غسل رسول ﷺ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کی تحقیق
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

اے علی رضی اللہ عنہ تیرے علاوہ مجھے کوئی غسل نہ دے
حافظ ابو بکر بن البزار نے اپنی مسند میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی کہ تیرے (علی رضی اللہ عنہ) کے علاوہ کوئی مجھے کو غسل نہ دے۔ کیونکہ جو بھی میری شرمگاہ دیکھے گا وہ نابینا ہو جائے گا۔
[اخرجه العقيلي فى الضعفاء: 13/4۔ والبيهقي فى الدلائل: 244/7۔ ميزان الاعتدال: 505/5]
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عباس رضی اللہ عنہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ مجھے پس پردہ سے پانی دے رہے تھے۔
بزار نے جو اس کی سند پیش کی ہے۔ اس کے راوی یہ ہیں۔
محمد بن عبد الرحیم، عبد الصمد بن النعمان، کیسان ابو عمرو، یزید بن بلال، حضرت علی رضی اللہ عنہ۔
این کثیر لکھتے ہیں کہ یہ روایت بیہقی نے بھی کیسان ابو عمرو سے نقل کی ہے۔ لیکن یہ روایت انتہا سے زیادہ غریب ہے۔ [البدايه و النهايه: 261/5]
یہ روایت ابن سعد نے بھی طبقات میں عبد الصمد بن النعمان سے ان الفاظ میں نقل کی
ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے علی رضی اللہ عنہ وصیت فرمائی کہ تیرے علاوہ کوئی مجھ کو غسل نہ دے۔ ورنہ جس شخص کی نگاہ میری شرمگاہ پر پڑے گی وہ نابینا ہو جائے گا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ فضل رضی اللہ عنہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ مجھے پردے کے پیچھے سے پانی دے رہے تھے۔ اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اور جب میں کسی عضو کو ہلاتا تو مجھے یہ محسوس ہوتا کہ مجھ میں تیس آدمیوں کی قوت پیدا ہو گئی ہے حتی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل سے فارغ ہوا۔ [طبقات ابن سعد: 94/4]
قارئین کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہا نے غسل دیا، لیکن حضرت فضل رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کروٹیں تبدیل کرا رہے تھے۔ اور عباس، اسامہ اور شقران رضی اللہ عنہم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے پانی ڈال رہے تھے۔ اور بعض مورخین یہ کہتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بجائے ان کے صاجزادے قثم رضی اللہ عنہ شریک تھے۔
ہم اس روایت کے صرف تین راویوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں:
عبد الصمد بن النعمان:
یہ بغداد کا باشندہ تھا، بزاز تھا، صحاح ستہ کے مصنفین میں سے کسی نے اس سے روایت نہیں لی۔
یحیی بن معین وغیرہ کہتے ہیں ثقہ ہے۔
دارقطنی اور نسائی کا بیان ہے کہ قوی نہیں۔ [ميزان الاعتدال: 356/4۔ المغني: 396/2 – الجرح والتعديل: 51/6]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ابن حبان نے اس کو ثقات میں شمار کیا ہے۔
ابراہیم الجنید کا بیان ہے کہ میں نے یحیی بن معین سے اس کی حدیث کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے فرمایا میں اسے جھوٹا نہیں سمجھتا۔
عجلی کہتے ہیں ثقہ ہے۔ [لسان الميزان: 23/4]

کیسان ابو عمرو:
اسے قصار بھی کہا جاتا ہے۔ یزید بن بلال سے روایات نقل کرتا ہے۔ یحیٰی بن معین کہتے ہیں: ضعیف ہے۔
عبد اللہ بن احمد کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد امام احمد سے اس کے بارے میں دریافت کیا، فرمایا: یہ ضعیف الحدیث ہے۔
اس سے عبد اللہ بن النعمان، محمد بن ربیع اور عبید اللہ بن موسی نے روایات نقل کی ہیں۔ اس راوی پر اعتراض ہے۔ اور اس کی یہ روایت انتہا سے زیادہ منکر ہے۔ [ميزان الاعتدال: 505/5۔ تقريب: 137/2]
عبد الرحمان بن ابی حاتم لکھتے ہیں: اس کیسان ابو عمرو نے یزید بن بلال سے روایت نقل کی ہے۔ جو اس کا مالک تھا۔ اس سے متعدد افراد نے روایات نقل کی ہیں۔ میں نے یحییٰ بن معین سے اس کے بارے میں دریافت کیا، انہوں نے فرمایا: ضیف الحدیث ہے۔ [الجرح والتعديل: 166/7]

زید بن بلال:
کہا جاتا ہے کہ یہ اصحاب علی رضی اللہ عنہ میں داخل ہے۔ اور محدثین تمام اصحاب علی رضی اللہ عنہ کو کذاب سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمان بن ابی حاتم لکھتے ہیں۔ یزید بن بلال بن الحارث الفراری حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتا ہے۔ اس سے کیسان ابو عمرو کے علاوہ کسی نے روایت نقل نہیں کی، مجھ سے میرے والد نے اتنی ہی بات بیان فرمائی۔ [الجرح والتعديل: 254/9]
ذہبی لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتا ہے جو صحیح نہیں۔
بخاری کہتے ہیں یزید بن بلال نے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے۔ اس پر اعتراض ہے۔ اس سے کیسان ابو عمرو الہجری کی روایت نقل کرتا ہے۔ جو صحیح نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے