عید میلاد النبیﷺ کے جواز میں بریلویوں کے 5 من گھڑت دلائل کا رد
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب عید میلا النبیﷺ کی شرعی حیثیت سے ماخوذ ہے۔

کتاب و سنت میں عید میلاد النبی کی اصل نہیں ملتی، اس کی ابتدا چوتھی صدی میں ہوئی، یہ سب سے پہلے مصر میں فاطمی شیعوں نے منایا۔
(الخِطَط للمقريزي: 490/8 وغيره)
اپنے نبی کے میلاد کو منانے والی بدعت اولاً عیسائیوں میں شروع ہوئی تھی، پھر مسلمانوں میں بھی در آئی۔ مروجہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عید میلاد عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہے اور بدعت سیئہ ہے، جبکہ کفار کی مشابہت اور ان کی رسومات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے، بلکہ خیر القرون کے تینوں زمانوں میں اس کا وجود نہیں ملتا، یہ بعد کی ایجاد ہے۔
❀ مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی نقل کرتے ہیں:
لم يفعله أحد من القرون الثلاثة، إنما حدث بعد
میلاد شریف قرون ثلاثہ میں کسی نے نہ کیا، بلکہ بعد میں ایجاد ہوا۔
(جاء الحق: 236/1)
❀ علامہ غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں:
سلف صالحین یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین نے محافل میلاد نہیں منعقد کیں، بجا ہے۔
(شرح صحیح مسلم: 179/3)
❀ علامہ عبدالسمیع رامپوری لکھتے ہیں:
یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوا یعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔ (انوار ساطعہ: 159)
❀ علامہ ابن رجب (م: 795ھ) رقمطراز ہیں:
أما ما اتفق السلف على تركه، فلا يجوز العمل به، لأنهم ما تركوه إلا على علم أنه لا يعمل به
جس کام کے چھوڑنے پر سلف کا اتفاق ہو، اسے کرنا جائز نہیں، انہیں یہ علم تھا کہ یہ قابل عمل نہیں، اس لئے اسے چھوڑ دیا۔
(فضل علم السلف، ص 31)
امام ابن تیمیہ کے بقول بدعت کی نشانی یہ ہے کہ اس پر عمل کرنے کو متشابہات بہ طور دلائل لائے جاتے ہیں۔ شیخ پالنے کی بات کسی نباض کی سی بات معلوم ہوتی ہے۔
ملاحظہ کیجئے:

شبہ نمبر1:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا﴾
(يونس: 58)
کہہ دیجئے! اللہ کے فضل و رحمت کی بنا پر خوش ہو جائیں۔
اس کا ایک ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے:
اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی مناؤ۔
لغت عرب مگر اس ترجمے کا ساتھ نہیں دیتی۔ تفصیل یہ ہے:
فرح کا معنی خوش ہونا یا خوشی محسوس کرنا ہوتا ہے، نہ کہ خوشی منانا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ﴾
(التوبة: 81)
(غزوہ تبوک سے) پیچھے رہ جانے والے (منافقین) خوش ہوئے۔
کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے جشن منایا تھا؟
صحیح بخاری (1915) میں ہے کہ جب سورۃ البقرہ کی آیت (187) نازل ہوئی:
فرحوا بها فرحا شديدا
اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت خوش ہوئے۔
کیا اس کا معنی یہ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جشن منایا، یعنی عید نزول آیت؟

اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں:

❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ولهم يومان يلعبون فيهما، فقال: ما هذان اليومان؟ قالوا: كنا نلعب فيهما فى الجاهلية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله قد أبدلكم بهما خيرا منهما يوم الأضحى، ويوم الفطر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، اہل مدینہ نے دو دن مقرر کیے ہوئے تھے، جن میں وہ کھیل کود کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ دو دن کیسے؟ کہنے لگے: ہم زمانہ جاہلیت سے ہی ان دو دنوں میں کھیل کود کرتے چلے آ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کو عید الاضحیٰ اور عید الفطر کی صورت میں ان سے بہتر دن عطا کیے ہیں۔
(مسند الإمام أحمد: 250/3، سنن أبي داود: 1134، سنن النسائي: 1556، وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام حاکم (294/1) نے امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے، اور حافظ ذہبی نے موافقت کی ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
(بلوغ المرام من أدلة الأحكام: 497)
بطور تہوار اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں، تیسری عید کا کوئی تصور نہیں۔

عید غدیر خم:

شیعہ عید غدیر خم مناتے ہیں۔ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اعزاز ہے۔
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ یا تو سب کے ہیں، صرف شیعہ کے تو نہیں۔ سو ہمیں بھی چاہیے کہ اس دن ایک بڑی والی عید کا اہتمام کریں کیونکہ خوشی کے موقع پر عید منانا قرآنی حکم ہے؟
لیکن جو احباب عید میلاد پر خوشی والی آیت کو دلیل بناتے ہیں، اسی خوشی والی آیت سے ثابت ہونے والی عید غدیر خم کو بدعت کہتے ہیں۔ کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس اعزاز پر انہیں خوشی نہیں یا ان کا استدلال ہی خطا ہے؟

عید میلاد عیسیٰ علیہ السلام:

عیسائی لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے میلاد کے قائل ہیں۔ ان کے دنیا میں آنے کی خوشی میں جشن مناتے ہیں اور اسے عید قرار دیتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ہمیں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی دنیا میں آمد کی خوشی عیسائیوں سے زیادہ ہے اور آج بھی وہ ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ ان کے ایمان کا جزو لازم ہے۔ تو کیا اس بنیاد پر ان کا یوم ولادت بطور عید منانا چاہیے؟ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے؟ یہ خوشی کا اظہار ہے اور ہم بھی خوشی کے اظہار کے لیے عید میلاد عیسیٰ منائیں؟
نیز سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی خوشیاں منا رہے ہیں، کا نعرہ یہاں بھی بلند کیا جائے؟
کیا لوگوں سے کہا جائے کہ آپ کو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا میں آنے کی خوشی نہیں ہے، اس لیے آپ یوم ولادت نہیں مناتے، آپ گستاخ عیسیٰ نبی اللہ ہیں؟

عید المائدہ یا عید العشاء:

❀ مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:
﴿رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا﴾
(المائدة: 114)
معلوم ہوا کہ مائدہ آنے کے دن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے عید کا دن بنایا۔
(جاء الحق: 231/1)
عیدیں ہر شریعت کی اپنی ہیں۔ ہمیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ دی گئیں ہیں۔ ورنہ جس دن سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے عید منائی، اس دن آپ عید کیوں نہیں مناتے؟ کیا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی خوشی میں شریک نہیں آپ؟ اگر شریک ہیں اور یقیناً ہیں، تو اس کار خیر سے پیچھے رہ جانے کا کیا جواز؟

عید الام:

اہل یورپ مدر ڈے (Mother’s Day) مناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک دن ماں جیسی انمول نعمت کے نام ہونا چاہیے۔ حالانکہ ہمارے معاشرے میں ماں کو جو تقدس اور احترام حاصل ہے، اہل یورپ کے ہاں تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ تو ہم لوگ ماں کے نام سے عید کیوں نہیں بنا لیتے؟ ماں سے محبت نہیں؟ یا ماں کو اللہ کی نعمت نہیں سمجھتے؟
آخر میں عرض ہے کہ کسی روز وقت نکال کر ان اشیاء کی فہرست بھی پیش کر دیں، جنہیں آپ خدا کی نعمتیں جانتے ہیں اور ان کی عیدوں کا شیڈول بھی سامنے لائیں تاکہ آپ کے دعوے کہ کسی دینی کامیابی کے دن کو خوشی کا دن منانا جائز ہے، پر عمل ہو جائے۔ نیز جس دن اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو، اس دن کو عید منانا جائز ہے، پر عمل ہو جائے!
گستاخی معاف، مگر سوال یہ ہے کہ عید میلاد کا ذکر فقہ حنفیہ میں کیوں نہیں ملتا؟
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م: 728ھ) فرماتے ہیں:
أما اتخاذ موسم غير المواسم الشرعية كبعض ليالي شهر ربيع الأول التى يقال: إنها ليلة المولد، أو بعض ليالي رجب، أو ثامن عشر ذي الحجة، أو أول جمعة من رجب، أو ثامن شوال الذى يسميه الجهال: عيد الأبرار، فإنها من البدع التى لم يستحيها السلف ولم يفعلوها، والله سبحانه وتعالى أعلم
شریعت کی مقرر کردہ عیدوں کے علاوہ دوسری عیدیں، مثلاً ربیع الاول میں عید میلاد، رجب کی بعض راتیں، اٹھارہ ذی الحجہ، رجب کا پہلا جمعہ، یا آٹھ شوال کی عید، جسے جاہل لوگ عید الابرار کا نام دیتے ہیں، یہ سب بدعت ہیں کیونکہ سلف نے انہیں نہ منایا اور نہ انہیں مستحب سمجھا۔ واللہ اعلم۔
(الفتاوى الكبرى: 414/4، مجموع الفتاوى: 298/25)

شبہ نمبر 2 :

❀ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج على حلقة يعني من أصحابه فقال: ما أجلسكم؟ قالوا: جلسنا ندعو الله ونحمده على ما هدانا لدينه، ومن علينا بك، قال: الله ما أجلسكم إلا ذلك؟ قالوا: الله ما أجلسنا إلا ذلك، قال: أما إني لم أستحلفكم تهمة لكم، وإنما أتاني جبريل عليه السلام فأخبرني أن الله عز وجل يباهي بكم الملائكة
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایک حلقے میں تشریف لائے اور فرمایا: کیسے بیٹھے ہیں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس کی تعریف کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت ہم پر احسان کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! کیا صرف اسی مقصد کے لیے بیٹھے ہیں؟ عرض کیا: اللہ کی قسم! صرف اسی مقصد کے لیے۔ فرمایا: میں نے یہ قسم کسی بدگمانی کی وجہ سے نہیں لی، بلکہ (وجہ یہ ہے) ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے آپ پر فخر کرتا ہے۔
(مسند الإمام أحمد: 92/4، سنن النسائي: 5428، سنن الترمذي: 3379، وسنده حسن)
اس حدیث سے مروجہ جشن عید میلاد کے جواز پر استدلال درست نہیں۔ کسی ثقہ امام نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت نہیں کیا۔ اس حدیث سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا وہ حلقہ اللہ تعالیٰ کے احسانات پر اس کی تعریف بیان کر رہا تھا اور دعا کر رہا تھا، نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت پر جشن منا رہا تھا۔ اس پر سہاگہ یہ کہ متعدد علماء نے اس جشن کو بدعت مذمومہ قرار دیا ہے۔ مطلب یہ کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم میں نہیں تھی۔
(المدخل: 229/2، 234، الحاوي للفتاوي: 190/1ـ191)

شبہ نمبر 3:

❀ مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:
﴿رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا﴾
(المائدة: 114)
معلوم ہوا کہ مائدہ آنے کے دن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے عید کا دن بنایا۔
(جاء الحق: 231/1)
عیدیں ہر شریعت کی اپنی ہیں۔ ہمیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ دی گئیں ہیں۔ ورنہ جس دن سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے عید منائی، اس دن آپ عید کیوں نہیں مناتے؟ کیا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی خوشی میں شریک نہیں آپ؟ اگر شریک ہیں اور یقیناً ہیں، تو اس کار خیر سے پیچھے رہ جانے کا کیا جواز؟

شبہ نمبر 4:

قال عروة: وتويبة مولاة لأبي لهب، كان أبو لهب أعتقها، فأرضعت النبى صلى الله عليه وسلم، فلما مات أبو لهب أريه بعض أهله بشر حيبة، قال له: ماذا لقيت؟ قال أبو لهب: لم ألق بعدكم غير أني سقيت فى هذه بعتاقتي تويبة
عروہ بن زبیر رحمہ اللہ تابعی کا بیان ہے کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی۔ ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا۔ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا۔ موت کے بعد اس کے اہل خانہ میں سے کسی نے خواب میں اسے بری حالت میں دیکھا۔ اس نے ابو لہب سے پوچھا: تو نے کیا پایا ہے؟ ابو لہب بولا کہ تمہارے بعد میں نے کوئی راحت نہیں پائی، ماسوائے اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس (انگوٹھے اور انگشت شہادت کے درمیان گڑھے) سے پلایا جاتا ہوں۔
(صحيح البخاري معلقا: 764/2، تحت الحديث: 5101، نصب الراية للزيلعي: 168/3، مصنف عبدالرزاق: 62/9، ح: 16350، اس کی سند عبدالرزاق صنعانی کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے)
① یہ عروہ بن زبیر کا مرسل قول ہے، لہذا ضعیف و ناقابل استدلال ہے۔ حیرانی ہے کہ جو لوگ عقائد میں خبر واحد کو حجت نہیں مانتے، وہ تابعی کے اس ”ضعیف“ قول سے استدلال لے رہے ہیں!
② ایک کافر کے بعض اہل خانہ کے خواب کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
③ یہ خواب نص قرآنی کے خلاف ہے۔
✿ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ﴾
(اللہب: 1-2)
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور وہ خود بھی ہلاک ہو گیا۔ اسے اس کے مال اور اعمال نے کچھ فائدہ نہ دیا۔
④ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا﴾
(الفرقان: 23)
ہم ان کے اعمال کا جائزہ لیں گے اور انہیں اڑتا ہوا غبار بنا دیں گے۔
⑤ یہ ثابت نہیں کہ اس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس وجہ سے آزاد کیا تھا کہ اس نے ابو لہب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشخبری سنائی تھی۔ لہذا نعیمی کا یہ کہنا درست نہیں:
”بات یہ تھی کہ ابو لہب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بھائی تھا۔ اس کی لونڈی ثویبہ نے آ کر اس کو خبر دی کہ آج تیرے بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر فرزند (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پیدا ہوئے۔ اس نے خوشی میں اس لونڈی کو انگلی کے اشارے سے کہا کہ جا تو آزاد ہے۔“
(جاء الحق: 235/1)

شبہ نمبر 5:

سیدنا طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
عن عمر بن الخطاب، أن رجلا من اليهود قال له: يا أمير المؤمنين، آية فى كتابكم تقرءونها، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتخذنا ذلك اليوم عيدا، قال: أى آية؟ قال: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلَامَ دِينًا﴾ قال عمر: قد عرفنا ذلك اليوم، والمكان الذى نزلت فيه على النبى صلى الله عليه وسلم، وهو قائم بعرفة يوم جمعة
ایک یہودی نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: امیر المومنین! مسلمانوں کی کتاب میں ایک ایسی عظیم الشان آیت ہے۔ آپ اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے دین میں نازل ہوتی، تو ہم اسے عید کا دن قرار دیتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون سی آیت؟ کہا:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلَامَ دِينًا﴾
(المائدة: 3)
آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے، تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: میں اس دن اور اس جگہ سے واقف ہوں، جہاں یہ آیت نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن عرفہ میں کھڑے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی۔
(صحيح البخاري: 45، صحيح مسلم: 3017)
یہ آیت کریمہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے پڑھی، تو ان کے پاس ایک یہودی بیٹھا تھا۔ وہ کہنے لگا: اگر یہ آیت ہمارے دین میں نازل ہوتی، تو ہم اس کے یوم نزول کو یوم عید بناتے۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
إنها نزلت فى يوم عيدين فى يوم جمعة، ويوم عرفة
یہ تو نازل ہی اس دن ہوئی تھی، جس دن دو عیدیں (یوم عرفہ اور یوم جمعہ) اکٹھی تھیں۔
(سنن الترمذي: 3044، وسنده صحيح)
اس واقعہ سے عید میلاد کا استدلال اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اور ائمہ سنت پر حرف گیری ہے۔ یہودی کی مراد صرف یہ تھی کہ ہمیں اس دن خوشی ہوتی اور جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ خوشی تو ہے اور یہ آیت نازل بھی اس دن ہوئی، جس دن دو عیدیں یعنی دو خوشیاں اکٹھی تھیں۔ ویسے عمر رضی اللہ عنہ نے اس دن کو عید تکمیل دین کے نام سے خاص کیوں نہیں کیا؟ وہ ہر جمعہ کو عید تکمیل دین قرار دے دیتے، یوم عرفہ کو عید تکمیل دین کا نام دیتے یا کم از کم جب بھی جمعہ اور یوم عرفہ اکٹھے ہوتے اس دن کو عید تکمیل دین کا نام دے لیا ہوتا۔ کچھ تو ہوتا۔ آخر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ صاف ظاہر ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ایسا کام نہیں کرنا چاہتے تھے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ ان کے ہاں ایسی خوشی کا وجود نہیں تھا، جو تعلیمات محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل نہ ہو۔ اس واقعہ سے عید میلاد کا استدلال سوال گندم جواب چنا کی قبیل سے ہے۔
وہ حیرت کہ جو لوگ بستیوں میں جمعہ کے قائل ہی نہیں، ان کے نزدیک جمعہ کو عید کہہ کر عید میلاد کا استدلال کیوں کر درست ہو سکتا ہے؟ مطلب جمعہ عید تو ہے، مگر صرف شہر والوں کے لیے۔ بستی والوں کے لیے تو وہ ایک عام دن ہے۔ اس دن بھی وہ نماز ظہر ادا کریں گے یا اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ جمعہ سرے سے عید ہی نہیں؟ شہریوں کے لیے بھی جمعہ صرف خانہ پری کا نام ہے، ورنہ انہیں احتیاطی ظہر کا نہ کہتے۔ پھر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم شیعوں سے مستعار لی گئی ہے۔ کبھی سوچئے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ شیعہ فہم دین میں صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین اور ائمہ محدثین سے بڑھ گئے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے