عقیدۂ علو بالدلائل: تابعین، ائمہ اور محدثین کے اقوال کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب اللہ کہاں ہے؟ سے ماخوذ ہے۔

تابعین عظام رحمتہ اللہ کا عقیدہ

اصحاب رسول کے حلقہ درس سے نکلنے والے عظیم شاگردوں (تابعین) کا عقیدہ بھی وہی ہے، جو صحابہ کا ہے۔ بصارت کیجیے!

کعب احبار رحمتہ اللہ (م: آخر خلافتہ عثمان رضی الله عنه) فرماتے ہیں:

إن الله عز وجل لما خلق الخلق؛ استوى على العرش، فسبحه يعني العرش.

’’اللہ عزوجل نے جب مخلوقات کو پیدا کیا، تو عرش پر مستوی ہو گیا۔ عرش نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کی۔‘‘

(تفسیر ابن أبي حاتم: 2217/7 ، وسنده حسن)

امام ضحاک بن مزاحم ہلالی رحمتہ اللہ (بعد 100 ھ) فرمانِ باری تعالی :

ما يكون من نجوى ثلثة إلا هو رابعهم.

(المجادلة : 7)

(کوئی بھی تین آدمی سرگوشی نہیں کرتے، مگر وہاں چو تھا اللہ ہوتا ہے) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

هو الله عز وجل على العرش، وعلمه معهم.

’’اللہ عز وجل عرش کے اوپر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔‘‘

(الشريعة للآجري: 655، تفسير الطبري: 12/28-13 ، مسائل أبي داود: 263 ، الأسماء والصفات للبيهقي 341/2-342، ح: 909، وسنده حسن)

عکرمہ مولی ابن عباس رحمتہ اللہ (104ھ) فرماتے ہیں:

إن الله بدأ خلق السماوات والأرض وما بينهما يوم الأحد، ثم استوى على العرش يوم الجمعة.

’’بلاشبہ اللہ نے آسمانوں، زمین اور ان دونوں کے درمیان موجود چیزوں کی تخلیق اتوار کے دن شروع کی۔ پھر جمعہ کے دن عرش پر مستوی ہو گیا۔‘‘

(تفسير ابن أبي حاتم: 1497/5، وسنده حسن)

شریح بن عبید حمصی رحمتہ اللہ (بعد 111 ھ) کہا کرتے تھے:

ارتفع إليك تغاء التسبيح، وارتفع إليك وقار التقديس، سبحانك ذا الجبروت، بيدك الملك والملكوت والمفاتيح والمقادير.

’’تسبیح کی آواز تیری طرف بلند ہوتی ہے اور تقدیس کا وقار بھی تیری طرف بلند ہوتا ہے۔ اے طاقت والے! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیرے ہی ہاتھ میں ملک اور بادشاہت ہے۔‘‘

(العظمة لأبي الشيخ: 107، وسنده حسن)

حافظ ذہبی رحمتہ اللہ (العلو، ص 93) اور حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ (اجتماع الجيوش الاسلامية ص 260) نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

امام مالک بن دینار بصری رحمتہ اللہ (127ھ) فرمایا کرتے تھے:

اسمعوا إلى قول الصادق من فوق عرشه.

’’عرش کے اوپر سے اُس سچے کی بات سنیں!‘‘

(حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني: 358/2، وسنده حسن)

حافظ ذہبی رحمتہ اللہ (کتاب العلو، ص 97) اور حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ (اجتماع الجيوش الاسلامية، ص 268) نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اس کا راوی سیار بن حاتم عنزی جمہور کے نزدیک ’’صدوق، حسن الحدیث‘‘ ہے۔

امام ابن حبان رحمتہ اللہ نے اسے ’’الثقات‘‘ (298/8) میں ذکر کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ نے اس سے روایت لی ہے، وہ (احمد) ثقہ سے روایت لیتے ہیں۔

امام ابن خزیمہ رحمتہ اللہ (2532) ، امام ترمزی رحمتہ اللہ (3444) اور امام حاکم رحمتہ اللہ نے (122/1) اس کی منفرد روایت کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے، یہ توثیق ضمنی ہے۔

حافظ ہیثمی رحمتہ اللہ نے اسے ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔

(مجمع الزوائد: 150/10)

امام ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی رحمتہ اللہ (131ھ) نے معتزلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

إنما مدار القوم على أن يقولوا: ليس في السماء شيء.

’’ان لوگوں کا نقطہ نظریہ ہے کہ وہ کہہ دیں: آسمانوں کے اوپر کوئی چیز نہیں۔‘‘

(العلو للذهبي، ص 98، وسنده حسن)

حافظ ذہبی رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:

هذا إسناد كالشمس وضوحا، والأسطوانة ثبوتا عن سيد أهل البصرة وعالمهم.

’’یہ سند سورج کی طرح واضح اور ستون کی طرح پختہ ہے، جو کہ اہل بصرہ کے سردار اور ان کے عالم (امام ایوب سختیانی رحمتہ اللہ) سے مروی ہے۔‘‘

(العلو، ص 98)

ربیعہ بن عبد الرحمٰن رحمتہ اللہ (136ھ ) کا عقیدہ ملاحظہ ہو!
امام سفیان بن عیینہ رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ربیعہ بن عبدالرحمن کے پاس تھا۔ آپ سے ایک آدمی نے پوچھا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

(الرحمن على العرش استوى)

(طه: 5)

رحمن عرش پر کیسے مستوی ہے؟ تو آپ نے فرمایا:

الإستواه غير مجهول، والكيف غير معقول، ومن الله الرسالة، وعلى الرسول البلاع، وعلينا التصديق.

’’استوا معلوم ہے، کیفیت عقل میں آنے والی نہیں۔ یہ پیغام من جانب اللہ ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ تبلیغ ہے اور ہمارے ذمہ تصدیق۔ ‘‘

(العلو للذهبي، ص98، وسنده صحيح)

امام سلیمان بن طرخان تیمی رحمتہ اللہ (143ھ ) کا عقیدہ دیکھئے!

قال ابن أبي خيثمة في تاريخه: حدثنا هارون بن معروف، قال: حدثنا ابن ضمرة عن صدقة عن سليمان التيمي، قال: لو سألت: أين الله؟ لقلت: في السماء.

’’صدقہ رحمتہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام سلیمان تیمی رحمتہ اللہ نے فرمایا: اگر آپ پوچھیں کہ اللہ کہاں ہے؟ تو میں جواب دوں گا کہ آسمانوں کے اوپر۔‘‘

(اجتماع الجيوش الإسلامية لابن القيم: 67 ، وسنده حسن)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے