غیبت کی تعریف، نقصان اور جائز صورتیں
ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی

وعن ابي هريرة رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏اتدرون ما الغيبة؟ ‏‏‏‏ قالوا: الله ورسوله اعلم قال: ‏‏‏‏ذكرك اخاك بما يكره ‏‏‏‏ قيل: افرايت إن كان فى اخي ما اقول؟ قال: ‏‏‏‏إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته وإن لم يكن فيه فقد بهته [‏‏‏‏اخرجه مسلم]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے ؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہارا اپنے بھائی کا ذکر ایسی چیز کے ساتھ کرنا جسے وہ ناپسندکرتا ہے“، عرض کیا گیا : آپ یہ بتائیں کہ اگر میرے بھائی میں وہ چیز موجود ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو کیا پھر بھی غیبت ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر اس میں وہ چیز موجود ہے جو تم کہہ رہے تو یقیناً تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ چیز اس میں موجود نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔“ (اسے مسلم نے روایت کیا)
تخريج : [مسلم، البرو الصلة 70] دیکھئے تحفة الاشراف [ 223/10]
غیبت مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے :
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ [49-الحجرات:12]
” تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو تم اسے برا جانتے ہو۔ “
مطلب یہ ہے کہ جس طرح مردہ کا گوشت کھایا جائے تو وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا اسی طرح وہ شخص جس کی غیبت کی جا رہی ہو پاس موجود نہ ہونے کی وجہ سے اپنی عزت کا دفاع نہیں کر سکتا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مردار کھانے کو حرام قرار دیا ہے اور اگر وہ مردہ انسان کا گوشت ہو اور انسان بھی وہ جو بھائی ہے تو اس کی حرمت کس قدر زیادہ ہو گی؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کا مفہوم خود بتانے کی بجائے صحابہ سے کیوں پوچھا؟ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت دانا اور حکیم معلم تھے اس لئے آپ تعلیم دیتے وقت صحابہ کو کسی نہ کسی طرح متوجہ کر کے ان میں علم کی طلب پیدا کر لیتے تھے تاکہ بات اچھی طرح ان کے ذہن میں بیٹھ جائے اور اگر ان کے ذہن میں کوئی اشکال ہے تو وہ بھی صاف ہو جائے۔
ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں قرآن مجید کی سب سے بڑی سورة بتاؤں گا۔ جب آپ مسجد سے نکلنے لگے تو صحابی نے ہاتھ پکڑ کر وعدہ یاد دلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ سورہ فاتحہ ہے۔“ [بخاري : 4474، 4647 ]
معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ”یقیناًً اے معاذ ! مجھے تم سے محبت ہے۔“ یہ تعلق جتانے کے بعد فرمایا کہ کسی نماز میں یہ دعا مت چھوڑنا :
رب اعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك [صحيح النسائي 1236۔ السهو 60 ]
اگر غور کریں تو طریق تعلیم پر جدید ماہرین کے لکھے ہوئے ہزاروں صفحات اس ایک نکتے کی معمولی سی تشریح ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔

غیبت کیا ہے ؟ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کی ایسی واضح اور جامع تعریف فرمائی ہے کہ اس میں کوئی ابہام باقی نہیں چھوڑا۔ ذكرك اخاك بما يكره ”تمہارا اپنے بھائی کو اس چیز کے ساتھ ذکر کرنا جس (کے ساتھ ذکر کئے جانے) کو وہ ناپسند کرتا ہے۔“
امام نووی نے الاذکار میں اس کی کچھ تفصیل فرمائی ہے خلاصہ یہ ہے کہ :
”خواہ وہ چیز اس کے بدن سے تعلق رکھتی ہو یا دین سے یا دنیا سے، اس کی شکل و صورت کے بارے میں ہو یا اخلاق کے، اس کے مال، اولاد، والدین، بیوی بچوں کے متعلق ہو یا اس کے لباس، چال ڈھال، بول چال، خندہ پیشانی یا ترش روئی کے متعلق غرض اس سے تعلق رکھنے والی کسی بھی چیز کا ذکر جو اسے ناپسند ہو غیبت ہے۔ پھر خواہ یہ ذکر زبان سے کیا جائے یا تحریر سے، اشارے سے ہو یا کنائے سے تمام صورتوں میں غیبت ہے۔ اشاره خواہ آنکھ سے ہو یا ہاتھ سے، سر کے ساتھ ہو یا جسم کے کسی حصے کے ساتھ غیبت میں شامل ہے۔
بدن کی غیبت مثلاٍ :
اس کی تنقیص کے لئے اندھا، لنگڑا، کانا، گنجا، ٹھگنا، لمبوترا، کالا، کبڑا یا اس قسم کا کوئی اور لفظ استعمال کرے۔ دین کے بارے میں غیبت یہ ہے کہ : اسے فاسق، چور، خائن، ظالم، نماز میں سست، پلید، ماں باپ کا نافرمان، بدمعاش وغیرہ کہے۔ دنیا کے بارے میں مثلاً : اسے نکما، باتونی، پیٹو وغیرہ کہے۔ اخلاق کے متعلق مثلاً : اسے بدخلق، متکبر، ریاکار، جلد باز، بزدل، سڑیل قرار دے۔ اس کے والد کے متعلق مثلاً : جولاہا، موچی، کالا حبشی وغیرہ کہہ کر اس کی تنقیص کرے۔ پھر زبان ہاتھ، جسم کے ساتھ غیبت کی ایک صورت اس کی نقل اتارنا ہے۔ مثلاً : اس کے اٹک اٹک کر بات کرنے یا ناک میں بولنے کی، لنگڑا کر چلنے کی، کبڑا ہونے کی یا چھوٹے قد کا ہونے کی نقل اتارے۔ غرض قاعدہ یہ ہے کہ کوئی بھی حرکت جس کا مقصد کسی مسلم بھائی کی تنقیص ہو غیبت ہے اور حرام ہے۔

کیا غیبت کسی صورت میں جائز بھی ہوتی ہے ؟ :
بعض اوقات مسلم بھائی کی غیبت جائز بھی ہو جاتی ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کا عیب بیان کیا جا سکتا ہے۔
قاعدہ اس کا یہ ہے کہ جب دین کا کوئی ضروری مقصد اس کے بغیر حاصل نہ ہو سکتا ہو تو اس وقت یہ جائز ہے۔ نووی نے اور ان سے پہلے غزالی نے غیبت کے جواز کے چھ موقعے گنائے ہیں :
ظلم پر فریاد :
مظلوم کو حق ہے کہ ظالم کے خلاف بات کرے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا :
لَّا يُحِبُّ اللَّـهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ [4-النساء:148]
”اللہ تعالیٰ بری بات کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں کرتا سوائے اس کے جس پر ظلم کیا جائے۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان لصاحب الحق مقالا ”حق والے کو بات کرنے کی گنجائش ہے۔“ [بخاري : ح 2390]
بہتر یہ ہے کہ بادشاہ یا قاضی یا ایسے شخص کے پاس اپنی مظلومیت کا تذکرہ کرے جو اس کی مدد کر سکتا ہو۔
② کسی گناہ یا برے کام کو روکنے کے لئے ایسے لوگوں کو اطلاع دینا جو اس کے ساتھ مل کر یا خود اسے روک سکیں۔ اگر مقصد صرف اس کام کرنے والے کی تذلیل ہو تو یہ جائز نہیں۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی آیات و احادیث اس کی دلیل ہیں۔
➌ فتویٰ لینے کے لئے مفتی کے سامنے کسی کے نقص کا ذکر کرے تو یہ جائز ہے، مثلاً ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہے مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو۔ کیا میں اس کے علم کے بغیر اس کے مال میں سے لے لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہارے اور تمهارے بچوں کے لئے جتنا کافی ہو معروف طریقے کے ساتھ لے لیا کرو۔“ [بخاري : 2211، البيوع/94 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند ہ رضی اللہ عنہا کو اپنے خاوند کا عیب بیان کرنے سے منع نہیں فرمایا کیونکہ اس کا مقصد مسئلہ پوچھنا تھا۔
➍ مسلمانوں کی خیرخواہی کے لئے اور انہیں شر سے بچانے کے لئے کسی کی برائی سے آگاہ کرے تو یہ جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ايذنوا له بئس اخو العشيرة [البخاري۔ 6054 ]
”اسے اجازت دے دو یہ خاندان کا بہت برا آدمی ہے۔ “ (حديث لمبی ہے )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس شخص کی برائی سے آگاہ کرنا ضروری خیال فرمایا۔ مسلمانوں کی خیرخواہی میں اور انہیں شر سے بچانے میں بہت سی چیزیں آ جاتی ہیں :۔
(الف) حدیث کے راویوں پر اور مقدمے کے گواہوں پر جرح جائز بلکہ واجب ہے اور اس پر امت کا اتفاق ہے۔
(ب) جب کوئی شخص کسی کے ساتھ رشتہ کرنے یا امانت رکھنے یا مشارکت کرنے یا ہمسائیگی اختیار کرنے، کاروبار یا کوئی اور معاملہ کرنے کے متعلق مشورہ پوچھے تو صحیح صحیح بات بتا دے۔
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے معاویہ رضی اللہ عنہ اور ابوجہم رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاویہ تو کنگال ہے اس کے پاس کچھ نہیں اور ابوجہم عورتوں کو بہت مارتا ہے تم اسامہ سے نکاح کر لو۔ “ [صحيح مسلم : 1480، الطلاق6 ]
اور یہ مومن کا حق ہے واذا ستنصحك فانصح له ” جب وہ تم سے مشورہ مانگے تو اس کی خیر خواہی کر۔ “ [صحيح مسلم 2162، الادب 3 ]
⑤ جو شخص کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی کرتا ہو، لوگوں کو لوٹتا ہو، اعلانیہ شراب پیتا ہو تو اس کے ان گناہوں کا ذکر جائز ہے جن کو چھپانے کی وہ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا اور جن کا ذکر کیا جائے تو اسے برا محسوس ہی نہیں ہوتا۔ کیونکہ غیبت ان چیزوں کا ذکر ہے جسے وہ ناپسند کرے۔
⑥ کوئی شخص کسی لقب کے ساتھ مشہور ہو اس کے بغیر اس کی پہچان نہ ہوتی ہو اور وہ اسے برا بھی نہ جانتا ہو تو اسے اس لقب سے ذکر کرنا جائز ہے خواہ اس میں اس کا کوئی نقص ہی بیان ہو رہا ہو۔ مثلاً : أَعْمَشْ (جس کی آنکھیں چندھیائی ہوئی ہوں) أَعْرَجْ (لنگڑا)۔ أَصَمْ (بہرا) أَعْميٰ (نابینا) وغیره شرط یہ ہے کہ مقصد اس کی تنقیص نہ ہو۔

کیا غیر مسلم کی غیبت جائز ہے :
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا
مسلمان ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں۔
اسی طرح ذكرك اخاك بمايكره سے بھی ظاہر ہے کہ صرف مسلمان کی غیبت ناجائز ہے۔ کیونکہ کافر ہمارا دینی بھائی نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توحید ڈاٹ کام پر پوسٹ کردہ نئے اسلامی مضامین کی اپڈیٹس کے لیئے سبسکرائب کریں۔