فقر و فاقہ یا بیماری کے ڈر سے بچے پیدا نہ کرنا
فقر و فاقہ یا بیماری کے ڈر سے بچے پیدا نہ کرنا
سوال: میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو سیلان خون کے مرض میں مبتلا تھا، اور جب میں نے دوسرا بچہ پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو مجھے چھ ڈاکٹروں نے بتایا کہ بلاشبہ میرے ہاں پیدا ہونے والے تمام بچے اسی مرض میں مبتلا ہوں گے، کیونکہ یہ موروثی بیماری ہے
لہٰذا میں نے باوجود بچوں کی خواہش کے، پیدا ہونے والے بچے کے متعلق ڈرتے ہوئے (کہ وہ بھی اس مرض کا شکار ہوگا) اور اپنی ذات کے متعلق اس ناقابل برداشت خرچ سے ڈرتے ہوئے، جو اس بیماری کے علاج پر اٹھتا ہے، اور پھر یہ بھی معلوم ہے کہ اس بیماری کا قطعی علاج نہیں ہے، میں نے بچے پیدا کرنے سے توقف کر لیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا میرا یہ فعل صحیح اور شرعی ہے یا نہیں؟ ہمیں فائدہ پہنچا کر عند اللہ ماجور ہوں۔
جواب: تمھیں اللہ پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے اپنا یہ معاملہ اسی کے سپرد کرنا چاہیے اور طلب اولاد کے سلسلہ میں بچے پیدا کرنے چاہیں کیونکہ مسببات۔ کو اسباب پر مرتب کرنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لائق ہے۔ و باللہ التوفیق
——————

عورت کب مطلقہ سمجھی جائے گی؟
سوال: عورت کب مطلقہ سمجھی جائے گی؟ اور طلاق کے مباح اور جائز ہونے میں کیا حکمت پنہاں ہے؟
جواب: عورت اس وقت مطلقہ سمجھی جائے گی جب اس کا خاوند اس کو اس حال میں طلاق دے کہ وہ عاقل اور با اختیار ہو اور وقوع طلاق کے موانع مثلاًً جنون، نشہ وغیرہ میں سے کوئی مانع نہ پایا جائے، اور عورت ایسے طہر میں ہو جس میں مرد نے اس سے جماع نہ کیا ہو، یا پھر وہ حاملہ یا آئسہ (جو حیض سے مایوس ہو چکی ہے) ہو۔ لیکن اگر وہ مطلقہ حائضہ یا نفاس والی ہو یا ایسے طہر میں ہو جس میں مرد نے اس سے مجامعت کر لی ہو اور وہ حاملہ یا آئسہ نہ ہو تو اہل علم کے دو اقوال میں سے زیادہ صحیح قول کی رو سے اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی، الا یہ کہ شرعی قاضی اس کے وقوع کا فیصلہ دے ہے۔ چنانچہ اگر قاضی وقوع طلاق کا فیصلہ دے تو طلاق واقع ہو جائے گی، کیونکہ اجتہا دی مسائل میں قاضی کا فیصلہ اختلاف رفع کر دیتا ہے۔ اسی طرح اگر خاوند مجنون یا مجبور یا نشہ میں مدہو ش ہو تو اگرچہ وہ اہل علم کے دو اقوال میں سے زیادہ صحیح قول کے مطابق گناہ گار ہے، یا اس کو اس قدر شدید غصہ چڑھا ہو کہ وہ طلاق کے نقصانات کو سمجھنے اور عقل و شعور سے کام لینے میں حارج ہو، اور واضح اسباب اس کے شدید غصے کی حالت میں ہونے کے دعوی کی تصدیق کرتے ہوں، نیز مطلقہ بھی اس معاملہ میں اس کی تصدیق کرتی ہو یا اس پر معتبر گواہی موجود ہو تو ان مذکورہ تمام صورتوں میں طلاق واقع نہ ہو گی، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«رفع القلم عن ثلاثة: الصغير حتى يبلغ، والنائم حتى يستيقظ، والمجنون حتى يفيق» [صحيح سنن أبى داود، رقم الحديث 4398]
”تین قسم کے آدمی مرفوع القلم ہیں (یعنی غیر مکلف ہیں) بچہ، حتی کہ وہ بالغ ہو جائے، سویا ہوا، حتی کہ وہ نیند سے بیدار ہو جائے اور مجنون یہاں تک کہ اس کو جنون سے افاقہ ہو جائے۔“
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ» [16-النحل: 106]
”جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد، سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو“۔
پس جب کفر پر مجبور کیا جانے والا شخص بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، کافر نہیں قرار دیا جاتا تو طلاق پر مجبور کیا گیا شخص بالاولی طلاق دینے والا نہ سمجھا جائے گا، بشرطیکہ طلاق کا سبب صرف جبرو اکراہ ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«لا طلاق ولا عتاق فى علاق» [حسن۔ سنن أبى داود، رقم الحديث 2193]
”حالتاغلاق (اکرام ہ غصہ کی حالت) کی طلاق اور آزا دی معتبر نہیں۔“
اس روایت کو احمد، ابوداود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے، جن میں امام احمد رحمہ اللہ بھی شامل ہیں، ”اغلاق“ کی تفسیر اکراہ اور شدید غصہ سے کی ہے۔
خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ اور اہل علم کی ایک جماعت نے نشہ میں مدہو ش اس آدمی کی طلاق کے عدم وقوع کا فتوی جاری کیا ہے جس کی عقل کو نشہ نے متغیر (بدل)کر دیا ہو، اگر چہ وہ گنہگار ہے۔
رہی طلاق کے مباح ہونے کی حکمت، تو یہ بالکل واضح امر ہے، کیونکہ بعض اوقات عورت مرد کے موافق نہیں ہوتی اور کبھی مرد عورت کو متعدد اسباب کی بنا پر نا پسند کرتا ہے، جیسے عورت کا ضعف عقلی، ضعف دین اور بد تمیزی وغیرہ، اس لیے اللہ نے اس کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کر دینے میں مرد کے لیے وسعت پیدا کر دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
«وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ» [4-النساء: 130]
”اور اگر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تواللہ ہر ایک کو اپنی وسعت سے غنی کر دے گا۔“ (عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ)
——————

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

1