اسلامی عقائد کی تاریخ میں عقل اور نقل کے درمیان ہونے والا معرکہ ایک اہم بحث رہا ہے، حالانکہ یہ معرکہ بنیادی طور پر غیر ضروری تھا۔ یہ بحث زیادہ تر ان ادیان میں اہم سمجھی جاتی ہے جو اسلام کے علاوہ ہیں۔ اسلام کے اندر اس کی ضرورت نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کو اٹھانا خدا کی نعمت کا انکار کرنا ہے۔
عقل اور نقل: دو اہم نعمتیں
عقل خدا کی تخلیق ہے جبکہ نقل خدا کی تنزیل۔ دونوں ہی خدا کی بے مثال نعمتیں ہیں، جو انسان کو زندگی کے مشکل مراحل سے گزارنے اور دنیا و آخرت کی مشکلات سے نجات دلانے کے لیے دی گئی ہیں۔ عقل اور نقل کی اہمیت کو تسلیم کرنا ضروری ہے، کیونکہ دونوں ہی انسان کی ہدایت کا ذریعہ ہیں۔
معتزلہ کی ذہنیت اور اس کا اثر
معتزلہ ایک خاص فرقہ تھا، مگر ان کی ذہنیت ہر دور میں اور ہر جگہ پائی گئی ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ عقل اور نقل کے درمیان ایک توازن پیدا ہو جائے، لیکن عملی طور پر یہ عقل کو نقل پر فوقیت دیتے رہے۔ یہ ‘عقل کے لشکر’ میں شامل ہو کر ان لوگوں کو ‘عقل دشمن’ قرار دیتے جو نصوص شریعت کو عقل پر ترجیح دیتے تھے۔
عقل کی تقدیس اور تحقیر: دو انتہائیں
عقل کی تقدیس ایک انتہا تھی، جبکہ عقل کی تحقیر ایک دوسری انتہا۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین اتارا، وہ انسان کے دل اور عقل دونوں کو مخاطب کرتا تھا۔ دین اسلام محض زبردستی منوانے پر نہیں بلکہ دلائل و حکمت کی بنیاد پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام میں خدا کا حکم ماننے سے پہلے لوگوں کو عقلی دلائل درکار تھے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ یہ واقعی خدا کی طرف سے ہے۔
قرآن کی معقولیت اور دلائل
قرآنی دلائل عقلی بنیاد پر ہیں، یہ محض ڈرانے یا دھمکانے کے لیے نہیں بلکہ حقیقت کا اثبات ہیں۔ قرآن میں حق اور باطل کا موازنہ اور ضلالت کا رد موجود ہے، جو عقل کی مدد سے انسان کو سمجھ آتا ہے۔ مسلمان کے لیے بھی قرآن سے سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
عقل اور نقل کا تفاعل: سلف کا منہج
عقل اور نقل کے بہترین تفاعل کا نمونہ ہمیں سلف کے منہج میں ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو قرآن اس انداز سے پڑھایا کہ وہ ایمان، اذعان، تسلیم، یقین اور بصیرت کے ساتھ تعامل کریں۔ اس منہج کی بنیاد یہ تھی کہ وحی کا تفاعل انسان کی فطرت اور اس کی عقل و احساسات کے ساتھ ہو۔
سلف کا منہج: عقل اور نقل کا توازن
سلف کے منہج میں عقل اور نقل دو متضاد چیزیں نہیں بلکہ یکجا ہو کر انسان کو صحیح راہ دکھانے میں مددگار ہیں۔ یہ دونوں انسان کی آنکھیں بن جاتی ہیں جن کی مدد سے انسان دور تک دیکھتا ہے اور صحیح دیکھتا ہے۔ اس منہج کو منہج وسط کہا جاتا ہے جس میں ہر چیز کا اعتدال پایا جاتا ہے۔
توازن کا بگڑ جانا
اگر لوگ سلف کے منہج پر چلتے تو وہ قرآن سے ایمان، بصیرت اور یقین حاصل کرتے، مگر اس توازن کو نظرانداز کر دیا گیا۔ توازن کا بگڑنا ایک بڑی الجھن کا باعث بنا، جس میں بعض لوگوں کا معاملہ ایک طرف جھک گیا اور بعض کا دوسری طرف۔
عقل اور نقل کی جنگ کا غلط تصور
یہ غلط فہمی کہ عقل اور نقل دو متحارب عناصر ہیں، فکر اعتزال کی پیداوار ہے۔ اس جنگ کو عقل پرستوں کا وہم قرار دینا ہی درست طریقہ تھا، جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے کیا۔ ان کی تصنیف ”درء التعارض بین صریح المعقول وصحیح المنقول” نے اس تصور کو رد کر دیا کہ عقل اور نقل میں کوئی ٹکراؤ ہے۔
امام ابن تیمیہ کا منہج
امام ابن تیمیہ نے واضح کیا کہ عقل اور نقل کے درمیان سرے سے کوئی تعارض نہیں۔ یہ جنگ دراصل ‘نقل’ کے خلاف ‘بے عقلی’ کی جنگ ہے، نہ کہ عقل اور نقل کے درمیان۔
عقل پسندی اور عقل پرستی میں فرق
عقل پسندی دین میں موجود ہے، جبکہ عقل پرستی ایک فتنہ ہے۔ عقل خدا کی مخلوق ہے اور اسے خدا کے برابر کھڑا کرنا عقل کے خود بھی گوارا نہیں۔ یہ انسان ہیں جو عقل کو خدا کے برابر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج کے دور میں سلفی منہج کی ضرورت
سلفی منہج کی طرف لوٹ کر آج بھی عقل اور نقل کی جنگ کا نقشہ بدلا جا سکتا ہے۔ سلف کے نام لیوا طبقوں کو آج بھی توازن کی طرف آنا ہوگا تاکہ دین کی صحیح تصویر سامنے آ سکے۔ عقل کو مکمل طور پر رد کرنا سلفی منہج نہیں، بلکہ اس کا مقام نقل کے تابع ہے۔
نتیجہ: عقل اور نقل کا درست مقام
عقل کا کردار نقل کے ماتحت ہے مگر اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عقل پرستوں کے بے جا نظریات نے نقل اور عقل کے مابین توازن کو بگاڑ دیا، مگر اس کا جواب سلفی منہج سے دیا جا سکتا ہے۔ آج بھی اگر لوگ سلف کے حقیقی منہج کو اپنائیں تو وہ قرآن اور سنت سے صحیح ہدایت حاصل کر سکتے ہیں۔