فاتحہ خلف الامام: نماز فاتحہ میں پڑھنے کا صحیح طریقہ
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث کتاب الصلاۃ جلد 1

سوال

فاتحہ خلف الامام کا طریقہ کیا ہے؟ جہری نمازوں میں آخری دو رکعتوں میں فاتحہ پڑھی جاتی ہے کہ نہیں؟ ظہر اور عصر کی نماز میں فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت ملا کر پڑھیں (حضرت جابر کی حدیث بروایت ابن ماجہ) یا صرف فاتحہ پڑھیں؟ براہ کرم مفصل طریقہ بتائیں۔ اللہ آپ کو اجر دے۔

جواب

آپ کے سوال کے مختلف حصوں کا جواب درج ذیل ہے:

فاتحہ خلف الامام پڑھنے کا طریقہ

امام جب سورۃ فاتحہ کی تلاوت مکمل کر لے، تو مقتدی کو چاہیے کہ کسی دوسری سورت کے آغاز سے پہلے فاتحہ پڑھ لے یا پھر امام کے سکتوں کے درمیان یہ تلاوت کر لے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جب امام قراءت کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرو، اور جب امام خاموش ہو تو مقتدی فاتحہ پڑھے۔”

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے مطابق:
امام کے سکتوں کا مطلب یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کی آیات کے درمیان مختصر خاموشی یا سورۃ فاتحہ مکمل ہونے کے بعد کی خاموشی، اگر امام خاموش نہ ہو تو مقتدی پر پھر بھی واجب ہے کہ فاتحہ پڑھ لے، چاہے امام کے قراءت کے دوران ہی کیوں نہ ہو۔
(فتاوى الشیخ ابن باز: 11/221)

نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فرضیت

سورۃ فاتحہ کی تلاوت نماز کے ارکان میں سے ایک ہے اور اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، چاہے نمازی امام ہو، مقتدی ہو یا منفرد۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

«لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ»
(صحیح بخاری: 714)
"جس نے فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی، اس کی کوئی نماز نہیں۔”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے، اور اس طریقے کو صحابہ کرام نے نقل کیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "فتح الباری” میں بیان کرتے ہیں:
"مقتدی کے لیے جہری نمازوں میں بغیر کسی قید کے سورۃ فاتحہ پڑھنا جائز ہے۔” اس بارے میں امام بخاری، ترمذی، ابن حبان وغیرہ نے مندرجہ ذیل حدیث روایت کی ہے کہ:
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فجر کی نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قراءت بوجھل ہو گئی، اور جب نماز مکمل کی تو فرمایا:
‘لگتا ہے تم اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟’
ہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘فاتحہ کے علاوہ ایسا نہ کرو، کیونکہ جو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا، اس کی نماز نہیں ہوتی۔’

مستقل فتوی کمیٹی نے اس بارے میں یہی رائے دی ہے کہ:
"امام، مقتدی اور منفرد پر جہری اور سری دونوں نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے، کیونکہ صحیح دلائل اس کے حق میں ہیں۔” اللہ تعالیٰ کا فرمان:
"جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے” عمومی ہے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان "جب وہ قرآن پڑھے تو خاموش رہو” بھی عمومی ہے۔ ان دلائل کو اس حدیث کے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے کہ "جس نے فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی، اس کی نماز نہیں۔” اور حدیث
«من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة» (جس کا امام ہو، تو امام کی قراءت اس کے لیے کافی ہے) ضعیف ہے۔

مذکورہ دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ نمازی، خواہ امام ہو، منفرد ہو، یا مقتدی ہو، اس پر ہر نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اور اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

ظہر اور عصر کی نماز میں فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت

ظہر اور عصر کی نمازوں میں پہلی دو رکعات میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت ملانا چاہیے، جبکہ آخری دو رکعات میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے