سوال :
کہا جاتا ہے کہ عورت کی آواز پردہ ہے۔ کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب :
عورت مردوں کی نفسانی خواہشات کی تکمیل کا محال ہے۔ شہوانی اسباب کی بناء پر طبعی طور پر مردوں کا میلان عورت کی طرف ہوتا ہے۔ اگر عورت ناز و نخرے سے باتیں کرے گی تو فتنہ میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس لئے اللہ رب العزت نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ جب عورتوں سے کوئی چیز مانگیں تو پس پردہ رہ کر مانگیں۔
«وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ» [33-الأحزاب:53]
”اور جب ان (ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو ! یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی کامل پاکیزگی ہے۔“
اسی طرح عورتوں کو بھی مردوں سے بات کرتے وقت نرم لہجہ اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ تاکہ دلی روگ میں مبتلا لوگ غلط طمع نہ کرنے لگیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ» [33-الأحزاب:32]
”اے نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری کرو تو نرم لہجے میں بات نہ کرو کہ جس سے ایسے شخص کو خیال (فاسد) پیدا ہونے لگتا ہے جس کے دل میں روگ (بیماری) ہے۔“
جب مضبوط ترین ایمان کے حامل حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ حکم ہے تو اس زمانے کا کیا حال ہو گا ؟ جبکہ ایمان کمزور پڑ چکا ہو اور دین سے وابستگی بھی کم ہو چکی ہو ؟
لہٰذا آپ غیر مردوں سے کم از کم ملاقات اور گفتگو کریں۔ ضرورت کے تحت ایسا ہو سکتا ہے لیکن اس دوران بھی مذکورہ بالا قرآنی آیت کی رو سے لہجے میں نرمی اور لجاجت نہیں ہونی چاہیئے۔ اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ نرم لہجے سے پاک آواز پردہ نہیں ہے، اس لئے کہ خواتین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی امور کے متعلق سوالات کیا کرتی تھیں۔ اسی طرح وہ اپنی ضروریات کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی گفتگو کرتی تھیں اور ان پر اس بارے میں کوئی بھی اعتراض نہیں کیا گیا۔ وباللہ التوفیق۔
(شیخ ابن باز)