کیا جمعہ کی دوسری اذان بدعت عثمانی ہے؟
جھنگوی صاحب نے ایک غلط بیانی یہ بھی کی ہے کہ اہل سنت کے نزدیک اقوال صحابہ سنت میں جبکہ اہل حدیث جمعہ کی دوسری اذان کو عثمانی بدعت کہتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 53)
الجواب:- اولا:-
قارئین کرام مسئلہ تقلید میں‘ مؤلف تحفہ اہل حدیث کی گپ ‘ کے زیر عنوان امام ابو حنیفہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کا تمام تر علم رائے و قیاس تھا۔ جبکہ اہل حدیث رائے وقیاس کی بجائے قرآن و سنت اور اقوال صحابہ کرام کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بناتے تھے۔ اور ان سے مسائل کا حل تلاش کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ دریں صورت کس منہ سے جھنگوی صاحب ہمیں مطعون کر رہے ہیں۔
ثانیا :۔
اگر کوئی شخص عثمانی اذان کو بدعت کہنے سے اہل سنت سے خارج ہے تو جھنگوی کان کھول کر سن لے کہ اسے بدعت کہنے والے حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ ص 140 ج 2 کتاب الصلوٰۃ باب الاذان يوم الجمعة‘ حافظ ابن حجر نے‘ فتح الباری ص 315 ج 2‘ میں اس روایت کو نقل کر کے سکوت کیا ہے۔
اور اکا بر دیابنہ کو اعتراف ہے کہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر کا سکوت روایت کے صحیح ہونے کی علامت ہے۔ دیکھئے
(معارف السنن ص 385 ج 1 و درس ترمذی ص 74 ج 1 و قواعد في علوم الحدیث ص 89)
جھنگوی صاحب ہمت کریں اور عبداللہ بن عمرؓ کے اہل سنت سے خارج ہونے کا اشتہار شائع کریں‘
شاباش تیرے ہوئے تے جمے دے
ثالثاً:-
اوپر کی تقریر سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ مسئلہ صحابہ کرام میں مختلف فیہ تھا۔ اور پہلے یہ عرض کر دیا گیا ہے کہ جس مسئلہ میں صحابہ کرام مختلف فیہ ہوں تو وہاں ان کے اقوال حجت نہیں۔ لہذا حضرت عثمانؓ کا قول حجت نہ رہا۔ مگر آپ حیران ہو نگے حنفیوں نے اسے پھر بھی لائق عمل بنالیا ہے۔ حالانکہ جس روایت میں حضرت عثمان غنیؓ کا دوسری اذان دینا ثابت ہوتا ہے اسی حدیث میں اس امر کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زندگی مبارک سیدنا صدیق اکبرؓ اور عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں ایک ہی اذان دی جاتی تھی۔
(بخاری (912) باب الاذان یوم الجمعة)
رابعا:-
اگر جھنگوی یہ جھوٹا بہانہ تلاش کرلے کہ خلفاء الراشدین کا عمل سنت میں داخل ہے اور اس پر صحیح حدیث موجود ہے۔ اس کی تفصیل کا تو یہ موقع نہیں اہل علم تحفتہ الاحوذی ص 368 ج 1 کی مراجعت کریں‘ البتہ ہم یہاں پر جھنگوی کا منہ بند کرنے کی غرض سے حضرت عثمان غنیؓ کی ایک مثال عرض کرتے ہیں وہ یہ کہ حضرت عثمانؓ سے صحیح سند کے ساتھ یہ مروی ہے کہ انہوں نے سفر حج میں دور کعت کی بجائے پوری نماز پڑھی ہے۔
( بخاری ص 147 ج 1 ‘و مسلم ص 243 ج 1 و نسائی ص 170 ج 1)
لیکن احناف اس کے بر عکس یہ کہتے ہیں کہ اگر مسافر جان بوجھ کر نماز قصر کی بجائے پوری ادا کرے تو اس کی نماز فاسد ہو گئی۔ اور اس پر واجب ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔
(احسن الفتاویٰ ص 77 ج 4 ‘و خیر الفتاوی ص 681 ج 2 ‘و درس ترمذی ص 325 ج 2 ‘وفتح القدير ص 5 ج 2 و بدائع الصنائع ص 91 ج 1 ‘و البحر الرائق ص 130 ج 2 ‘و فتاویٰ عالم گیری ص 139 ج 1 ‘و فتاویٰ شامی ص 128 ج 1)
جھنگوی صاحب اگر اقوال صحابہ کو بھی سنت کہتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اس عمل عثمانی کو فاسد کہتے ہیں؟
کیا نماز کے بعد اجتماعی دعا اہل سنت کی علامت ہے؟
جھنگوی صاحب لکھتے ہیں کہ اہل سنت نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں جبکہ غیر مقلدین اہل حدیث دعا نہیں کرتے بلکہ بدعت کہتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 53)
الجواب:- اولاً:- فرض نمازوں کے بعد اجتماعی طور پر پیش امام کادعا منگوانا اور مقتدیوں کا آمین آمین کہنا کسی حدیث مرفوع و متصل سے ثابت نہیں ہے۔
دیوبندیوں کے محدث کبیرعلامہ کا شمیری فرماتے ہیں کہ
وليعلم أن الدعاء المعمول في زماننا من الدعا بعد الفريضة رافعين أيديهم على هيئة الكذائية لم تكن المواظبة عليه في عهده عليه السلام
معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے زمانہ میں جو فرض نمازوں کے بعد دعا مروج ہے کہ امام و مقتدی مل کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے اور آمین آمین کہتے ہیں یہ اس پر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مواظبت نہ تھی ۔
( عرف الشذی ص 86 ج 1)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ
اما این دعائه که آئمه مساجد بعد از سلام میکنند و مقتدیاں آمین آمین میکویند چنانچه الان در دیار عرب و عجم متعارف هست از عادت پیغمبر خدا نه بود و درین باب هیچ حدیث ثابت نه شده
آئمہ مساجد سلام پھیرنے کے بعد یہ جو دعا کرتے ہیں اور مقتدی آمین آمین کہتے ہیں جیسا کہ عرب و عجم کے ممالک میں رائج ہے یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی عادت نہ تھی۔ اور اس سلسلہ میں کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں۔
( شرح سفر السعادت ص 90 طبع مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر 1398ھ)
مولانا عبدالحی لکھنوی فرماتے ہیں
یہ طریقہ جو فی زمانہ مروج ہے کہ امام سلام کے بعد رفع یدین (ہاتھ اٹھا کر) کے ساتھ دعا مانگتا ہے اور مقتدی آمین کہتے ہیں حضور صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں نہ تھا۔ جیسا کہ ابن قیم نے زاد المعاد میں اس کی تصریح کی ہے۔
( مجموعۃ الفتاویٰ ص 232 ج 1 طبع ایچ ایم سعید کراچی 1404ھ)
یہ تمام عبارات علماء دیو بند کی ہیں۔ جن سے ثابت ہوا کہ مروجہ دعار سول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔ قارئین کرام جب آپ نے اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا تواب سنئے کہ دعا عبادت ہے اور عبادات اصل میں ممنوع الاصل ہیں۔ یعنی ان کی کیفیت وغیرہ اپنی طرف سے متعین نہیں کی جاسکتی۔ جس کی پوری تفصیل راقم نے دین الحق جلد دوم میں عرض کر دی ہے۔ اگر جھنگوی کو ہماری تحقیق پر اعتماد نہیں تو اپنے استاذ محترم مولانا سر فراز خان صاحب صفدر کی تالیف ’’راہ سنت‘‘ کا مطالعہ کرلے۔ جس میں انہوں نے اس ضابطہ اور کلیہ کو بیان کیا ہے۔
ثانیاً:
اسے بدعت کہنے کی وجہ سے آپ ہمیں اہل سنت سے خارج کر رہے ہیں۔ حالانکہ اسے بدعت کہنے والے متعدد آئمہ کرام میں امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ
(امادعاء الامام والمأمومين جميعا عقيب الصلاة فهو بدعة لم يكن على عهد النبيﷺ )
یعنی نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کا اکٹھی دعا کرنا بدعت ہے ۔ یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں نہ تھی۔
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ص 519 ج 22)
دیو بندیوں کے فقیہ العصر مفتی اعظم حضرت مفتی رشید احمد صاحب فرماتے ہیں کہ امام کے ساتھ مل کر دعا کرنے کی رسم خواہ سر تا ہو یا جہر ابدعت ہے جو قلت علم و کثرت جہل سے پیدا ہوئی اور جہال کی افراط ہے۔
(زبدة الكلمات ص 9 مندرجہ احسن الفتاویٰ ص 67 ج 3)
علامہ محمد انور شاہ کا شمیری حنفی دیوبندی مرحوم نے العفائس المرغوبتہ کی تقریظ ص 37 میں مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی نے رسالہ بدعت والسنتہ ص 19 میں اور مولانا ابوالقاسم رفیق دلاوی نے عماد الدین ص 397 میں فرض نمازوں کے بعد امام کا دعامانگنا اور مقتدیوں کا مل کر آمین کہنے کو بدعت کہا ہے۔
جھنگوی ہمت کرے اور مذکورہ اکابر دیوبند کے اہل سنت سے خارج ہونے کا اشتہار شائع کرے۔ اگر جھنگوی صاحب تیار ہیں تو اشتہار کا مسودہ تیار کریں اشاعت کے لئے فنڈ ہم مہیا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ان شاء اللہ مگر قارئین کرام یاد رکھئے کہ جھنگوی اہل حدیث کو تو اس بدعت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے خارج از اہل سنت کہتا ہے اور کتاب کی اشاعت کر کے ہمیں بطور تحفہ پیش کرتا ہے لیکن اپنے اکابر کو ایسا تحفہ قطعا نہیں دے گا کیوں ؟ آخر انصاف کا میزان یہی ہے کہ مخالف کو تو مطعون کیا جائے اور اپنے اکابر کی باری آئے تو خاموشی سادھ لی جائے۔
تف ہے ایسی دیانت پر تعجب ہے ایسی خشیت الہی پر اور کیا کہنے ہیں اس عیاری ومکاری اور بے ایمانی کے