئی . مستقل ذریعہ معاش نہ تھا۔ البتہ علمی ذوق تھا۔ امام ابو حنیفہ سے تعلق قائم ہوا تو کچھ خوش حالی آگئی۔ جس کی غالب وجہ امام صاحب کا مالی تعاون تھا۔ ۱۶۶ ھ میں قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز ہوئے۔ جو ان کے لیے اعزاز اور جاہ و جلالت کے ساتھ مؤثر ذریعہ معاش بھی تھا۔ اس منصب پر سولہ سال تک فائز رہے اور یہی چیز مشرق میں حنفیت کے پھیلنے کا واحد ذریعہ بنی ہے۔

◈طریق فیصلہ :

❀ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
جب مسند خلافت پر خلیفہ ہارون الرشید متمکن ہوئے تو ان کا دل اپنے والد کی ایک لونڈی کی طرف مائل ہو ا خلیفہ نے لونڈی کو اپنی طرف کھینچنے کی پوری کوشش کی لیکن لونڈی نے یہ کہہ کر خلیفہ کی خواہش کو رد کر دیا کہ میں آپ کے باپ کی لونڈی ہوں۔ اور میں ان کے حرم میں رہ چکی ہوں اور وہ مجھ سے وطی کرتے تھے۔ اس لیے میں آپ کے لیے حلال نہیں ہوں۔ (خلیفہ کی نظر قاضی ابو یوسف کی طرف اٹھی) اور قاضی ابو یوسف کو بلانے کے لیے پیغام بھیجا اور کہا کہ یہ صورت حال پیش آئی ہے کہ لونڈی نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ میں آپ کے باپ کی موطوہ رہ چکی ہوں۔ کیا آپ کے پاس اس کا کوئی حل موجود ہے۔ (قاضی صاحب نے مسئلہ حل کر دیا) اور فتویٰ دیا کہ امیر المومنین آپ اس لونڈی کی بات صحیح تسلیم نہ کریں لونڈی جود عوی کرے تو آپ اس کی تصدیق کریں گے۔

❀ امام عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں اس حاکم پر تعجب کروں جس نے مسلمانوں کے خونوں اور مالوں میں ہاتھ ڈالا اور اپنے باپ کی حرمت کا بھی پاس نہ کیا بلکہ اس کے ریزہ ریزہ کرنے پر تلا ہے یا اس لونڈی سے جس نے خود کو امیر المومنین سے بے راغب رکھا یا اس فقیہ و قاضی (ابو یوسف ) پر جس نے امیر المومنین کو اپنے باپ کی حرمت پھاڑنے اور اپنی شہوت کو پورا کرنے کا یہ فیصلہ دیا کہ اس کا گناہ میری گردن نے آنے دیں۔
(تاریخ الخلفاء سیوطی ص 222)

امام عقیلی نے اس واقعہ کو صحیح سند کے ساتھ عبداللہ بن مبارک سے مختصر نقل کیا ہے۔ ( الضعفاء الكبير ص 443 ج 4)

❀ امام عبد اللہ بن یوسف فرماتے ہیں کہ
خلیفہ ہارون الرشید نے ابو یوسف سے کہا کہ میں نے ایک لونڈی خریدی ہے اور استبرا رحم سے قبل میں اسے موطوہ بنانا چاہتا ہوں۔ کیا اس کے جواز میں آپ کے پاس کوئی حیلہ ہے ؟ قاضی صاحب فرمانے لگے کیوں نہیں ؟ آپ لونڈی کسی بچے کوھبہ کردیں اور پھر اس سے شادی کر لیں۔

❀ امام اسحق بن راھویہ نے بیان فرمایا کہ
خلیفہ نے قاضی صاحب کو رات کے وقت بلایا اور مذکورہ مسئلہ میں فتوی طلب کیا تو قاضی صاحب نے جواز کا فتویٰ دیا۔ تو خلیفہ نے ایک لاکھ درہم انعام کا حکم نامہ جاری فرمایا۔ تو قاضی صاحب کہنے لگے کہ اگر صبح ہونے سے پہلے ادا کرنے کا حکم صادر کرنا مناسب سمجھیں تو دے دیں؟ خلیفہ نے فی الفور ادائیگی کا حکم جاری کر دیا تو کسی نے کہا خزانچی تو اب گھر جاچکا ہے۔ اور دروازے بند ہیں۔ تو قاضی صاحب فرمانے لگے انہیں جب بلایا گیا تھا تو اس وقت بھی دروازے بند تھے۔ میں بھی تو دروازہ کھول کر ہی یہاں آیا ہوں۔
(تاریخ الخلفاء ص 223)

شرعی احکام میں یہ حیلے بہانے محض خلیفہ کی خوشنودی اور غیر شرعی خواہشات کی تکمیل کے لیے تراشے گئے تھے۔ اسی طرح کبھی کبھار قاضی صاحب خلیفہ کی رضا جوئی اور تقرب کے لیے اپنے فقہی مسلک کو بھی قربان کر دیتے تھے۔ اختصار کے پیش نظر ایک مثال عرض ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید نماز عید بارہ تکبیروں کے ساتھ ادا کر تے تھے کیونکہ یہ ان کے دادا عبد اللہ بن عباس کا مؤقف تھا۔ ایک عید کے موقعہ پر قاضی ابو یوسف کیمرا مغداد ہی میں تشریف فرما تھے ۔ انہوں نے نماز عید پڑھائی ۔ خلیفہ بھی اس نمار میں شریک تھا تو قاضی صاحب نے اس نماز میں حضرت عبد اللہ بن عباس کے موافق زوائد تکبیروں سے نماز عید پڑھائی۔
(حاشیہ ہدایہ ص 173 ج 1 والبحر الرائق ص 160 ج 2)

ابن عابدین نے تو یہی امام محمد سے بھی نقل کیا ہے۔ (فتاوی شامی ص 172 ج 2)

فقہ حنفی کے دو معتمد بزرگوں کا محض خلیفہ کی خوشامد و چاپلوسی کی غرض سے اپنے مؤقف کو بدل دیتا۔ یہ ڈھیر سے مٹھی بھر بطور نمونہ عرض کیا گیا ہے۔ ورنہ کتب فقہ میں ایسی متعدد امثلہ موجود ہیں آج بھی حنفی علماء کا ایسا ہی کردار ہے۔ مثال کے طور پر ان کے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ ناجائز اور حرام ہے۔ لیکن جب کوئی امراء سے یا حکمران پارٹی سے وفات پا جاتا ہے تو ان کے اکابرین ان کا باقاعدہ اہتمام کے ساتھ غائبانہ نماز جنازہ ادا کرتے ہیں۔
جس کا زندہ ثبوت ضیاء الحق مرحوم کے سانحہ پر ان لوگوں نے با ضابطہ اخبارات میں اشتہار دیگر لوگوں کو جمع کر کے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔

◈جرح و تعدیل:

قاضی ابو یوسف کی تعدیل اور ان پر جرح کرنے والے دونوں حضرات موجود ہیں۔ بعض اس کو ثقہ و صدوق اور بعض کاذب کہتے ہیں۔ تفصیل حسب ذیل ہے۔ امام نسائی ثقہ کہتے ہیں۔ امام عمرو صاحب سنت کہتے ہیں۔ ابو حاتم فرماتے ہیں کہ ان کی حدیث کو لکھا جائے۔ مزنی کہتے ہیں اپنے اصحاب میں سے حدیث کی سب سے زیادہ پیروی کرتے تھے۔ ابن معین فرماتے ہیں کہ اہل الرائی میں ان سے زیادہ اثبت کوئی نہیں امام یزید بن ہارون کہتے ہیں میں ان سے روایت لیتا ہوں۔ ابن عدی کہتے ہیں جب یہ ثقہ سے روایت کریں اور ان سے روایت کرنے والا بھی ثقہ ہو تو پھر ان کی روایت میں کوئی حرج نہیں۔
(میزان الاعتدال ص 447 ج 4)

جبکہ اس کے بر عکس امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ ابو یوسف میری طرف وہ باتیں منسوب کرتا ہے جو میں نے نہیں کہی ہوتیں۔
(تاریخ صغیر للہماری ص 210 ج 2 وابن عدی ص 2603 ج 6)

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے۔
(الکامل لابن عدی ص 2603 ج 6)

امام فدرس فرماتے ہیں کہ صدوق ہیں مگر غلطیاں بہت زیادہ کرتے تھے۔ عبد اللہ بن ادریس فرماتے ہیں کہ ابو یوسف فاسق ہے۔
(لسان المیدان ص 6351)

ابن معین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث کو نہیں پہچانتے تھے۔

یزید بن ہارون فرماتے ہیں کہ اس سے حدیث نہ لی جائے۔ (عقیلی ص 439 440 ج 4)

امام ابن مبارک نے کذاب کہا ہے۔ (ابن عدی ص 2602 ج 6)

◈رکنیت :

قاضی صاحب کی ولادت ۱۱۳ ھ کی ہے۔ ابتدا میں انہوں نے قاضی ابن ابی لیلی سے اکتساب علم کیا بعد میں امام صاحب کے حلقہ درس میں شامل ہوئے۔ بقول احناف ان کی امام صاحب سے مصاحبت کا زمانہ سترہ سال ہے۔ تو اس حساب سے قاضی صاحب کا امام صاحب کی شاگردی میں آنا ۱۳۳ ھ میں بنتا ہے۔ جبکہ مجلس شوریٰ ۱۲۰ ھ میں قائم ہو چکی تھی۔ گویا مجلس شوریٰ قائم ہوئے تیرہ برس گزر چکے تھے۔ اب اس سے تعلیمی دور کو نکال دیا جائے تو باقی رفاقت تقریبا تین چار سال بنتی ہے۔ جس سے اس سارے افسانے کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ قاضی صاحب کمیٹی کے اولین ممبران میں سے تھے بلکہ کمیٹی کے محرر اور ناظم بھی تھے۔

◈۔۔۔یوسف بن خالد سمتی ولادت ۱۲۳ھ وفات ۱۹۰ ھ حد ان کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن کہا جاتا ہے۔
(انوار الباری ص 198 ج 1)

مذہب کے لحاظ سے جہمیت کے حامی و موید تھے۔ امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ میں نے اس کی ایک کتاب دیکھی ہے جو جہمیہ کی تائید میں اس نے لکھی تھی۔ اس میں یوسف بن خالد سمستی نے قیامت اور وزن اعمال کا انکار کیا ہے۔
(میزان ص 464 ج 4)

اسے آئمہ جرح و تعدیل نے کذاب و خبیث وغیرہ کہا ہے۔ چنانچہ امام عمرو بن علی ،امام ابو دائود، امام معمر نے کذاب کہا ہے۔
(تہذیب ص 411 ج 11)

ابن معین فرماتے ہیں کہ یہ محدثین کے نزدیک کذاب ہے۔
( تاریخ صغیر للہری ص 224 ج 2)

ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ شیوخ کے نام پر روایات گھڑتا تھا۔
(کتاب الحجر و حسین ص 13 ج 3)

حک واضافہ کے ساتھ منقول ،ازداستان حنفیہ، مؤلف حضرت استاذی المکرم مولانا محمد یحیٰی گوندلوی حفظہ اللہ تعالی ،واللمحات ، مؤلفہ مولانا محمد رئیس ندوی حفظہ اللہ تعالی۔

مجلس شوریٰ پر تبصرہ بلا تبصرہ

قارئین کرام یہ کیسی مجلس شوریٰ تھی جس کے تیرہ ممبر اور رکن دجال و کذاب وضع احادیث میں معروف عندالمحدثین متروک اور غیر ثقہ تھے۔ جیسا کہ 1,2,3,6,8,9,20,30,31,32,36,39,40 وغیرہ نمبروں میں تفصیل گزر چکی ہے اور اس کے بعض ارکان حفیت کے سخت مخالف تھے ۔ اور بعض کا سال پیدائش ہی وہی ہے جس میں کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ بلکہ بعض کی پیدائش اس کے کئی سال بعد ہوئی۔ بھر سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ ان چالیس افراد کا تیار کردہ مجموعہ فقہ کہاں غائب ہو گیا ؟ کیا شیعہ کے غائب امام کی طرح اس مجموعہ کو بھی کوئی شوریٰ کا رکن لے کر غار میں گھس گیا تھا۔ پھر سب سے اہم بات یہ کہ شوریٰ کے ان چالیس ارکان میں سے کسی رکن نے بھی اپنی کتب میں اس مجموعہ فقہ کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ امام محمد اور قاضی ابو یوسف کی کتب تو دستیاب ہیں انہوں نے بھی اس مجموعہ کا نام تک نہیں لکھا۔ یہ کیسے لوگ حافظ وثقہ تھے کہ جن کو زبانی ایک مسئلہ بھی یاد نہ رہا کہ مجلس شوریٰ میں یہ مسئلہ بالاتفاق پاس ہو گیا تھا۔

پھر متاخرین کی کتب فقہ میں بھی ان کا ذکر نہیں ملتا کہ مجلس شوریٰ کا یہ اتحادی واتفاقی طے شدہ مسئلہ ہے اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی۔ حالانکہ اقوال کا ذکر کرتے ہوئے مؤلف صراحت پر صراحت کرتا جاتا ہے کہ فلاں شہر والوں کا یہ فتویٰ ہے فلاں شہر کے فقہاء کا یہ قول ہے ۔ مگر کسی ایک بھی فقہ کی کتاب میں اس چالیس رکنی کمیٹی کے مسائل کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا جس سے یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ فقہ حنفی کو شوریٰ کی فقہ کہنا محض یار لوگوں کی اختراع ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل