الحادی سائنس کا اثر اور معجزات کی تشریحات
اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی الحادی سائنس، خاص طور پر فزکس، نے دنیا بھر کے اذہان کو اس قدر متاثر کیا کہ بہت سے ذہین مسلمان بھی اس کے سامنے سرنگوں دکھائی دیے۔ اس سائنسی دباؤ کے تحت، سر سید احمد خان جیسے مفکرین نے قرآن مجید میں مذکور معجزات کی ایسی مادی تشریحات پیش کیں جو ان معجزات کے اصل روحانی و مافوق الفطرت پہلو کو معدوم کر گئیں۔ اس فکری رویے کی بنیادی وجہ سائنس کا یہ دعویٰ تھا کہ "علت و معلول” (سبب اور مسبب) کے درمیان لازمی تعلق ہے، جس کی ضد ناقابل تصور ہے۔
یہ دعویٰ درحقیقت کوئی نیا نہیں تھا۔ معتزلہ کے ہاں بھی یہی نظریہ پایا جاتا تھا اور اسی بنیاد پر وہ معجزات کی حقیقت پر سوالات اٹھاتے تھے۔ تاہم، امام غزالی نے اپنی معروف تصنیف "تہافت الفلاسفہ” میں اس دلیل کی بے ثباتی کو انتہائی جامع اور قطعی انداز میں واضح کیا، جو آج بھی فلسفے کی دنیا میں ایک شاہکار مانی جاتی ہے۔ مغربی دنیا میں، ڈیوڈ ہیوم نے امام غزالی کے تقریباً آٹھ سو سال بعد اسی بنیاد پر علت و معلول کے قانون پر تنقید پیش کی تھی۔
امام غزالی کا نظریہ
امام غزالی نے فلسفیوں کے ایک مسئلے کے رد میں بتایا کہ جسے ہم "علت و معلول” کہتے ہیں، اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ ایک واقعہ دوسرے کے بعد رونما ہوتا ہے۔ یہ تصور کہ علت لازمی طور پر معلول کو پیدا کرتی ہے، محض ایک بے بنیاد خیال ہے۔ امام کے مطابق، علت اور معلول کے درمیان کوئی لازمی ربط موجود نہیں ہے جس کی ضد ناقابل تصور ہو۔
امام غزالی کے نزدیک، علل و معلول محض مخصوص ترتیب سے واقعات کا ظہور ہے، جو انسانی تجربے یا "عادت” پر مبنی ہے۔ یعنی، ہمارے مشاہدے میں آنے والے واقعات کی ترتیب میں جو ہم دیکھتے ہیں وہ محض واقعات کی ترتیب ہے، نہ کہ علت اور معلول کا کوئی لازمی تعلق۔ یہ تعلق ایک "ذہنی خیال” ہے جسے ہم واقعات کے درمیان ربط پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تقدیر الہی کا کردار
امام غزالی نے مزید وضاحت کی کہ تمام افعال اور واقعات تقدیر الہی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اگر ایک واقعہ دوسرے کے بعد پیش آتا ہے، تو یہ اس لیے ہوتا ہے کہ خدا نے انہیں اس ترتیب سے پیدا کیا ہے، نہ کہ اس لیے کہ ان کا آپس میں کوئی لازمی ربط ہے۔ خدا کی مشیت یوں بھی ہو سکتی ہے کہ بغیر کھائے پیٹ بھر جائے یا گردن کٹنے کے بعد بھی زندگی قائم رہے۔
مثال کے طور پر، فلسفی آگ اور روئی کے جلنے کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ جب آگ روئی کے قریب آتی ہے تو وہ جل اٹھتی ہے، اس لیے آگ جلانے والی ہے۔ لیکن امام غزالی فرماتے ہیں کہ فلسفیوں کے پاس اس بات کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں کہ آگ بذات خود روئی کو جلاتی ہے۔ یہ محض مشاہدے پر مبنی ایک ظن ہے۔
معجزات اور قدرت الہی
امام غزالی کے نزدیک معجزات خدا کی قدرت کا اظہار ہیں اور ان کا انکار کرنا دراصل قدرت الہی کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ واقعات کی ترتیب اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک کہ خدا کا حکم ہوتا ہے، اور جب خدا چاہے تو اس ترتیب کو بدل سکتا ہے۔ یہی تصور معجزات کو ممکن بناتا ہے۔
جدید مسلم متجددین کی غلطی
بدقسمتی سے، جدید مسلم متجددین نے نہ اپنے علم الکلام کا گہرا مطالعہ کیا اور نہ ہی مغرب کے فلسفے کو صحیح طرح سمجھا۔ انہوں نے قرآن مجید کی تاویلات باطلہ کیں اور معجزات کی روحانی اور مافوق الفطرت حقیقت کو مادی تشریحات کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی۔ ان کی یہ کوشش، دراصل، قدرت الہی کو محدود کرنے کی ایک صورت تھی، جس سے وہ خود بھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔
خلاصہ
➊ سائنس کے زیر اثر مسلمانوں میں معجزات کی مادی تشریحات کا رجحان پیدا ہوا، جس نے ان کے اصل پہلو کو چھپا دیا۔
➋ امام غزالی نے علت و معلول کے فلسفے پر تنقید کرتے ہوئے اس کے بے بنیاد ہونے کو واضح کیا اور معجزات کی حقیقت کو خدا کی مشیت سے جوڑا۔
➌ معجزات کا انکار، دراصل، قدرت الہی کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔
➍ جدید متجددین نے اپنے علم الکلام اور فلسفہ کا گہرا مطالعہ کیے بغیر، مغربی فلسفے سے متاثر ہو کر قرآن کی تاویلات میں غلطیاں کیں۔