عمامہ باندھنا بلاشبہ آنحضرت ﷺ سے عملاً ثابت ہے، لیکن قولاً آپ ﷺ سے ایک بھی صحیح حدیث ثابت نہیں۔
اس موضوع پر بہت سی روایات کتبِ حدیث میں ملتی ہیں، مگر سب کی سب غیر ثابت یا موضوع ہیں۔ آج کے اس مضمون میں ہم انہی روایات کو ذکر کریں گے اور ان کے بارے میں محدثین و محققین کی آراء بیان کریں گے تاکہ عوام کو صحیح رہنمائی مل سکے۔
پہلی روایت
«عليكم بالعمائم فإنها سيما الملائكة وأرخوا لها خلف ظهوركم»
(طبرانی عن ابن عمر، بیہقی عن عبادة)
اردو ترجمہ:
"تم پر پگڑیاں باندھنا لازم ہے، کیونکہ یہ فرشتوں کی علامت ہے اور ان کے شملے پیٹھ پیچھے چھوڑا کرو۔”
کلام محدثین:
-
امام سیوطیؒ نے اس روایت کے ساتھ "ض” لکھا ہے، یعنی یہ ضعیف ہے۔【الجامع الصغير 2/64】
-
علامہ مناویؒ لکھتے ہیں: اس کی سند میں عیسیٰ بن یونس ہے، جسے امام دارقطنیؒ نے ضعیف کہا ہے۔【فیض القدیر 4/345】
-
بیہقی اور ابن عدی نے جناب عبادہؓ سے روایت کیا ہے لیکن ان دونوں سندوں میں الحوص بن حکیم ہے، جسے علامہ زین الدین عراقیؒ نے شرح ترمذی میں ضعیف لکھا ہے۔【تحفة الاحوذی 3/50】
-
علامہ ابن طاہر پٹنیؒ نے اس روایت کو اپنی کتاب موضوعات میں ذکر کیا ہے۔【الفوائد المجموعہ للشوكاني ص187】
-
نیز اللآلي المصنوعة میں ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں۔
📌 نتیجہ:
یہ روایت ہر اعتبار سے ضعیف ہے، لہٰذا اس سے عمامہ کی فضیلت شرعی طور پر ثابت نہیں ہوتی۔
دوسری روایت
«صلاة تطوع أو فريضة بعمامة تعدل خمسا وعشرين صلاة بلا عمامة، وجمعة بعمامة تعدل سبعين جمعة بلا عمامة»
(عن ابن عمر)
اردو ترجمہ:
"عمامہ کے ساتھ ایک نفلی یا فرضی نماز، بغیر عمامہ کے پچیس نمازوں کے برابر ہے۔ اور عمامہ کے ساتھ ایک جمعہ، بغیر عمامہ کے ستر جمعوں کے برابر ہے۔”
کلام محدثین:
-
امام سیوطیؒ نے اگرچہ اسے صحیح کہا ہے۔【الجامع الصغير 2/48】
-
لیکن محققین مثلاً حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اور امام شوکانیؒ کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے۔【الفوائد المجموعہ للشوكاني ص188】
📌 نتیجہ:
یہ روایت موضوع ہونے کی وجہ سے قابلِ استدلال نہیں۔
تیسری روایت
«إن الله تعالى وملائكته يصلون على أصحاب العمائم يوم الجمعة»
(طبرانی عن أبي الدرداء)
اردو ترجمہ:
"جمعہ کے دن پگڑی باندھنے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت کرتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔”
کلام محدثین:
-
اس کی سند میں ایوب بن مدرک ہے، جو کذاب ہے۔【میزان الاعتدال و لسان الميزان】
-
زین الدین عراقیؒ اور امام ہیثمیؒ کے مطابق، امام یحییٰ بن معینؒ نے بھی اسے کذاب کہا۔
-
امام نسائیؒ نے اسے متروک کہا اور اس کی منکر روایات میں سے یہی روایت نقل کی۔
-
ابن الجوزیؒ نے اسے اپنی کتاب موضوعات میں ذکر کیا اور فرمایا کہ اس کی کوئی اصل نہیں۔
-
امام دارقطنیؒ نے کہا: "ایوب بن مدرک متروک ہے۔”
📌 نتیجہ:
یہ روایت موضوع اور ناقابلِ اعتبار ہے۔
چوتھی روایت
«الصلاة في العمامة عشرة آلاف حسنة»
(مسند فردوس)
اردو ترجمہ:
"عمامہ کے ساتھ نماز پڑھنے پر دس ہزار نیکیاں ملتی ہیں۔”
کلام محدثین:
-
کسی چھوٹے عمل پر اتنا بڑا ثواب ذکر ہونا ہی اس کے موضوع ہونے کی نشانی ہے۔
-
امام شوکانیؒ نے اس کے ایک راوی کو متہم کہا ہے۔【الفوائد المجموعہ ص188】
-
علامہ سخاویؒ نے اپنی کتاب المقاصد الحسنة میں اس کو موضوع کہا ہے۔
📌 نتیجہ:
یہ روایت بھی موضوع اور من گھڑت ہے۔
پانچویں روایت
«اعتموا تزدادوا حلما»
(عن ابن عباس)
اردو ترجمہ:
"عمامہ باندھتے رہو، اس سے تمہارے اندر حلم (بردباری) کی صفت بڑھے گی۔”
کلام محدثین:
-
اس کی سند میں عبید اللہ بن ابی حمید ہے، جسے امام احمدؒ نے متروک کہا ہے۔【المستدرک 4/193】
-
امام جرجانی نے اپنی کتاب الخلاصہ میں اس کو موضوع قرار دیا۔【الفوائد المجموعه ص188】
📌 نتیجہ:
یہ روایت بھی ضعیف اور موضوع ہے، اس سے کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔
چھٹی روایت
«عن علي قال عممني رسول الله ﷺ يوم غدير خم بعمامة وسدلها خلفي، ثم قال: إن الله أمدني يوم بدر وحنين بملائكة يعتمون بهذه العمامة، فقال: إن العمامة حاجزة بين الكفر والإيمان»
(مسند أبي داود الطيالسي)
اردو ترجمہ:
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غدیر خم کے دن مجھے عمامہ پہنایا اور اس کا شملہ پیچھے لٹکایا، پھر فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے بدر اور حنین کے دن جس فرشتوں کے ذریعے میری مدد فرمائی، وہ بھی ایسے ہی عمامے باندھے ہوئے تھے۔”
مزید فرمایا: "عمامہ کفر اور ایمان کے درمیان رکاوٹ ہے۔”
کلام محدثین:
-
اس روایت کا مفہوم ہی اس کے موضوع ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ صحیح احادیث میں "نماز” کو ایمان و کفر کے درمیان فرق قرار دیا گیا ہے، عمامہ کو نہیں۔
-
اس کی سند میں الاشعث بن سعد السمان ہے، جو ضعیف ہے۔【المطالب العالية 2/258، الاصابہ 2/282】
📌 نتیجہ:
یہ روایت ضعیف ہے اور اس کا مفہوم بھی موضوعیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ساتویں روایت
«العمائم تيجان العرب، والاحتباء حيطانها، وجلوس المؤمن في المسجد رباطه»
(القضاعي والدیلمي في مسند الفردوس، عن علي)
اردو ترجمہ:
"پگڑیاں عربوں کے تاج ہیں، ٹیک لگا کر بیٹھنا ان کے آدابِ مجلس ہیں، اور مومن کا مسجد میں بیٹھے رہنا اس کے لیے جہاد (رباط) کے برابر ہے۔”
کلام محدثین:
-
امام سخاویؒ نے المقاصد الحسنة میں اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔【الفوائد المجموعہ ص187】
📌 نتیجہ:
یہ روایت بھی ضعیف ہے اور حجت نہیں۔
آٹھویں روایت
«صلاة على كور العمامة يعدل ثوابها عند الله غزوة في سبيل الله»
اردو ترجمہ:
"عمامہ کے بَل پر پڑھی جانے والی نماز کا ثواب اللہ کے نزدیک جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔”
کلام محدثین:
-
اس روایت کا مفہوم ہی اس کے موضوع ہونے کی نشانی ہے، کیونکہ نماز کو صرف عمامہ کی وجہ سے جہاد کے برابر قرار دینا کذب صریح ہے۔
-
امام شوکانیؒ نے اس کو موضوع کہا ہے۔【الفوائد المجموعه ص188】
📌 نتیجہ:
یہ روایت موضوع ہے، اس سے عمامہ کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔
✿ ابن الديبع الشيبانيؒ کی تحقیق
علامہ ابن الديبع شیبانیؒ (المتوفی 944ھ) فرماتے ہیں:
«ورد معناہ بألفاظ مختلفة، و كله ضعيف»
(تمییز الطیب من الخبیث، ص107)
اردو ترجمہ:
"عمامہ کی فضیلت میں مختلف الفاظ کے ساتھ کئی روایات وارد ہوئی ہیں، لیکن سب کی سب ضعیف ہیں۔”
✿ علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوریؒ کی تحقیق
مشہور محدث علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوریؒ (المتوفی 1353ھ) اپنی کتاب تحفة الاحوذی میں فرماتے ہیں:
«لم أجد في فضل العمامة حديثا مرفوعا صحيحا، وكل ما جاء فيه فهي إما ضعيفة أو موضوعة»
(تحفة الاحوذی 3/50)
اردو ترجمہ:
"مجھے عمامہ کی فضیلت میں کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملی۔ جو کچھ اس بارے میں آیا ہے، وہ سب یا تو ضعیف ہے یا موضوع۔”
◈ خلاصہ
-
عمامہ کے متعلق تمام مشہور فضائل والی احادیث ضعیف یا موضوع ہیں۔
-
عمامہ باندھنا بلاشبہ رسول اللہ ﷺ سے عملی سنت کے طور پر ثابت ہے، مگر اس کے فضائل کے بارے میں مروی روایات قابلِ استدلال نہیں۔
-
اطاعتِ نبی ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز صحیح سند سے آپ ﷺ سے ثابت ہے، اس پر عمل کیا جائے۔ ضعیف یا موضوع روایت کو سنت یا فضیلت کے طور پر پیش کرنا عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔