سوال : کیا سورج غروب ہوتے وقت نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے؟
جواب : عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
«ثلاث ساعات كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهانا ان نصلي فيهن، او نقبر فيهن موتانا: حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع، وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل، وحين تضيف الشمس للغروب حتى تغرب» [مسلم، كتاب صلاة المسافرين وقصرها باب الاوقات التى نهي عن الصلاة فيها 831،
أبوداؤد 3192، نسائي 561، ترمذي 1030، ابن ماجه 1519، أبوعوانة 386/1، بيهقي 32/4، مسند طيالسي 1001، مسند أحمد 152/4]
”تین اوقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھنے اور مردے دفن کرنے سے منع فرمایا ہے، جب سورج واضح طور پر طلوع ہو رہا ہو، یہاں تک کہ بلند ہو جائے، جب دوپہر کے وقت عین سر پر ہو حتیٰ کہ ڈھل جائے اور جس وقت غروب ہونے کے لیے مائل ہو رہا ہو حتیٰ کہ غروب ہو جائے۔“
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«ولا تجوز الصلاة على الجنازة فى الاوقات الثلاثة التى تحرم الصلاة فيها الا لضرورة لحديث عقبة بن عامر» [أحكام الجنائز وبدعها ص/165]
”جن تین اوقات میں نماز ادا کرنا حرام ہے ان میں نمازِ جنازہ ادا کرنا جائز نہیں سوائے ضرورت کے، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے۔“
محمد بن ابی حرملہ کہتے ہیں :
”زینب بنت ابی سلمہ فوت ہو گئیں اور اس زمانے میں مدینہ کے حاکم طارق تھے۔ نمازِ صبح کے بعد ان کا جنازہ لایا گیا اور بقیع میں رکھا گیا اور طارق صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھاتے تھے۔ ابن ابی حرملہ کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو سنا وہ زینب کے گھر والوں سے کہتے تھے : ”یا تو تم نمازِ جنازہ اب پڑھ لو یا اسے لیٹ کر دو، یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے۔“ [بيهقي، كتاب الجنائز : باب من كره الصلاة والقبر فى الساعات الثلاث 32/4، مؤطا مترجم ص/188]
نمازِ جنازہ عصر کے بعد اور صبح کے بعد پڑھی جائے، جب یہ دونوں نمازیں اپنے وقت میں پڑھی جائیں یعنی صبح اندھیرے میں پڑھی جائے اور عصر آفتاب زرد ہونے سے پہلے پڑھی جائے۔ زیاد کو علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی :
« ان جنازة وضعت فى مقبرة اهل البصرة حين اصفرت الشمس فلم يصل عليها حتٰي غربت الشمس فامر ابو برزة المنادي فنادٰي بالصلاة ثم اقامها فتقدم ابو برزة فصلٰي بهم المغرب وفي الناس انس بن مالك وابوبرزة من الانصار من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم صلوا على الجنازة » [بيهقي 32/4]
”اہلِ بصرہ کے قبرستان میں سورج کے زرد ہونے کے وقت ایک جنازہ رکھا گیا، اس پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی گئی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو حکم دیا کہ وہ نماز کے لیے اذان کہے۔ اس نے اذان کہی پھر اقامت کہی، ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر انہیں مغرب کی نماز پڑھائی اور لوگوں میں انس بن مالک اور ابوبرزہ رضی اللہ عنہما انصاری موجود تھے پھر انہوں نے نمازِ جنازہ پڑھی۔“
عبدالرحمٰن بن حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف فرماتے ہیں :
«واتي بجنازة رافع بن خديج بعد صلاة الفجر فسمعت عبدالله بن عمر يقول صلوا علٰي صاحبكم الآن والا فاخروا حتٰي تطلع الشمس » [الأوسط لابن المنذر 396/5]
”رافع بن خدیج کا جنازہ نمازِ فجر کے بعد لایا گیا، میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا : ”اپنے ساتھی پر اب نمازِ جنازہ پڑھ لو وگرنہ اسے لیٹ کرو حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جائے۔“
مذکورہ بالا احادیث وآثار سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج جب نکل رہا ہو یا عین سر پر ہو یا غروب ہونے کے قریب ہو تو نماز جنازہ وغیرہ ادا نہیں کرنا چاہیے۔ امام احمد، امام اسحاق، امام مالک، امام اوزاعی، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ م ائمہ کا یہی نقطہ نظر ہے۔ [ديكهيے تحفة الأحوذي 102/4]
جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”جن اوقات میں نماز مکروہ ہے ان میں نمازِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔“ [تحفة الأحوذي 102/4]
علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اگر کہا جائے کہ نمازِ جنازہ بھی تو نماز ہے اور ان اوقات میں ہر نماز منع ہے تو امام شافعی رحمہ اللہ نے کیسے کہہ دیا ہے کہ ان اوقات میں نمازِ جنازہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ان اوقات میں ہر نماز منع نہیں بلکہ صرف وہ نمازیں منع ہیں جن کے لیے کوئی سبب نہیں اور جو اسباب والی نمازیں ہیں وہ ان اوقات میں جائز ہیں اور نمازِ جنازہ اسباب والی نمازوں میں سے ہے۔“ [تحفة الأحوذي 103/4]
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”ان تین اوقات میں لوگوں نے نمازِ جنازہ ادا کرنے اور میت کو دفن کرنے کے جواز میں اختلاف کیا ہے۔ اکثر اہلِ علم اس طرف گئے ہیں کہ ان اوقات میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے۔ یہی قول عطا، نخعی، اوزاعی، ثوری، اہل الرائے، احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہم کا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک دن یا رات کے کسی بھی وقت میں نماز اور میت کی تدفین درست ومباح ہے اور جماعت کا قول حدیث کی موافقت کی وجہ سے اولیٰ ہے۔“ [معالم السنن 327/4]
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کو قبول کیا ہے۔ [الأوسط لابن المنذر 396/5]
اور راقم کے نزدیک بھی یہی بات زیادہ مناسب ہے۔ کیونکہ اس کی تائید عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہوتی ہے۔ «والله اعلم»
علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”بعد نمازِ عصر اور بعد نمازِ فجر نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے۔ ہاں آفتاب طلوع ہونے کے وقت اور غروب ہونے کے وقت اور ٹھیک دوپہر کو آفتاب کے کھڑے ہونے کے وقت نمازِ جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے۔“ [كتاب الجنائز : 48]