کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر جلایا؟
شیعہ روافض بڑے زور و شور سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بھی خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر جلا دیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ایک فرزند مبارک کو شہید کر دیا۔ اس سلسلے میں شیعہ روافض اہل سنت کی کتابوں سے کچھ ضعیف روایات کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان روایات کی تحقیق درج ذیل ہے۔
تنبیہ :
اہل سنت کی ضعیف حدیث جس میں اس واقعے کا اثر ملتا ہے ان تمام روایات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صرف دھمکی دینے کا ذکر ہے اور یہ کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھر کو جلایا یا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو تکلیف دی۔ لہذا یہ روایات خود روافض کے ہی خلاف جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کا گھر جلانے کا دعویٰ باطل ثابت ہوتا ہے۔
پہلی روایت
سب سے پہلی روایت تاریخ طبری سے پیش کی جاتی ہے۔ جو کچھ اس طرح ہے۔۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں میرے دل میں دنیا کی حسرت نہیں ہے ، مگر تین چیزیں ایسی ہیں جو میں نے کی ہیں مگر کاش نہ کرتا ، اور تین چیزیں ایسی ہیں جو میں نے چھوڑ دی ہیں مگر کاش ان کو کرتا اور تین چیزیں ایسی ہیں کہ کاش میں رسول اللہﷺ سے ان کے متعلق دریافت کرلیتا۔ وہ تین چیزیں جن کو میں چھوڑ دیتا تو اچھا ہوتا یہ ہیں، کہ کاش میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر نہ کھولتا۔
(تاریخ طبری اردو۔ حصہ دوم۔ جلد دوم۔ صفحہ ۲۰۵)
رافضی اس روایت سے گھر جلانا مراد لیتے ہیں حالانکہ اس میں گھر جلانے کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس روایت کی سند سخت ضعیف اور منکر ہے کیونکہ اس کی سند میں علوان بن داؤد جسے علوان بن صالح کہا جاتا ہے منکر الحدیث ہے۔
(دیکھیے لسان المیزان از حافظ ابن حجر عسقلانی۔ جلد ۵۔ صفحہ ۴۷۲) (ضعیف تاریخ طبری تحقیق محمد بن طاہر البرز نجی۔ جلد ۸۔ صفحہ ۱۵۲،۱۵۳،۱۵۴)
لہذا یہ روایت حجت نہیں۔
دوسری روایت
رافضی اسی طرح تاریخ طبری کی ایک اور ضعیف روایت کو سیدنا عمر بن خطاب پر طعن کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ روایت یہ ہے۔۔ زیاد بن کلیب سے مروی ہے کہ وہاں سے عمر بن خطاب علی رضی اللہ عنہ کے مکان پر آئے، طلحہ، زبیر ، اور بعض دوسرے مہاجرین رضی اللہ عنہم بھی وہاں موجود تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا چل کر بیعت کرو، ورنہ میں اس گھر میں آگ لگا کر تم سب کو جلا دوں گا۔ زبیر رضی اللہ عنہ تلوار نکال کر عمر رضی اللہ عنہ پر بڑھے مگر فرش میں پاؤں الجھ جانے کی وجہ سے گرے اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی، تب اور لوگوں نے فورا زبیر رضی اللہ عنہ پر یورش کر کے انہیں قابو کر لیا۔
(تاریخ طبری اردو۔ حصہ اول۔ جلد دوم۔ صفحہ ۴۰۶)
اس روایت کی سند اس طرح ہے۔۔ ابن حميد قال حدثنا جرير عن مغيرة عن زياد بن كلیب۔
(ضعیف تاریخ طبری تحقیق محمد بن طاہر البرز نجی۔ جلد ۸۔ صفحہ ۱۵)
جریر بن حازم ثقہ ہیں لیکن ان کو آخری عمر میں اختلاط ہو گیا تھا
( تقریب التھذیب ۔ روایت نمبر ۹۲۳۔ صفحہ ۱۹۶)
مغیرہ بن مقسم تدلیس کرتے ہیں اور یہ روایت عن سے۔ یہ اہل سنت کا مشہور اصول حدیث ہے کہ مدلس کی روایت غیر صحیحین (بخاری و مسلم کے علاوہ) اگر عن سے ہو تو وہ روایت ضعیف ہوتی ہے۔ یہ روایت بھی تاریخ طبری میں عنعنہ سے ہے۔
(تقریب التھذیب ۔ روایت نمبر ۶۸۹۹ ۔ صفحہ ۹۶۶) (تذهیب تھذیب الکمال۔ جلد ۹۔ صفحہ ۸۰)
زیاد بن کلیب ثقہ ہیں لیکن وہ تابعی ہیں اور صحابی نہیں ہے۔ زیاد بن کلیب یہ واقعہ براہ راست بیان کر رہے ہیں حالانکہ وہ اس واقعہ میں موجود نہ تھے بلکہ وہ تو نبیﷺ کی وفات کے کافی دیر بعد اسلام لائے۔ دوسرا ان کی وفات ۱۱۰ یا ۱۱۹ ہجری میں ہوئی جبکہ نبی ﷺ 11ہجری میں وفات پا گئے۔ یہ واقعہ آپﷺ کی وفات کے فورا بعد کا ہے۔ لہذا یہ ثابت ہی نہیں ہوتا کہ زیاد بن کلیب اس واقعہ میں موجود تھے۔ یہ روایت اس طرح منقطع ہو جاتی ہے۔
(تذهیب تھذیب الکمال۔ جلد ۳ صفحه ۳۲۵-۳۲۶)
لہذا یہ روایت بھی سخت ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔
تیسری روایت
تیسری اور آخری روایت مصنف ابن ابی شیبہ سے پیش کی جاتی ہے لیکن اس میں بھی گھر جلانے کا ذکر نہیں۔ روایت اس طرح ہے۔۔
بعد رسول الله ﷺ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو علی اور زبیر فاطمہ رضی اللہ عنہم کے گھر میں مشورہ اور گفتگو کیا کرتے تھے جب عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات کی خبر ہوئی تو عمر فاطمہ کے گھر کے پاس آئے اور کہا اے بنت رسولﷺ محبوب ترین فرد میرے نزدیک آپ کے والد ہیں اور اسکے بعد آپ ہیں لیکن اللہ کی قسم یہ محبت میرے مانع نہیں ہے اگر یہ افراد تمہارے گھر میں جمع ہوئے تو میں گھر کو جلا دونگا جب عمر رضی اللہ عنہ چلے گئے اور یہ افراد جناب سیدہ کے پاس آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا معلوم ہے عمر نے کیا کہا ہے ؟ عمر نے کہا ہے اللہ کی قسم اگر دوبارہ یہ لوگ جمع ہوئے تو تم لوگوں پر گھر کو جلا دونگا ۔ خدا کی قسم عمر اپنے کہے پر عمل کر کے رہے گا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۔ کتاب المغازی جلد ۱۳۔ صفحہ ۴۶۸-۴۶۹)
اس روایت کی سند اس طرح ہے: حدثا محمد بن بشیر نا عبید اللہ بن عمر حدثا زید بن اسلم عن ابيه اسلم
مگر افسوس کہ یہ روایت بھی روافض کے لئے قابل استدلال نہیں کیونکہ اول اس میں بھی صرف دھمکی کا ذکر ہے جبکہ گھر جلانے کا ذکر نہیں۔
نیز اسلم (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام) تابعی ہیں اور صحابی نہیں ہیں۔ لہذا اس روایت میں بھی تابعی براہ راست ایک واقعہ بیان کر رہے ہیں۔ ان کا اس واقعہ میں موجود ہونا ثابت نہیں کیونکہ رسول اللہ اسلم کی وفات 11 ہجری میں ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات آپ علیہ السلام کی وفات کے چھ ماہ بعد رمضان یا شوال میں ہوئی۔ جس واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف الزام لگایا جاتا ہے وہ واقعہ آپﷺ کی وفات کے فوری بعد کا ہے۔ اسلم القرشی تو ان تینوں واقعات میں موجود نہ تھے۔ مطلب آپﷺ کی وفات کے وقت، جب یہ دھمکی والا واقعہ ہوا اور تیسرا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت۔ بلکہ وہ تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مدینہ آئے۔ امام بخاری ان کے متعلق لکھتے ہیں۔
اسلم، عمر رضی اللہ عنہ کے غلام، یمن کے قیدیوں میں سے تھے۔ ابن اسحاق سے نقل ہوا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسلم کو 11 ہجری میں جب امیر حج ابو بکر کی طرف سے تھے خریدا۔
(تاریخ الکبیر از امام بخاری جلد ۲ روایت نمبر ۱۵۶۵۔ صفحہ ۲۳،۲۴)۔
مطلب اسلم 11 ہجری میں حج کے بعد مدینہ آئے یعنی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بھی دو ماہ بعد۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلم نے یہ واقعہ کس سے سنا؟؟؟ جبکہ وہ تو بہت بعد مدینہ آئے۔ تو ثابت ہوا کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت بھی مرسل ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے۔
دوسری بات اس واقعہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں ” اے بنت رسولﷺ محبوب ترین فرد میرے نزدیک آپ کے والد ہیں اور انکے بعد آپ ہیں” جس سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اہل بیت سے محبت ثابت ہو جاتی ہے۔ دوسرا یہ ڈرانا دھمکانا سیدہ فاطمہ کے لئے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لئے تھا جو گھر میں جمع ہوئے تھے۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شیعہ معتبر کتابوں میں بھی یہ واقعہ موجود نہیں۔ یہ واقعہ طبرسی نے احتجاج میں نقل کیا ہے لیکن اس میں بھی صرف دھمکی کا ذکر ہے جلانے کا ذکر نہیں۔
اہم حوالوں کے سکرین شاٹس درج زیل ہیں: