غصے سے بچاؤ کی وصیت اور اس کے فوائد
ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی

وعنه رضى الله عنه ان رجلا قال: يا رسول الله اوصيني قال: لا تغضب ‏‏‏‏ فردد مرارا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال: ‏‏‏‏لا تغضب ‏‏‏‏ [اخرجه البخاري]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ ! مجھے وصیت کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”غصہ مت کر “اس نے کئی مرتبہ (سوال ) دہرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہی) فرمایا : ”غصہ مت کر۔ “ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے )
تخریج : [بخاري 6116 ]
فوائد :
یہ سوال کرنے والا کون تھا؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال مختلف وقتوں میں کئی صحابہ نے کیا اور آپ نے انہیں یہی جواب دیا فتح الباری میں جاریہ بن قدامہ، سفیان بن عبداللہ ثقفی، ابوالدرداء اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے یہ سوال اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی جواب مذکور ہے۔ ان میں سے بعض نے یہ کہہ کر سوال کیا کہ آپ مجھے تھوڑی سی بات بتا دیجئے جس سے مجھے نفع ہو اور بعض نے کہا: مجھے ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ آپ نے میں جواب دیا کہ غصہ مت کر۔ تمام روایات کی تفصیل کے لئے دیکھئے : فتح الباری [حديث 6116 ]
➋ طالب وصیت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب
حقیقت یہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کے جواب میں اور وصیتیں بھی فرمائی ہیں۔ بعض سے فرمایا : قل ربي الله ثم استقم ”تو کہہ میرا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہ۔ “ [صحيح الترمذي – الزهد 47]
بعض سے فرمایا : لا يزال لسانك رطبا من ذكر الله ”تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے۔ “ [ترمذي 458/5 اور صحيح ابن ماجه 317/2]
اہل علم فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک ماہر طبیب ہر مریض کے مزاح اور بیماری کو مدنظر رکھ کر علاج اور غذا تجویز کرتا ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے بڑے روحانی معالج تھے ہر شخص کو اسی عمل کی وصیت فرماتے جو اس کے لئے ضروری اور اس کے حالات کے مطابق ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے ان حضرات میں غصہ زیادہ تھا اس لئے آپ نے انہیں بار بار سوال کے باوجود غصہ سے اجتناب کی ہی وصیت فرمائی۔ چونکہ تقریبا تمام لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ غصے میں آ کر اعتدال سے نکل جاتے ہیں اس لئے آپ کی وصیت تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔
غصہ کے نقصانات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غصے سے بچنے کا حکم دے کر بے شمار قباحتوں سے بچانے کا اہتمام فرمایا کیونکہ غصے کی آگ سے انسان کا چہرہ اور آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں بلکہ شکل ہی بدل جاتی ہے غم کے ساتھ ہی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے آدمی وحشیانہ حرکتیں کرنے لگتا ہے مارنے کو دوڑتا ہے قتل تک سے دریغ نہیں کرتا، بس نہ چلے تو اپنے ہی کپڑے پھاڑ دیتا ہے، اپنے آپ کو ہی مارنا شروع کر دیتا ہے زبان سے واہی تباہی بکنے لگتا ہے، برتن توڑ دیتا ہے، کبھی کسی بے گناہ کو مارنا شروع کر دیتا ہے۔ غرض ایسے ایسے کام کرتا ہے کہ اگر ہوش کی حالت میں اپنے آپ کو دیکھے تو شرمندہ ہو جائے۔ یہ تو ظاہری نقصان تھا دل کا نقصان اس سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ غصے کی وجہ سے دل بغض، کینے، حسد اور آتش انتقام سے بھرا رہتا ہے سکون اور اطمینان رخصت ہو جاتے ہیں انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر آجاتا ہے اور دوستوں، رشتہ داروں اور اہل ایمان بھائیوں سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ اب آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حکیمانہ وصیت پر غور فرمائیں کہ آپ نے اس چھوٹے سے جملے میں کتنی حکمت کی باتیں سمو دی ہیں۔ اس پر عمل کرنے سے انسان کو کتنے فائدے حاصل ہوتے ہیں اور وہ کتنے نقصانات سے محفوظ رہتا ہے۔
غصہ مت کر مطلب؟
ظاہر ہے کہ غصہ ایک فطری چیز ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ غصہ نہ آئے بلکہ اللہ کے دین کی خاطر غصے ہو نا قابل تعریف ہے اور اس سے جذبہ جہاد پروان چڑھتا ہے۔ اس لئے ”غصہ مت کر“ کا مطلب یہ ہے کہ جہاں غصے ہونا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں وہاں غصہ مت کرو۔ ایسے مقامات پر ”غصہ مت کرو“ کی دو حالتیں ہیں۔ ایک غصہ آنے سے پہلے دوسرے غصہ آنے کے بعد۔
غصہ آنے سے پہلے لَا تَغْضَبْ کا مطلب یہ ہے کہ کوشش کرو غصہ نہ آئے حتیٰ کہ غصہ نہ کرنے کی عادت بن جائے۔ اس کے لئے وہ اسباب اختیار کرنا ہوں گے جن سے آدمی حسن اخلاق کا مالک بن جاتا ہے۔ مثلاً بردباری، حیا، سوچ سمجھ کر کام کرنا، زیادتی برداشت کرنا، کسی کو تکلیف نہ پہنچانا، عفو درگزر، غصہ کو پی جانا اور ہر ایک کو کھلے چہرے اور خندہ پیشانی سے ملنا۔ جب ان چیزوں کی عادت ہو جائے گی تو غم کے موقعہ پر آدمی اس عادت کی وجہ سے غصے میں آنے سے بچ جائے گا۔ غصہ آ جانے کے بعد لَا تَغْضَبْ کا مطلب یہ ہے کہ غصے کے کہنے پر عمل مت کرو۔
ابن حبان رحمہ الله نے یہ حدیث روایت کرنے کے بعد فرمایا کہ ”غصے میں آنے کے بعد کوئی ایسا کام مت کرو جس سے تمہیں منع کیا گیا ہے“ مطلب یہ ہے کہ غصے پر قابو پانے کی کوشش کرو اور اس کے کہنے میں آ کر اللہ کی نافرمانی مت کرو کیونکہ اصل پہلوان اور طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کا کوئی کام نہیں کرتا۔
جب غصہ آ جائے تو اسے دور کرنے کا طریقہ کیا ہے اس کے لئے دیکھئے اس باب کی حدیث 1396/2 کی تشریح۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے