علمِ میراث: قرآن و سنت کی روشنی میں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

علمِ میراث: قرآن و سنت کی روشنی میں
لغوی وضاحت: مواریث میراث کی جمع ہے اس سے مراد میت کا ترکہ ہے ۔ لفظَ إرث ، ورث ، وراثة اور تراث بھی اسی معنی میں مستعمل ہیں ۔ باب وَرِث يَرِثُ (حسب ) وارث ہونا ، باب وَرّث اور اَورث (تفعيل ، إفعال ) وارث بنانا ، باب تَوَارَث يَتَوَارَث (تفاعل ) ایک دوسرے کا وارث ہونا ۔
مورُوث ترکہ چھوڑنے والے کو کہتے ہیں اور وَارِث وہ ہوتا ہے جو ترکے کا حصہ دار ٹھہرتا ہے اس کی جمع وَرثَةٌ اور ورّاث آتی ہے ۔
[المنجد: ص / 959 ، القاموس المحيط: ص / 163 ، مصباح اللغات: ص / 939]
شرعی تعریف: ایسے اموال یا حقوق ، جنہیں میت کے چھوڑ جانے کی وجہ سے ، شرعی وارث ان کا مستحق قرار پائے ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 7697/7]
میراث کا نام فرائض بھی رکھا گیا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے:
تعلموا الفرائض
”علم فرائض سیکھو ۔“
میراث کے علم کو علم میراث اور فرائض کے علم کوعلم فرائض کہا جاتا ہے اور فی الحقیقت دونوں سے مراد ایک ہی علم ہے ۔
مشروعیت:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ….. [النساء: 11 – 12 – 176]
”اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔“
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أعلمها الناس بالفرائض زيد بن ثابت
”لوگوں میں سے علم فرائض میں سب سے زیادہ ماہر زید بن ثابت ہیں ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 125 ، الصحيحة: 1224 ، احمد: 184/3 ، ترمذي: 3790 ، ابن ماجة: 155 ، نسائي فى فضائل الصحابة: 182 ، ابن حبان: 7131 ، مشكل الآثار: 351/1 ، أبو نعيم فى الحلية: 122/3 ، حاكم: 422/3 ، بيهقي: 210/6]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تعلموا الفرائض وعلموها فإنها نصف العلم
”علم فرائض سیکھو اور سکھاؤ کیونکہ یہ نصف علم ہے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 594 ، إرواء الغليل: 1664 ، 1665 ، ابن ماجة: 2719 ، كتاب الفرائض: باب الحث على تعليم الفرائض ، دار قطني: 67/4 ، حاكم: 332/4 ، بيهقى: 208/6]
➍ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم تین ہیں ، اس کے علاوہ جو بھی ہے زائد ہے:“
آية محكمة أو سنة قائمة أو فريضة عادلة
”محكم آیت یا قائم سنت یا عدل والا فریضۃ ۔ “
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 7 ، ضعيف ابو داود: 496 ، ابو داود: 2885 ، كتاب الفرائض: باب ماجآء فى تعليم الفرائض ، ابن ماجة: 54 ، دار قطنى: 67/4 ، حاكم: 332/4 ، بيهقي: 208/6]
➎ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تعلموا القرآن وعلموه الناس وتعلموا الفرائض وعلموها ….
”قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ اور علم فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ۔“
کیونکہ میں تو ایسا آدمی ہوں جسے قبض کر لیا جائے گا اور علم اٹھا لیا جائے گا اور قریب ہے کہ دو آدمی فریضہ یا کسی مسئلہ میں اختلاف کریں گے لیکن کسی کو ایسا نہ پائیں گے جو انہیں (صحیح مسئلہ کی ) خبر دے سکے ۔“
[دارمي: 37/1 ، حاكم: 333/4 ، دار قطني: 81/4 ، مجمع الزوائد: 226/4]
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ۞ وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ ‎ [النساء: 11 – 12]
”اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔ اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا ۔ اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے ، اگر اس (میت ) کی اولاد ہو ، اور اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہیں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے ، ہاں اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے ۔ یہ حصے اس وصیت (کی تکمیل ) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد ، تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے ، یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں بے شک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے ۔
تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھوں آدھ تمہارا ہے اور اگر ان کی اولا د ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارے لیے چوتھائی حصہ ہے ۔ اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کے بعد ۔ اور جو (ترکہ ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لیے چوتھائی ہے ، اگر تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری اولاد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا ، اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد ۔ اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو ، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں ، اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو یہ مقرر کیا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالی دانا ہے بردبار ۔“
يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ‎
[النساء: 176]
”آپ سے فتوی پوچھتے ہیں ، آپ کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ (خود ) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے ۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس کے اولاد نہ ہو ۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا ۔ اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے دو عورتوں کے مثل حصہ ہے ، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے ۔“
وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ
[الأنفال: 75]
”اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں ۔“
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
[النساء: 7]
”ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی (جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں ) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں ) حصہ مقرر کیا ہوا ہے ۔“

گذشته آيات سے ماخوذ مسائل

① بیٹوں اور بیٹیوں کے متعلق احکامات:
➊ جب میت کے وارث صرف ایک مذکر اور ایک مؤنث ہو تو ان میں مال کی تقسیم اس طرح ہو گی کہ مذکر کے لیے دو حصے اور مونث کے لیے ایک حصہ ۔
➋ جب ورثاء مذکر و مؤنث کی ایک جماعت ہو تو مذکر مؤنث سے دگنے حصے کے وارث ہوں گے ۔
➌ اگر اولاد کے ساتھ اصحاب الفروض مثلا خاوند یا بیوی یا والدین موجود ہوں تو پہلے اصحاب الفروض کو حصہ دے کر باقی اولاد کے درمیان للذكر مثل حظ الأنثيين کے اصول کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا ۔
➍ جب میت کا وارث صرف ایک بیٹا ہو تو وہ سارے مال کا مالک ہو گا ۔
➎ اولاد کی عدم موجودگی میں پوتے ان کا حصہ وصول کریں گے ۔

② والدین کے متعلق احکامات:
➊ جب میت کی اولا د ہو تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا ۔
➋ جب اولاد نہ ہو تو ماں کو ایک ثلث اور باپ کو باقی دو ثلث مل جائے گا ۔
➌ اگر والدین کے ساتھ میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ اور باقی تمام باپ کو مل جائے گا ۔ بھائی اور بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ باپ ان کے لیے حاجب (رکاوٹ ) ہے ۔

③ قرض کو وصیت پر مقدم کیا جائے گا ۔

④ خاوند کے متعلق احکامات:
➊ بیوی کی وفات پر اولاد نہ ہو تو خاوند کو نصف حصہ ملے گا ۔
➋ اگر اولاد ہو تو خاوند کو چوتھا حصہ ملے گا ۔

⑤ ایک بیوی یا زیادہ بیویوں کے متعلق احکامات:
➊ خاوند کی وفات پر اگر اولاد نہ ہو تو ایک یا زیادہ بیویوں کو چوتھا حصہ ملے گا ۔
➋ اگر اولاد ہو تو آٹھواں حصہ ملے گا ۔

⑥ ماں کی طرف سے بہن بھائیوں کے احکامات:
➊ جب فوت ہونے والا ماں کی طرف سے صرف ایک بھائی یا ماں کی طرف سے صرف ایک بہن چھوڑے تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا ۔
➋ اگر ماں کی طرف سے زیادہ بھائی یا بہنیں ہوں تو سب ایک تہائی میں برابر کے حصہ دار ہوں گے ۔

⑦ سگے بہن بھائیوں یا باپ کی طرف سے بہن بھائیوں کے احکامات:
➊ اگر فوت ہونے والا ایک سگی یا باپ کی طرف سے بہن چھوڑے اور میت کے لیے اولاد اور والدین نہ ہوں تو اس کو نصف حصہ ملے گا ۔
➋ جب میت دو سگی یا باپ کی طرف سے بہنیں چھوڑے اور میت کی اولا د اور والدین نہ ہوں تو یہ ترکے کے دو ثلث کی حقدار ہوں گی ۔
➌ جب میت بھائی اور بہنیں (یعنی سگے یا باپ کی طرف سے ) چھوڑے تو ان کے درمیان ترکے کی تقسیم للذكر مثل حظ الأنثيين کے اصول پر ہو گی ۔
➍ جب سگی بہن فوت ہو جائے اور اولاد اور والدین موجود نہ ہوں تو اس کا سگا بھائی سارے مال کا وارث ہو گا اور اگر زیادہ بھائی ہوں تو آپس میں برابری کے ساتھ اسے تقسیم کر لیں گے ۔
➎ اسی طرح باپ کی طرف سے بہن بھائیوں کا حکم ہے جب سگے بہن بھائی موجود نہ ہوں ۔

میراث کے متعلق چند ضروری اشیاء

① وراثت کے تین ارکان ہیں:
➊ مورّث (وارث بنانے والا یعنی میت )
➋ وارث (وارث بننے والا )
➌ موروث (ترکہ ) ۔
[الفرائض: ص / 17 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 7703/10]

② وراثت کے تین اسباب ہیں:
➊ قرابت (رشته داری وغیره )
➋ نکاح
➌ ولاء
[الفرائض: ص / 18 ، المغنى: 304/6 ، القوانين الفقهية: ص / 384 ، بداية المجتهد: 355/2 ، معنى المحتاج: 4/3 ، الشرح الصغير: 619/4 ، الدر المختار: 538/5]

③ وراثت کے لیے تین شرائط ہیں:
➊ مورّث کی موت کا ثابت ہونا ۔
➋ مورّث کی موت کے وقت وارث کی حیات کا ثابت ہونا ۔
➌ وراثت کے متعلق علم ہونا مثلا وراثت کا سبب ، وارث کی جہت ، اس کا درجہ اور قوت وغیرہ ۔
[الفرائض: ص / 22 ، كشاف القناع: 448/4]

④ وراثت کے تین موانع (رکاوٹیں ) ہیں:
➊ غلامی
➋ قتل
➌ دین مختلف ہونا
[الفرائض: ص / 24 ، مغنى المحتاج: 24/3 ، كشاف القناع: 448/4 ، المغنى: 266/6]

⑤ علم میراث میں بہن بھائیوں کی تین اقسام ہیں:
➊ عینی: جو سگے ہوں ۔
➋ علاتی: جو باپ کی طرف سے ہوں ۔
➌ اخیافی: جو ماں کی طرف سے ہوں ۔
[نيل الأوطار: 122/4 ، الروضة الندية: 695/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے