عقیدہ توحید پر اشرف آصف جلالی بریلوی کے شبہات کا ازالہ
یہ اقتباس الشیخ سید توصیف الرحمٰن راشدی کی کتاب عقیدہ توحید پر جلالی کے شبہات کا ازالہ سے ماخوذ ہے۔

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنََ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ

(سورۃ المؤمن: 83)
پھر جب ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلوں کے ساتھ آئے تو وہ اس پر پھول گئے جو ان کے پاس کچھ علم تھا اور انھیں اس چیز نے گھیر لیا جس کے ساتھ وہ مذاق کرتے تھے۔
دین اسلام دین توحید ہے، عقیدہ توحید وہ عظیم نعمت ہے جو اللہ اپنے پیاروں کو اپنے پسندیدہ لوگوں کو عطا کیا کرتا ہے اور جس کو اس عقیدے کا فہم حاصل ہو جاتا ہے وہ دھرتی پر چلتا ہوا دھرتی پر رہتا ہوا بھی اس کی جنت کنفرم ہو چکی ہوتی ہے۔ کیونکہ قیامت کے دن ٹھکانے صرف دو ہیں: ایک جنت اور ایک جہنم۔ اہل توحید یعنی لا الٰه الا الله کی پکار کو کماحقہ پہچاننے والے کا ٹھکانہ رب کی جنت ہے، اور اللہ مالک کی عبادت میں شرک کرنے والےہ، عقیدہ توحید کو نہ سمجھنے والے آخرت میں ان کا ٹھکانہ ہمیشہ کی دہکتی ہوئی آگ ہے۔

فهم توحید:

سادہ الفاظ میں خالق و مالک کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ ٹھہرانا توحید ہے اور یاد رکھو یہ توحید بڑی عظیم دعوت ہے۔ جس پیغام کو اللہ مالک کے نبی اور ہر پیغمبر نے اپنی امت تک پہنچایا، لیکن افسوس! اہل شرک نے عقیدہ توحید کو چھوڑ کر خالق و مالک کی عبادت میں غیروں کو شریک بھی ٹھہرایا اور اپنے بارے میں یہ دعوے بھی کیے کہ ہم جنتی ہیں، ہم اللہ کے پیارے ہیں وہ مثال مشہور ہے ایک چوری دوسرا سینہ زوری۔ چور چوری کرے لیکن اپنی چوری کو تسلیم کر لے تو اتنا غصہ نہیں آتا جتنا غصہ اس پر آتا ہے جو چوری کرے اور کہے مجھے چور نہ کہو۔ اور یہ آج کی بات نہیں ہے بلکہ ہر دور کے مشرک کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ بدعقیدگی میں انتہا کو پہنچتے ہوئے بھی اپنی تمناؤں میں اپنے آپ کو اللہ کے مقرب سمجھتے۔

یہود و نصاریٰ کا شرک:

آئیے! یہودیوں کا حال اللہ تعالیٰ کے کلام سے جانتے ہیں کہ ان کے جرائم کتنے تھے وہ شرک کی کس دلدل میں گرے ہوئے تھے اور ان کے دعوے اور تمنائیں کتنی تھیں، ان کے جرائم پر نظر دوڑائیے پھر ان کی امیدوں کو دیکھئے، یہودی کہا کرتے تھے کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے۔ (معاذ اللہ عما یقولون) حالانکہ درحقیقت خالق و مالک کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ اس کی کوئی بیوی اور اولاد نہیں ہے۔ اللہ نہ جنا گیا ہے نہ اس نے کسی کو جنا ہے۔ اولاد کمزوریاں ہیں، بیوی کمزوری ہے، چنانچہ خالق ہر طرح کی کمزوری سے پاک ہے۔ لیکن ان کے عقیدے کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ
(سورۃ التوبہ: 30)
اور یہودیوں نے کہا عزیر علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے۔
یہ یہودیوں کے جرائم میں ایک بہت بڑا جرم تھا کہ اس ذات کو جو اپنی ذات میں تنہا، اپنی عبادت میں بھی تنہا، اپنی صفات میں بھی یکتا ہے (تو عزیر علیہ السلام کو) اس کی اولاد اور اس کا بیٹا قرار دیا۔ یہ ظالم مزید زبان درازی کرنے والے کہا کرتے تھے۔
وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ
(سورۃ المائدہ: 64)
اور یہود نے کہا: اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا
(سورۃ المائدہ: 64)
حقیقت میں ان کے اپنے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، اور ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ خالق و مالک نے ان پر لعنت کا کوڑا برسایا ہے۔
مالک ان کے جواب میں فرماتا ہے۔
بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ
(سورۃ المائدہ: 64)
اس خالق و مالک کے ہاتھ دونوں کھلے ہوئے ہیں۔
يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ
(سورۃ المائدہ: 64)
وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا اور جس کے لیے چاہتا ہے عطا کرتا ہے وہ کسی کا پابند نہیں ہے۔
دوسرے مقام پر مزید فرمایا۔
لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ
(سورۃ آل عمران: 181)
بلاشبہ یقیناً اللہ نے ان (ظالموں) کا قول سن لیا جنھوں نے یہ کہا اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔
سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا
(سورۃ آل عمران: 181)
جو کچھ انہوں نے کہا، ہم لکھ لیں گے۔
قیامت کے دن یہ رب کی عدالت میں جواب دہ ہوں گے۔ حالانکہ اللہ مالک نے ان کی ہدایت کے لیے کتاب اتاری تورات بھیجی یہ ہدایت اور نور کا چشمہ تھی۔
إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ
(سورۃ المائدہ: 44)
ہم نے تورات کو اتارا اس میں ہدایت اور نور ہے۔
یعنی جو نور کا منارہ تھا اور ہدایت کا سرچشمہ تھا مگر یہودیوں نے (اسے چھوڑ کر) ظلم کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے گمراہی کے اندھیروں میں بھاگتے ہوئے عقیدے کیا گھڑے؟ بلکہ اللہ کی دی ہوئی کتاب کو ٹھکرایا، نور اور ہدایت کو چھوڑا، اپنے ہاتھوں سے کلام لکھا، اپنے ہاتھوں سے کچھ چیزیں تراشیں، اپنے ہاتھوں سے کچھ بنایا اور اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے انسانی قوانین گھڑے اور اللہ کی طرف ان کو منسوب کیا۔ ان کے جرم سے مالک پردہ فاش کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ
(سورۃ البقرہ: 79)
پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
چنانچہ ان کے لیے تباہی بربادی ہے جو اپنی باتوں کو اپنے گھڑے ہوئے قوانین کو، اپنے تراشے ہوئے جملوں کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ بعد ازاں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے دلائل کو یہودیوں نے پہچانا، جان لیا، حق کو سمجھ لیا، جس رسول کا انتظار ہو رہا تھا یہی وہ سچا رسول ہے لیکن اپنے مذہبی تعصب پر اپنی قومیت کی بنیادوں پر ڈٹے رہے، اور پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کے باوجود ایمان نہ لے کر آئے۔ بلکہ جواب میں کیا کہتے ہیں۔
وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا
(سورۃ البقرہ: 135)
انہوں نے کہا: یہودی بن جاؤ یا نصرانی تم ہدایت پا جاؤ گے۔
مطلب کیا تھا اس بات سے کہ محمدی نہ بنو محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ایمان نہ لاؤ۔ پچھلے کفر کے جرائم تو تھے ہی، لیکن آمنہ کے لعل کے آنے کے بعد آپ کی نبوت کو تسلیم نہ کرنا، بذات خود ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اپنی ان تمام بداعمالیوں، بدعقیدگیوں اور شرک میں گھرے ہونے کے باوجود وہ کہا کیا کرتے تھے؟ اپنے بارے میں عقیدہ کیا رکھتے تھے؟ اپنے بارے میں تمنائیں کیا رکھتے تھے؟ یہودی اور نصرانی کہا کرتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اللہ کے پیارے ہیں۔ (معاذ الله عما يقولون)

مشرک اللہ کا پیارا نہیں ہوتا

یہ بات یاد رکھو کہ کوئی مشرک اللہ کا پیارا نہیں ہوسکتا۔ جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اللہ کی ذات و صفات اور عبادت میں کسی اور کو حصہ دار بناتا ہے خواہ وہ نبی کا بیٹا ہو یا نبی کا چچا ہو یا نبی کا باپ ہو۔ جہاں باقی لوگ جہنم کی آگ میں جلنے والے ہیں، رب کے ساتھ شرک کرنے والے بھی اس آگ میں جلنے والے ہیں۔ بھلے نسل کے لحاظ سے وہ کتنے ہی اعلیٰ کیوں نہ ہوں۔ جو شرک کرے وہ اللہ کا پیارا کبھی نہیں ہوسکتا۔ جس کا دل پیارا ہوتا ہے وہ اللہ کے اولیاء میں شامل ہوتا ہے۔ اللہ کا پیارا بننے کے لیے پہلی شرط یہی ہے کہ وہ خالق و مالک کی شان کو پہچانتا ہو اور اس کی ذات میں کسی کو شریک نہ کرے جیسا کہ مالک نے خود اعلان کیا تھا میں سارے گناہ جس کے لیے چاہوں گا معاف کر دوں گا لیکن شرک کسی کے لیے معاف نہیں کروں گا۔
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ
(سورۃ النساء: 48)
بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اس کے سوا جو (گناہ) جس کے لیے چاہے بخش دے۔
شرک کا گناہ معاف نہیں ہونے والا، کیونکہ جب کوئی شخص اللہ کی عبادت میں کسی اور کو شریک بنانے کا جرم کرے اور پھر عقیدہ رکھے کہ میں اللہ کا پیارا ہوں یہ ایسے ہی جیسے اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی ہو۔ شرک کا پورا دھندا چلانے والے اور دعویٰ کتنا عجیب کر رہے ہیں؟ مزید یہود و نصاریٰ نے کہا۔
وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ
(سورۃ البقرہ: 111)
اور انہوں نے کہا ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوگا مگر وہ جو یہودی ہو یا نصرانی، یہ ان کی تمنائیں ہیں۔
ایسی تمنائیں جو پوری نہیں ہوسکتیں۔
کیونکہ جب تم نے وادی شرک میں قدم رکھا، تو توحید کے پاک صاف چشمے سے اپنے پاک رشتے کو توڑا، عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا اسی وقت تمہارے اور جنت کے درمیان گویا ایسی پہاڑ کی چٹانیں کھڑی ہو گئیں جن کو تم کبھی بھی ختم کر کے جنت میں داخل نہیں ہو سکتے۔ تمہارا جنت میں جانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا مشکل ہے۔ ان کے غرور کا حال اللہ تبارک و تعالیٰ مزید بیان کرتے ہیں۔
وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً
(سورۃ البقرہ: 80)
اور انہوں نے کہا ہرگز نہ چھوئے گی ہمیں آگ مگر گنتی کے چند دن۔
ہمارا ٹھکانہ ہمیشہ جہنم نہیں بلکہ جنت ہے۔
یہ یہودیوں کا حال اور ان کے جرائم تھے اور یہی حال نصاریٰ کا بھی رہا۔ انھوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہی اعمال کیے جو یہودیوں نے سیدنا عزیر علیہ السلام کے بارے میں کیے تھے۔ حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام انھیں خوشخبری سنا کر گئے تھے۔ انھیں بتا کر گئے تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ
(سورۃ الصف: 6)
جب کہا عیسیٰ ابن مریم نے اے بنی اسرائیل! میں تمھاری طرف رسول بن کر بھیجا گیا ہوں اور میں تصدیق کرتا ہوں اس کتاب کی جو مجھ سے پہلے تھی تورات کی صورت میں ہے۔
وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ
(سورۃ الصف: 6)
اور ایک ایسے رسول کی خوشخبری سنانے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔
تورات کی تصدیق کرنے والے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں، محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کام کی خوشخبری دینے والے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں، لیکن جب پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ہوئی، شریعت محمدیہ آئی، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا، نصاریٰ کے سامنے واضح ہوا تو پھر ان کا جواب کیا تھا۔
فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُبِينٌ
(سورۃ الصف: 6)
تو جب وہ واضح دلیلوں کے ساتھ ان کے پاس آیا، انھوں نے کہا: یہ تو کھلا جادو ہے۔
یعنی جب واضح دلائل آگئے، دی ہوئی نشانیاں آ گئیں نصاریٰ نے ان نشانیوں کے دیکھنے کے بعد ان دلائل کو جاننے اور پہچاننے کے بعد کیا کہا؟ کہا: یہ تو کھلا جادو ہے۔ ہم اس جادو پر ایمان نہیں لاتے۔ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو پیغام دیتے ہوئے کہا تھا۔
إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ
(سورۃ المائدہ: 73)
میں اللہ کا بندہ ہوں۔
مجھے اللہ کا بندہ ہی تسلیم کرنا۔ نصاریٰ نے جرائم کی سیڑھی پر بہت بڑا جرم کرتے ہوئے قدم رکھتے ہوئے کہا۔
وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ
(سورۃ التوبہ: 30)
اور نصاریٰ نے کہا: مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔
نبی نے جو توحید کا درس دیا جو پیغام دیا جس طرح یہودیوں نے شرک کو امتیوں کے اندر پھیلایا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا یہی جرم نصاریٰ نے کیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے دعوے کے خلاف اللہ کا بیٹا کہا پھر قدم آگے بڑھائے اور کہا۔
إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ
(سورۃ المائدہ: 73)
تین کا تیسرا اللہ ہے۔
تین الہوں (معبودوں) کا عقیدہ رکھا اور کہا اللہ بھی الہ ہے، مریم بھی الہ ہے، عیسیٰ بھی اللہ ہے۔ تین معبودوں کا عقیدہ رکھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسیٰ علیہ السلام کے اس پیغام کو بھلا دینے والے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے اللہ کا بندہ کہو۔ لیکن یہ کہنا چھوڑ کر کیا کہا۔
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ
(سورۃ المائدہ: 17)
بے شک مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے۔
ان تمام کفریہ عقائد کے باوجود نصاریٰ کا عقیدہ کیا تھا۔
وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ
(سورۃ البقرہ: 111)
انھوں نے کہا: جنت میں صرف یہودی اور عیسائی جائے گا۔
چنانچہ شرک اکبر کرنے کی بنا پر یہ جنت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوئے۔ لیکن اپنے عقیدے (شرک) کو نہیں چھوڑا، اور تمنائیں جاری رکھیں کہ ہم ہی جنت میں جانے والے ہیں۔ پیارے نبی حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے علم کی رحمت پر قربان جاؤں کہ آپ نے اپنی امت کو (شرک سے) ڈرایا اور سابقہ امت کے لوگوں کا حال بتایا اور فرمایا: لوگو! میں اللہ کا بندہ ہوں۔ مجھے اللہ کا بندہ کہنا۔ آپ نے یتیم کا یہ بھی فرمان ہے۔
لتتبعن سنن من كان قبلكم
(صحيح البخاري: 7320)
تم ضرور پیروی کرو گے اپنے سے پہلے لوگوں کی۔
ان کے نقش قدم پر چلو گے۔ پھر وہی ہوا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا۔ کلمہ پڑھنے والوں میں واسع بن عطا کھڑا ہوا۔ اس نے دو الہوں کا تصور پیش کیا: ایک شر کا خالق دوسرا خیر کا خالق۔ علماء نے اس کے کفر کو پہچانا، اس کے جرائم کو دیکھا، اس نے جنت میں ہونے والے مالک کے دیدار سے انکار کیا، اللہ کی صفات کا انکار کیا اور اپنے بارے میں دعویٰ کیا اور اپنے بارے میں کہا ہم اہل توحید ہیں۔ توحید کی دھجیاں اڑا دیں اور دعویٰ کیا کہ ہم اہل توحید ہیں۔ چنانچہ وہ اس پر شور کرتے رہے کہ ہم توحید والے ہیں مگر علماء و محدثین نے ان کے کفر کو پہچان کر ان پر کفر کا فتویٰ لگایا اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی خبر روز روشن کی طرح پوری ہوئی کہ کلمہ پڑھنے والوں نے یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر قدم رکھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو الہ قرار دیا۔ جیسے یہود و نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنا اللہ کہا اسی طرح ان کلمہ پڑھنے والوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی الہ کہا۔
یہ بات یاد رہے کہ ہمارے یہ جملے کسی کو پریشان کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ بلکہ ہم تمھارے اس خالق و مالک کا تعارف کروا رہے ہیں، جو تمھیں ماں کے پیٹ میں رزق دیتا رہا۔ جو تمہارا مشکل کشا اور تمھیں اس دھرتی پر لے کر آیا۔ تمہارے جسم کو قوت و طاقت بخشی، تمھیں رزق اور عزت دی۔ تمھیں مال و دولت دی۔ اس خالق و مالک کو نہ بھولیے۔ مولویوں کے فراڈ میں پھنس کر اس رب سے رشتہ توڑ کر غیروں کے ساتھ نہ جوڑیں۔ ہمارا کلام شرک کی وادی میں، شرک کی دلدل میں ڈوبنے والی عوام سے ہے اس (خالق) کو پہچانیے جس نے باپ کے پانی کو ماں کے رحم میں پہنچایا۔ وہ کون سا دا تا تھا جس نے خون کے لوتھڑے سے جسم بنایا۔
ثم أحسن صوركم
پھر اس نے تمھاری صورتوں کو خوبصورت بنایا۔
اس غریب نواز کا نام کیا تھا؟ اس حاجت روا کا نام کیا تھا، جو تمھیں دھرتی پر لے کر آیا؟ اس دستگیر کا نام کیا تھا اس داتا، اس غریب نواز، اس دستگیر کو اللہ کہتے ہیں، لوگو! اس خالق حقیقی کو مت بھولیے اور ایسے شرک و بدعت سے بچئے جو سابقہ امتوں نے کیا۔

آج شرک کرنے والوں کا حال:

آج کچھ لوگوں نے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اپنا خدا بنا لیا ہے۔
خواجہ محمد یار فریدی کی کتاب دیوان محمدی جس کا صفحہ نمبر 156 ہے اس پر وہ اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے (اس مصنف کا نام بھی محمد یار فریدی گڑھی ہے) شعر میں لکھتا ہے:
گر محمد نے محمد کو خدا مان لیا
پھر تو مسلمان ہے دغا باز نہیں۔
یعنی اگر محمد یار فریدی، محمد مالکِ عالم کو الٰہ مان لے، اللہ مان لے پھر مسلمان ہے دغا باز نہیں، اور رب محمد کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مُحَمَّدٌ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ) کے الفاظ سے اپنا تعارف کرایا اور جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سمجھتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو عبدیت سے نکال کر رب بنا لیا ہے۔ لہذا کوئی بھی اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ اللہ کے علاوہ کسی کو اللہ کہے۔ مگر محمد یار فریدی اپنی اس کتاب کے صفحہ نمبر 204 میں سرائیکی میں خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے:

خدا آکھاں تاں جگ ڈردا اے

اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو الٰہ ہوں تو لوگوں کا ڈر آتا ہے، لوگ مار دیں گے، لوگوں کا خوف ہوتا ہے۔

خدا آکھاں تاں جگ ڈردا اے
جدا آکھاں تے دل مردا اے

اگر میں یہ کہوں کہ محمد خدا نہیں ہے محمد الٰہ نہیں ہے خدا سے جدا ہے تو دل میرا مر جاتا ہے۔ کیونکہ یہ میرے عقیدے کے خلاف ہے۔

بشری بھیں وٹا کے آیا
احد او ہو احمد سدایا۔

کیا یہ وہی جرم نہیں جو یہود و نصاریٰ نے کیا؟
ارے اللہ کے بندو! اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام احد تھے جس طرح سے کہنے والا کہتا ہے:

وہی جو مستویٰ عرش تھا خدااہو کر

اُتر پڑا مدینے میں مصطفیٰ ہو۔

طائف میں پتھر کے مارے گئے؟ اَحَد کو یا احمد کو؟ مکہ سے کسے نکالا گیا؟ ابوبکر یا ان صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر پیچھے کون سوار ہوا؟ صدیق اکبر کے کندھوں پر سوار ہو کر مدینے تک کون گیا تھا؟ اب وہ ابوبکر کی گود میں سر رکھ کر کون سویا تھا؟ مدینہ میں کون پہنچا تھا؟ ابو ایوب انصاری کے گھر میں کس نے جا کے قیام کیا تھا؟ مسجد رسول کی تعمیر کا وقت آیا تو صحابہ بنی امیہ کے ساتھ مل کر اللہ کا گھر کس نے بنایا تھا؟ خود رب نے یا رب کے رسول نے؟ (إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ) عقل بہت بڑی نعمت ہے۔ اس عقل کا جنازہ نہ نکالو۔ ارے بتاؤ! اُحد میں دانت کس کے شہید ہوئے تھے؟ ماتھا کس کا زخمی ہوا تھا؟ فرشتہ کس کے پاس آیا تھا؟ کس کا پیغام لایا تھا؟ اشارہ کرو تو طائف کے پہاڑوں کو گرا کر بستی والوں کو پیس دیں، کون کس کو کہہ رہا تھا؟
((اللهم اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون))
(صحيح البخاري: 3477)
کس کا آوازہ تھا؟ تم نے کفر اور ایمان کے درمیان فرق ہی ختم کر دیا۔ لاہور کا پیر نوری بوری والا، کئی لوگوں نے اس نوری والے بابا کو دیکھا ہوگا اس نوری والے بابے کی کنڈ (کمر) میرے داتا اللہ نے جھکائی ہوئی ہے۔ اے فوت شدگان کو داتا کہنے والو! تم اس کی کمر اپنے کسی بزرگ سے ہی سیدھی کروا لیتے … وہ بھی ادھر تھا اور تمھارا داتا بھی ادھر ہی (لاہور میں) ہے اتنی بات بھی نہ مانی تمھاری؟ رب کے بارے میں کہنے والو کہ وہ داتا نہیں یہ داتا ہے۔ اصلی داتا نے تمہارے بابے نوری والے کی کمر کو جھکایا یا تم ساری کائنات کے بابوں کی قبر پر جا کر مراد لے کے مانگ کے دیکھ لو اس مڑی ہوئی کمر کو کوئی سیدھا نہیں کر سکتا۔
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ
(سورۃ البقرہ: 111)
کہہ دیجئے کہ اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔
اس شخص (بابا نوری بوری) کو سامنے بٹھا کر نعیم قوال قوالی گاتے ہوئے یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کہتا ہے:

لوگ عرشاں اُتے لیندے نے
رب بوری والے دے اولے آ بیٹھا

لوگ میرے خالق و مالک کے بارے میں باطل و گندہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نعوذ باللہ عرش والا اس گندے بوری والے کی اوٹ میں آ بیٹھا۔ جب کہ اللہ فرماتا ہے:
الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى
(سورۃ طہ: 5)
رحمٰن عرش پر مستوی ہے۔
نعوذ باللہ ان قوالوں کا کہنا ہے:
بھول جاتے ہیں عرش پر ڈھونڈنے والے کہ رب لاہور میں نوری والے کے بھیس میں اس کے لباس میں چلے آیا ہے، یہ بابا نہیں بلکہ خدا ہے۔ (إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ) یہود و نصاریٰ شاید تم سے بہتر تھے کہ کم از کم انھوں نے انبیاء کو اللہ کا بیٹا کہا اور تم نے وقت کے بدترین بدمعاشوں کو رب کا شریک ٹھہرایا۔ آج کے دور میں شرک اتنا بدترین ہو گیا ہے کہ لوگ بابا نوری کو الٰہ کہتے ہیں مگر انھیں اپنے اصل الٰہ (معبود) کی پہچان نہیں اور شرک اس انتہا کو پہنچ چکا ہے کہ مُردوں کو جی بھر کر سجدے کیے، پیروں کی قبروں پر دھمال ڈالی، قبروں پر مردوں کو سجدے کیے، زندوں کو لالچ آئی ان کے منہ میں رال آئی کہ مردوں کو سجدہ کرتا ہے تو ہم زندہ ان سے اچھے ہیں۔ انھوں نے اپنے آپ کو پیر بنالیا، انھوں نے مُردوں کے آگے جھکنے والوں کو اپنے آگے جھکا لیا۔ نہیں یقین تو طاہر القادری صاحب کا دمشق کا سفر دیکھ لیں۔ ایک کرسی پر بیٹھے ہیں اپنے پاؤں کے نیچے گدی مبارک رکھی ہے۔ ایک مرید آ کے سجدہ ریز ہوتا ہے کہتا ہے مجھے نہیں پتا تھا میرے اتنے بھی پاگل مرید ہوں گے ایسے مریدوں کو وہ اور غفلت میں لے جاتے ہیں۔ جس طرح

شہباز کرے پرواز، جانے دلاں دے راز

اصل میں یہ شعر اس طرح ہونا چاہیے تھا:
شہباز کرے پرواز مگر یہ نہیں پتا کہ مرنے کے بعد استنجا کون کرائے گا۔
ہم نے اپنے مردوں کو تیار کیا، غسل دیا، استنجا کرایا، اگر اتنا لوگوں کا راز داں ہوتا تو مرنے کے بعد لوگوں کو اپنی شرم گاہ کو ہاتھ لگانے کی اجازت دیتا؟ اور اسی طرح آج کے بعض زندہ پیروں نے اپنے سامنے اپنے پجاریوں کو سجدہ ریز کروایا۔ نہیں یقین تو (youtube) پر مشرک کی حدی دیکھیے ایک کلپ کھلے گا پیر کے سامنے کیسے انسان سجدہ ریز ہو رہے ہیں۔ انسان کے سامنے انسان سجدہ ریز ہو رہے ہیں۔ حالاں کہ جیسا تو پہنتا ہے ویسا وہ پہنتا ہے۔ جیسا تو کھاتا ہے ویسا وہ کھاتا ہے، جیسا تو نکالتا ہے ویسا وہ نکالتا ہے، جتنا تو مجبور ہے اتنا وہ مجبور ہے، کبھی کسی کتے کو دیکھا کسی کتے کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے؟ اتنی عقل تو کسی جانور میں بھی ہوتی ہے۔ مگر تم میں اتنی بھی عقل نہیں جتنی ایک جانور میں ہوتی ہے۔ وہ چھ چھ کا گروپ بنا کر ان کے آگے سجدہ کرنا شروع کرتے ہیں۔ ہرمل شریف کا ایک مزار ہے جہاں ایک عرس منعقد ہوتا ہے خدا کی قسم! رونے کا مقام ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے کلمہ پڑھ کے اپنا نام مسلمانوں کی لسٹ میں لکھواتے ہیں۔ جو احکام اللہ کی راہ میں کرنے ہوتے ہیں وہ ان کے آگے کرتے ہیں۔ پیر صاحب کرسی پر بیٹھے ہیں۔ ایک دور تھا کہ جب لوگ کسی پیر کو دیکھ کر اپنی آخرت کی فکر کرتے تھے کہ لمبی ڈاڑھی نورانی چہرہ ہوتا تھا۔ دیکھ کر واقعی محسوس ہوتا ہے کہ پیر صاحب ہیں۔ لیکن آج کل اکثر داڑھی مونڈ پیر ہیں چنانچہ اے توحید پر قائم رہنے والے مسلمان! مبارک ہو تمھیں۔ تم نے اپنا سجدہ اپنے رب کے آگے کیا، مگر ہرمل میں ان لوگوں نے صفیں بنا بنا کر اس داڑھی مونڈھ پیر کے سامنے سجدہ کیا۔ صرف سجدہ ہی نہیں کیا، بلکہ اُن کے رونے اور چیخنے کی آواز میں پورے گاؤں نے سنیں۔ وہ رو رو کر اپنے پیر کو منا رہے تھے۔ کاش! کبھی اپنے رب کے سامنے سجدہ کیا ہوتا اپنے رب کے سامنے ماتھا ٹیک کے روئے ہوتے تو آج فلاح پاتے۔ لیکن جسے ایک رب کو سجدہ کرنا نہ آئے رب بھی اُسے در در پر ذلیل کرتا ہے۔ کاش یہ آنسو اپنے رب کے لیے بہائے ہوتے۔ سجدہ ریز ہیں دو ڈھائی سو لوگوں کا گروپ سجدہ ریز ہے۔ ابھی ہم روک رہے تھے کہ مردوں کو سجدہ نہ کرو، مگر اب زندوں کو سجدہ کر رہے ہیں۔ ہم نے انھیں اس سے روکا تو انھوں نے پیروں بابوں کی قبروں پر طواف شروع کر دیا۔ انھیں منع کیا کہ طواف تو صرف اللہ کے گھر کا ہوتا ہے۔ اولیاء انبیاء بھی اس گھر کا طواف کرتے رہے … صالحین بھی کرتے رہے۔ بیت اللہ کا طواف اللہ کی عبادت کا ذریعہ ہے۔ ہم بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے اللہ خالق و مالک کو راضی کرتے ہیں۔ ہم نے کہا قبروں پر طواف نہ کرو۔ مشرکوں نے کہا اچھا بیت اللہ کا طواف ہوتا ہے تو بیت اللہ بنا کر ہم اپنے علاقے میں طواف کر لیتے ہیں۔
چنانچہ انڈیا میں ایک بستی مکہ پور کے نام سے ہے، ظالموں نے قبروں کے اوپر بیت اللہ کا ماڈل بنایا اور اس کا طواف کرتے تھے۔ ادھر بابوں کی قبریں ہیں طواف کرنے والوں نے ہاتھ میں سبز چادر میں پکڑی ہوئیں اور طواف کرنے کے بعد یہ چادر میں قبر پر چڑھا دیں۔ کلمہ پڑھنے والے اس کا طواف کر رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم نے انھیں اس سے منع کیا اور انھیں کہا: ابرہہ کی سنت پر عمل نہ کرو۔ کعبہ صرف ایک ہے، ہم نے کہا حقیقی داتا ایک ہے، انھوں نے فوت شدگان کو داتا کہا۔ ہم نے کہا: سچا مشکل کشا ایک ہے۔ انھوں نے اللہ کے نیک بندوں کو مشکل کشا کہا۔ ہم نے کہا بیت اللہ ایک ہے۔ انھوں نے اپنے بزرگوں کی قبروں پر بیت اللہ کا ماڈل بنا کر اس پر طواف کیا۔ ہم نے کہا: حج صرف مکہ میں اللہ کی عبادت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اب انھوں نے اپنے پیروں کی قبروں پر حج شروع کر دیے۔إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ۔ ان حقائق میں کسی پر طنز اور تنگ کرنا مقصود نہیں، نہ فرقہ واریت کی بات ہمارا مقصد ہے، بلکہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو واضح کرنا مقصد ہے۔ اے لوگو! توحید وہ عظیم عقیدہ ہے جس کی جڑوں میں محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم یتیم کا مبارک لہو بہا ہے۔ اس توحید کے درخت کو ابوبکر، عمر و عثمان اور علی بنی امیہ کے لہو نے سیراب کیا ہے۔ جموں چولستان میں ایک پیر ہے۔ اس کا نام ہے احمد ایاز ثانی۔ اس کی قبر پر حج ہوتا ہے۔ اس حج کا نام حج اصغر رکھا گیا ہے اور اس بستی کا نام مکہ ثانیہ رکھا ہے۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔
ہمیں گستاخ کہنے والو! ہم نے مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی بستی کو نہ ثانی، نہ ثالث کہا۔ ہم نے مدینہ طیبہ کے علاوہ کسی بستی کو مدینے والی شان نہیں دی، پھر بھی تم ہمیں گستاخ کہتے ہو؟ یہ اہل حدیث ہیں جو مکہ سے بڑھ کر اور پھر مدینہ سے بڑھ کر کسی بستی کو تسلیم نہیں کرتے۔ مخلوق میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو تسلیم نہیں کرتے۔ قربان جاؤں تمھاری عقلوں پر پھر بھی گستاخ رسول ہم قرار پائے۔ تم مکہ نیا بنا لو تم مدینہ نیا بنالو۔ یہ روس کی ریاستیں ہیں۔ قازقستان کوئی انڈیا پاکستان والا کہہ سکتا ہے کہ اتنی دور کیوں جاتے ہو۔ ہم آپ کو قریب والا ان کا مکہ اور مدینہ دکھاتے ہیں۔ چاچڑ وانگ پیر جہاں دفن ہے وہ مکہ کے برابر ہے۔ مٹھن کوٹ والے پیر جہاں دفن ہے وہ مدینے کے برابر ہے۔ تم نے رب کی جنت کے دروازے کھینچ کھینچ کر اپنے بابوں کی قبروں پر لگا دیے۔

نہ صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سر بستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں۔

کیا پاکپتن والے بزرگ کی قبر پر جنت کا دروازہ نہیں ہے؟ کیا بہشتی دروازہ سال میں ایک مرتبہ نہیں کھلتا؟ کیا اس کے اندر سے گزرنے والوں کو بہشتی نہیں سمجھتے؟ عقیدہ نہیں رکھتے کہ جو یہاں سے گزر گیا جنت میں گیا؟ یہ خبر کافروں کے سفیروں تک پہنچی تو امریکی سفیر بھی گزرنے کے لیے پہنچ گیا کہ شاید مجھے بھی جنت مل جائے۔ محمد مالکِ عالم کی جنت میں جانے کے لیے پہلے رب کی توحید ماننی پڑتی ہے۔ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم یتیم کی رسالت اور وہ بھی بغیر کسی امتی کی شراکت کے ماننی پڑتی ہے۔ احمد ایاز ثانی کی قبر پر حج کروایا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ حج اس لیے کروایا جاتا ہے کہ مکہ کے حج میں جانے کا خرچہ زیادہ ہے۔ ادھر جلدی کام ہو جاتا ہے۔ پیسے بھی نہیں لگتے۔ خرچہ بھی نہیں ہوتا۔ یہ فقیروں کا حج ہے اور یہ کوئی ایک قبر نہیں پھر مغرب کے اندر ایک اور بابا پیر سیدی بوغیار اس کی قبر پر حج ہوتا ہے، اور اس کو بھی فقراء کے حج کا نام دیا جاتا ہے۔ سیدی بوغیار کی قبر پر آنے والے حاجی قربانی کے جانور ساتھ لے کر آتے ہیں۔ جانور کھڑے جن کو قربان کیا جانا ہے کچھ قربان کیے جا چکے ہیں۔ بابے کے نام پر ذبح کیے ہوئے یہ جانور، پیروں کی قبروں پر ہونے والا نفلی حج تمھیں مبارک ہو۔ اہل توحید کو اللہ کے گھر جانا اور اللہ کے گھر کا حج کرنا مبارک ہو۔ ان بے چاروں نے اپنے بابوں کی قبروں پر حج اس لیے شروع کر دیے، کیونکہ ان کے حاجیوں کی بیت اللہ کے امام کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، ایک پیر نوری میر پور کا بابا کہتا ہے: ”میں قسم کھاتا ہوں واللہ میں وہاں جاتا ہوں اور وہاں کے اماموں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا۔“ ہم کہتے ہیں نصیب کی بات ہے ہم گھر سے نکلتے ہیں نماز پڑھنے کے لیے نماز کھڑی ہوتی ہے۔ امام شیخ سدیس، شیخ شریم یا کوئی امام اللہ اکبر کہہ کر نماز کا آغاز کرتے ہیں، ہم ان کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں تم نماز پڑھو میں ذرا ادھر ہو کے آیا۔ یہ باقی وقت حمام میں گزارتا ہوگا یا حرم شریف کے بیت الخلاء میں۔ مسلمان وہاں نماز پڑھ کر نکلتا ہے کوئی پوچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ تو کہتے ہیں۔ ہماری وہاں نماز نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ اپنا حج کا ٹھیکا بھی الگ لے کر جا رہے ہیں۔ پھر لوگوں سے حج کا کہیں گے۔ یہاں ہنما راج نہیں ہوتا۔ وہاں آ کر کر لیا کرو، اور پھر وہابیوں کو گالی دیتے ہو ہم وہاں توحید پر چلتے ہیں مگر سن لو ہم وہابی نہیں ہم مسلم ہیں۔ عرش والے نے ہمارا نام مسلم رکھا۔ رب عظیم نے دو ہاتھ دیئے۔ ایک ہاتھ میں رب کا قرآن دوسرے میں محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث۔ تیسرا ہاتھ نہیں دیا۔
ہم رب کے بندے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر، نبی کی بستی کو چھوڑ کر کسی اور بستی کی طرف منسوب نہیں ہوئے۔ مدینہ کو چھوڑ کر مکہ کو چھوڑ کر کسی بستی کی طرف منہ کر کے ان جیسا عقیدہ و نظریہ نہیں اپنایا۔ ہماری نظر پڑی آمنہ کے لعل کی جائے پیدائش کی بستی اور آمنہ کے لعل کی بستی پر ہم نے ان دو بستیوں مکہ اور مدینہ سے بے وفائی نہیں کی۔ طواف کرتے ہوئے بھی امت کو گالیاں سکھانے والو! اللہ تمہارے شر سے امت کو محفوظ رکھے تم نے قبروں پر طواف کیے۔ بابا بوغیار کی قبر پر حج کیا، قربانی کی، قبروں کا طواف سنا تھا مگر تم نے بابا بوغیار کی قبر چھوڑ کر اس کے گھر کا طواف شروع کر دیا، اور دعویٰ کرتے ہیں جو بابا بوغیار کی قبر پر تین دفعہ حج کر لیتا ہے، اسے مکہ اور مدینہ کے حج کا ثواب ملتا ہے۔ تمھیں ایسے نقلی حج اور کعبے مبارک ہوں۔ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی پیاری بچی توحید کے عقیدے کی نعمت مبارک ہو۔ فخر کیجئے اللہ کی قسم! وہ مسلمان جن کا ماتھا عرش والے کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتا۔ جن کا عمل مدینے والے علاوہ کسی کی دلیل نہیں ڈھونڈتا، وہ اپنے نصیب پر جتنا فخر کریں، کم ہے۔ مصر کے ایک صوفی سے پوچھا گیا ان ججوں کے بارے میں ان عقیدوں کے بارے میں وہ تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے: میں صوفی ہوں کوئی مجھے شیعہ (اہل تشیع) نہ سمجھے، مجھے پر طعن نہ کرے کہ ہم شیعہ ہیں اس لیے یہ کام کر رہے ہیں۔ نہیں میں صوفی ہوں ہمیں لوگ مزاروں کے پجاری کہتے ہیں، اور کہتا ہے: میں فخر کرتا ہوں اس بات پر اور ہاں ہم ابرہہ کے مزاروں کے پوجاری ہیں۔ بابوں کے مزاروں کی پوجا کرتے ہیں۔ کیونکہ قبر اور مزار میں فرق ہے قبر میں عام مسلمان دفن ہوتا ہے اور مزار میں اللہ کا سچا ولی دفن ہوتا ہے۔ ہم اس مزار کی پوجا کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اس پوجا سے اللہ کے قریب ہونے کا موقع ملتا ہے۔ (إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ) کیا فرق رہا کفار مکہ کے کفر میں اور ان مزار پرستوں کے کفر میں؟ وہ بھی یہی کہا کرتے تھے ہم ان کی پوجا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ یہ اللہ کے قریب ہونے کا ایک بہانہ ہے۔ آئیے ایک اور حج کی کہانی پڑھیے۔

لعل شہباز قلندر کا شہر سیہون:

اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس سیہون میں ایک جگہ لال باغ ہے چنانچہ کچھ لوگ دھوکا دیتے ہیں کہ بابے لعل شہباز قلندر کی قبر پر سلفیوں نے جھوٹ بولا، کہ یہاں پر حج ہوتا ہے ہم نہیں کہتے لیکن یہ قبر پر حج نہیں قبر سے کچھ کلو میٹر لال باغ ایک جگہ ہے وہاں پر حج ہوتا ہے، اور قبروں کا طواف تو ہم نے دیکھا تھا مردوں کو سجدے دیکھے تھے لعل شہباز قلندر کا لال باغ اس میں ایک اور منظر بابے کا تھڑا (بابے کا چبوترا) جس میں بابا جی خود دفن نہیں ہیں۔ جس چبوترے پر وہ بھی آ کر بیٹھا کرتے تھے جس پر جھولا رکھا ہے (جھولے لعل) پہلے قوال قوالیاں گاتے تھے اب عورتیں قوالیاں گاتی ہیں۔ کیونکہ اُن کی سی ڈیز (CD) زیادہ بکتی ہیں اور ثواب بھی مل جاتا ہے شیطانی لذت بھی حاصل ہوتی ہے، ایک ٹکٹ میں دو کام ہو جاتے ہیں۔ جب مرد گاتا تھا اس میں صرف ثواب ملتا تھا اب تو عورتوں کی قوالیاں ہیں۔ جنھوں نے انڈین فلموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ عورت وہ جس کو تقدس کی چادر میں رکھا جاتا اور سجایا جاتا ہے۔ (إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ) وہ جھولے کو حرکت دے کر اس کے تھڑے (چبوترے) کے ساتھ طواف کرے۔
مسلمانو! پیارے حبیب جو توحید پھیلانے کے لیے محنت کر کے گئے تم نے اس کو اتنی جلدی بھلا دیا۔ لعل شہباز قلندر کے چبوترے کے گرد طواف اور ان کا عقیدت مند کہتا ہے کہ جب وہ اس پر بیٹھا کرتے تھے تو یہ تھڑا اڑا کرتا تھا گویا یہ پرانے زمانے کا ہیلی کا پر تھا۔ یہ بابے کے تھڑے پر بیٹھ کر بابا طواف کیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اُڑ رہا تھا۔ اس کا ساتھی پیر بھائی بچوں کو قرآن پڑھا رہا تھا۔ مسجد میں بیٹھا ہوا۔ اس نے دیکھا لعل شہباز اوپر سے اڑتا ہوا جا رہا تھا۔ اس نے کہا: (نیچے آ) اور یہ وہیں اُتر گیا۔ کہا جی؟ کہا تجھے شرم نہیں، نیچے قرآن پڑھا جا رہا ہے اور تم اُوپر پرواز کر رہے ہو۔ بابا جی نے اس بات کا صدمہ لیا اور دو غار میں کھود لیں۔ ایک نجف کو دوسری مکہ کو نکلتی تھی۔ بابا لعل شہباز کے باغ میں ایک تالاب ہے۔ اس کے پانی کے متعلق ایک پجاری اور بابے کا مرید کہتا ہے کہ بابا یہاں ڈبکی مارتے تھے، نجف میں جا کے نکلتے تھے۔ اس کے تھڑے کا طواف بھی ہوتا ہے اور پھر ظلم یہاں پر رُکا نہیں؟ بلکہ جمرات پر کنکریاں مارنے کے لیے وہاں ایک ڈھیر بنایا گیا ہے۔ جہاں پتھر مارے جاتے ہیں۔ ایک حاجی انٹرویو (Interview) دیتے ہوئے کہتا ہے: ان حاجیوں کا حال بھی کتنا برا ہے جس طرح مدینے میں پتھر مارنے پڑتے ہیں اس طرح یہاں بھی مارنے پڑتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں مدینے میں بھی کنکریاں مارنی پڑتی ہیں اس کے بغیر حج نہیں ہوتا (حالاتکہ کنکریاں مکہ میں ماری جاتی ہیں کہ جمرات مکہ میں ہیں) تو کیا لعل شہباز کی قبر پر بھی کنکریاں مارنی پڑتی ہیں؟ اس کے بغیر بھی حج نہیں ہوتا۔ کہا کیوں؟ کہتے وہ جو شیطان کو مارا کرتے ہیں جس نے آ کے پہلے اسماعیل علیہ السلام کو بہکایا پھر ہاجرہ علیہا السلام کو بہکایا، پھر آ کے ابراہیم علیہ السلام کو بہکایا اور پھر جب وہ نامراد ہوا تو کنکریاں مارنے کا حکم ہوا اس کے بعد یہ پیر عثمان (عثمان سہروندی) جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ شیعہ برادری کا پیر ہے۔ اگر یہ شیعہ ہوتا تو اس کا نام عثمان نہ ہوتا۔ یاد رکھو! یہ تمہارا بابا ہے۔ کہا یہاں پر پیر صاحب بیٹھتے تھے مرید آتے تھے شیطان آکر روکتا تھا کہ اس بابے کے پاس نہ جایا جائے تو حکم ہوا اس شیطان کو یہاں کنکریاں ماری جائیں:
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ قرآن کی وہ آیت سنا دو جہاں یہ حکم بیان کیا گیا ہو، کوئی حدیث نبوی ملے تم تو سنا دو جہاں بیان کیا گیا ہو۔ اے عقل مند مریدو! تمھاری طرح سب کی عقل بر باد نہیں ہوئی۔ تم کہتے ہو کہ کنکریاں مارنے کا یہ حکم اللہ نے دیا۔ یہ بتاؤ کہ یہ حکم قرآن میں دیا یا حدیث میں؟ یا تمہارے پاس کوئی نئی وحی آئی ہے تو وہ بھی بتا دو؟ کنکریاں مارنے کے بعد ایک پانی کا کنواں ہے۔ جس کو زم زم کہتے ہیں۔ اس کو زمزم کہنا بھی زمزم کی توہین ہے۔ ہمارے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا: ”زمزم! اس کو پی کر رب سے تم جو مانگو گے وہ عطا فرما دے گا۔“
سنن ابن ماجه 3062
مزید ارشاد ہے: ”زمزم خوراک بھی ہے شفاء بھی ہے۔“
حسن معجم الاوسط للطبراني: 60
وہ زمزم جس کے مقابلے میں سیہون کے اندر ایک گندے پانی کا گندا تالاب لا کھڑا کیا ہے۔ پیر سے پوچھا: جی یہ کیا؟ (دس دس کی بوتل بیچتے ہو) کہا: اس کے نیچے سے کعبے کے ساتھ کوئی سلسلہ (Link) ہے۔ (إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ)
وہ اتنا گندا پانی اللہ کی قسم! دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تو پینے کا کیسا تصور کہ اس گندے پانی کو پیٹ کے اندر ڈالا جائے۔ جہاں عقل سلیم ہوتی ہے وہاں شرک نہیں ہوتا اور جہاں شرک ہوتا ہے وہاں عقل سلیم نہیں ہوتی۔ وہاں کھڑے ہو کر مٹی ملتے ہیں اپنے جسم پر، ان سے پوچھیں یہ کیا ہے؟ تو کہتے: پیر شہباز قلندر نے یہاں کھڑے ہو کر صابن استعمال کیا تھا تو اس کا اثر اس میں ہے۔ آج تک برکت اور شفا اس میں موجود ہے جو کسی صابن سے نہیں ہوتا۔ یہ لال باغ کا صابن ہے۔ اہل توحید کی عقل سلیم موجود ہے۔ انھیں اس گندے پانی میں ڈبکیاں مارنے کی ضرورت نہیں۔ بابے کی قبر وہاں پر نہانے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ نومولود کی طرح پاک ہو گئے۔ سارے گناہ معاف ہو گئے۔ ساری بیماری ختم ہو جاتی ہے۔ ان سے پوچھا جی یہ کیسا حج ہے؟ کہا جس کے پاس پیسہ ہے وہ سعودی عرب جا کر حج کرلے اور جس کے پاس پیسہ نہیں ہے تو اللہ نے حکم دیا تم یہاں حج کرو۔ میں اس کے برابر ثواب دوں گا۔ جملے پر غور کیجئے گا۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی کس آیت میں یہ بات بیان فرمائی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حدیث میں بیان فرمائی؟
ابھی تک یہ ماجرا تھا قبروں کی پوجا ہو رہی تھی۔ اولیاء کی پوجا ہو رہی تھی مگر شیطان شرک کرنے والوں کو شرک کے اندر اور پھنسا دیتا ہے۔ آئیے ذرا غور کیجئے! کراچی میں منگھو پیر کا دربار جہاں بابا سخی سلطان کا مزار ہے۔ اس مزار کے ساتھ ایک تالاب موجود ہے اور اس تالاب کے بارے میں کرامت مشہور ہے کہ بابا جی کو پیاس لگی انھوں نے زمین پر پیٹ مارا اور وہ پانی کا کنواں بن گیا۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ .إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔
حالانکہ اہل کراچی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں بابے کے مزار کے علاوہ بھی بعض جگہوں پر پانی کے چشمے بہتے ہیں جیسا کہ پہاڑی علاقوں میں عموماً ہوتا ہے۔ بہر حال کیا یہ مقابلہ نہیں ہے زمزم کے کنویں کا؟ کہ اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی تھی تو جبرائیل آئے تھے پر مارا تھا یا تھوکر ماری تھی اور اللہ نے اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں سے چشمہ بنا دیا، پھر کہتے ہیں: بابا جی کو خارش ہوئی انھوں نے سر میں خارش کی تو وہ جوئیں تھیں جو تالاب میں گریں اور مگر مچھ بن گئیں۔ جس بابے کی جوئیں اتنی بڑی تھیں تو اس کا سر کتنا بڑا ہوگا؟ ایک بی بی کا عقیدہ ہے کہ تالاب میں جو مگر مچھ موجود ہیں ان سے مراد میں پوری ہوتی ہیں۔ (إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ) یہ ظلم تو یہود و نصاریٰ نے competitive نہیں کیا کہ جانوروں کی پوجا کی ہو، سوائے ایک بچھڑے کے اور وہ بھی محدود وقت کے لیے۔ اے کلمہ پڑھنے والو! تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام کیوں بھول گیا۔ جنھوں نے اپنی عبادت سے منع کیا، اپنی قبر پوجنے سے منع کیا۔
سیدہ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی ظاہر کر دی جاتی۔
(صحيح البخاری، رقم الحديث: 1330)
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہم یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
((اللهم لا تجعل قبرى وثنا يعبد))
(موطا امام مالك: 570 برواية مصعب الزهرى)
اللہ میری قبر کو بت نہ بنا دینا کہ لوگ اس کی پوجا کریں۔
تم نے پیروں کی قبروں کی پوجا کی، بزرگوں کی قبروں کی پوجا کی، قبروں پر حج کیے، شرک کی انتہا نے تمھیں اتنا گھیر لیا۔ کیا تم اشرف المخلوقات نہیں ہو؟

خود کو موحد کہنا:

چنانچہ جب اہل توحید، اہل حدیث علماء نے ان شرکیہ امور سے لوگوں کو منع کیا انھیں آواز دی۔ بھائیو! شرک سے باز آ جاؤ، اللہ کی توحید کی طرف آ جاؤ تو انھوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ شیخ و پکار کی، ایک صاحب کہتے ہیں:
ہم مظلوم ہیں، ہم مشق ستم بنے ہوئے ہیں، ہماری اس بات پر بھی اور ہمارے معتقدات پر بھی تیر برسائے جا رہے ہیں، مشرک کہا جاتا ہے اور شرک کے فتوے لگائے جاتے ہیں، آج ہم اپنی صفائی دینے کے لیے بیٹھے ہیں، ہم یہ بتانے آئے ہیں کہ توحید کے وارث کل بھی ہم تھے اور آج بھی ہم ہیں۔

توحید کا عقیدہ گھٹی میں ہم نے پایا
ممکن نہیں مٹانا دل سے ایمان ہمارا۔

جواب حضرت جی! اگر آپ توحید کے متوالے ہو تو بتاؤ یہ منگو پیر کس کی پیداوار ہے؟ یہ قازقستان میں ہونے والا حج کس کی پیداوار ہے؟ یہ قبروں کے طواف کس نے شروع کروائے ہیں؟ یہ قبروں پر نقلی کہے اس کی ابتدا کس نے کی ہے؟ یہ بزرگوں کی قبروں پر عبادت کی ابتدا امت میں کس نے کی ہے؟ اور کیا کچھ درباروں پر نہیں ہوتا، ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں: ابن شاہ کا دربار، وہاں پر جو کچھ آپ کے مرید کرتے ہیں اس کو اور آپ کے پیر کی کارستانی کو ہماری آنکھیں جانتی ہیں۔ جو چاہے وہ youtube دیکھ لے۔ یہ کس نے کیا؟ اس پورے کاروبار کو فروغ دینے والے کون ہیں؟ آپ اپنے آپ کو توحید کے متوالے کہتے ہو۔ تو سنو! ویسے بڑی عجیب بات ہے۔ ہمیشہ اہل حدیث پر یہ طعنہ رہا ہے کہ لفظ توحید حدیث میں ہے نہ قرآن میں ہے۔ لفظ توحید وہابیوں نے گھڑا ہے۔ اقتدار احمد نعیمی صاحب اپنی کتاب شرعی استفتاء کے صفحہ 23 پر لکھتے ہیں:
”وہابیوں نے سات (7) لفظ اپنے پاس سے ایجاد کیے ہیں۔ اپنے دین میں داخل کیے جس کا قرآن حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، اور ان سات لفظوں میں پہلا لفظ توحید ہے جو کہ یہ گھڑا ہوا ہے۔ اور اگر صوفیاء کی کتب کے اندر لفظ توحید ہے تو یہ وہابیوں نے اس میں لکھا ہے۔ اصل میں اس لفظ کی کوئی بنیاد نہیں، کوئی ثبوت نہیں دے سکتا، نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں ہے۔
میں کہتا ہوں حضرت جی! لفظ توحید وہابیوں کا گھڑا ہوا نہیں ہے۔ وہابیوں کے امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا ہے۔ آپ کہتے ہیں کوئی دلیل نہیں دے سکتا، میں عقیدہ توحید کا چھوٹا سا خادم ہوں، میں آپ کو دلیل دیتا ہوں۔ جامع ترمذی کی حدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((يعذب ناس من أهل التوحيد فى النار))
(سنن ترمذی: 2597، صحيح)
قیامت کے دن اہل توحید کے کچھ لوگوں کو آگ کا عذاب ہوگا۔
اسی حدیث میں آگے ارشاد نبوی ہے:
”یہاں تک کہ وہ اس کے کو ملے بن جائیں گے، پھر انھیں رحمت الہی آ پہنچے گی تو انھیں نکال باہر کر کے جنت کے دروازوں پر پھینک دیا جائے گا، پھر جنت والے ان پر پانی چھڑکیں گے تو وہ ایسے اگیں گے جیسے سیلاب کے کوڑے کرکٹ میں گھاس اگتی ہے۔“ آپ کہتے ہیں توحید کا لفظ قرآن میں نہیں، حدیث میں نہیں۔ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے۔ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اہل توحید میں سے کچھ لوگوں کو بد اعمالیوں اور گناہوں کی وجہ سے آگ کا عذاب ہوگا۔
((حتى يكونوا فيها حمما))
”وہ آگ میں جل کر کوئلے کی طرح راکھ ہو جائیں گے۔“
لیکن عقیدہ توحید کی وجہ سے کیا ہوگا!
((ثم تدركهم الرحمة))
”پھر رب کی رحمت انھیں لے لے گی۔“
موحد ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رہے گا۔ پھر اللہ کی رحمت انھیں لے لے گی۔ وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے کچھ عرصہ جہنم میں رہیں گے پھر اللہ کی رحمت انھیں آئے گی۔
((فيخرجون ويطرحون على أبواب الجنة))
”در جہنم سے نکالا جائے گا جنت کے دروازوں میں ڈال دیا جائے گا۔“
((فيرش عليهم أهل الجنة الماء))
”جنتی جنت کا پانی ان کے اوپر گرائیں گے۔ یہ ایسے اُگیں گے جیسے سیلاب کے گزرنے کے بعد سیلاب کے راستے میں گھاس اُگتی ہے۔“
((ثم يدخلون الجنة))
”پھر اللہ کی رحمت سے یہ بھی جنت میں داخل ہو جائیں گے۔“
آپ کل تک تو ہمیں طعنہ دیا کرتے تھے کہ یہ لفظ توحید تم نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے اور آج اس لفظ کا بڑے ہی دھڑلے اور کثرت سے استعمال کر رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں ہم توحید کے متوالے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بقول اقتدار احمد نعیمی کے آپ خود بدعتی ہو گئے اور ہم نے تو دلیل دی کہ یہ لفظ توحید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں استعمال ہوا۔ جلالی صاحب کہتے ہیں ہم توحید کے والی و متوالی ہیں۔ ہم پر ظلم و ستم ہوتا ہے۔ حکومت نوٹس لے، حضرت اپنی حرکتوں پر آپ خود نوٹس لیں۔ بزرگوں کی قبروں پر شرکیہ امور روکیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے