عورت کا اجنبی ڈرائیور کے ساتھ سوار ہونے کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال:

عورت کا اپنی ڈرائیور کے ساتھ اکیلے سوار ہونے کا کیا حکم ہے تاکہ وہ اسے اندرون شہر پہنچا دے؟ نیز جب عورت عورتوں کی ایک جماعت کے ساتھ اکیلی سوار ہو تو (شریعت کا) کیا حکم ہے؟

جواب:

عورت کا غیر محرم ڈرائیور کے ساتھ اس طرح سوار ہونا کہ ان کے ساتھ کوئی (تیسرا محرم ) نہ ہو ، جائز نہیں ہے ، کیونکہ یہ خلوت کے حکم میں ہے ، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم [صحيح البخاري ، رقم الحديث 4935 صحيح مسلم ، رقم الحديث 1341]
”کوئی مردعورت کے ساتھ خلوت نہ کرے مگر ان کے ساتھ کوئی محرم ہو“
نیز آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يخلون رجل بامرأة ، فإن الشيطان ثالثهما [صحيح سنن الترمذي ، رقم الحديث 2165]
”ہرگز کوئی مرد کسی عورت سے خلوت اختیار نہ کرے ، کیونکہ ان دونوں کے ساتھ تیسرا شیطان ہے ۔ “
لیکن اگر ان دونوں کے ساتھ کوئی دوسرا ایک یا زیادہ مرد ہوں ، یا کوئی دوسری ایک یا زیادہ عورتیں ہوں تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے ، بشرطیکہ شک و شبہ کے اسباب نہ پائے جائیں ، کیونکہ تیسرے ایک یا زیادہ مردوں کی موجودگی سے خلوت زائل ہو جاتی ہے اور یہ رخصت ایسی صورت میں ہے جب مسافت اتنی ہو کہ اس پر سفر کا اطلاق نہ ہو سکے ۔
رہاسفر کا معاملہ تو عورت کے لیے محر م رشتے دار کے علاوہ کسی کے ساتھ سفر کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم [صحيح البخاري ، رقم الحديث 1763 صحيح مسلم ، رقم الحديث 1341]
”عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے ۔“
اس حدیث کی صحت پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہے ۔ اور سفر کے زمینی ، فضائی یاسمندری ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ (تمام سفروں کا ایک ہی حکم ہے ) واللہ ولی التوفیق ۔

(عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: