کراچی کی بعض مساجد میں خواتین کا مسجد کی تراویح میں شرکت کے عنوان سے ایک کتابچہ تقسیم کیا گیا ہے، جسے حضرت مولانا مفتی عبدالرؤف سکھروی مدظلہ نے ترتیب دیا ہے۔ یہ رسالہ مکتبہ الاسلام کورنگی کراچی (فون نمبر: 5016664) نے اکتوبر 2003 میں القادر پرنٹنگ پریس کراچی سے شائع کیا تھا۔
رسالے میں حکم دیا گیا ہے کہ ائمہ مساجد کو چاہئے کہ وہ خواتین کو مسجد میں آنے کی اجازت نہ دیں اور نہ ان کے لئے جگہ مختص کریں کہ وہ مسجد میں نماز باجماعت ادا کر سکیں۔ اسی طرح کے بعض سوالوں کا جواب لکھتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ موجودہ پرفتن دور میں خواتین کا مسجد میں آنا فتنے کا باعث بن رہا ہے۔ اس لئے خواتین کو مسجد سے روکنا ضروری ہے۔ اسی طرح کتابچے میں اماموں اور خطیبوں کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ وہ خواتین کو مساجد میں آ کر تراویح ادا کرنے سے بھی منع کریں۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ دیگر نمازوں کی طرح نماز تراویح بھی گھر میں ادا کریں۔ ذیل میں اس کتابچے کے مندرجات ملاحظہ فرمائیں۔
صفحہ نمبر 7 پر لکھا ہے کہ اس فتنہ اور فساد کے زمانے میں خواتین کو گھروں سے نکل کر فرض نمازیں، تراویح کی نماز اور عیدین کی نمازیں مردوں کے ساتھ مسجد یا عیدگاہ پر باجماعت ادا کرنا مکروہ اور منع ہے۔ اگلے صفحات میں مسند احمد کی روایت کو خواتین کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکنے کے لئے دلیل بنایا گیا ہے۔
کتابچے کے صفحہ نمبر 16 اور 17 پر صحابہ کا خواتین کو مسجد سے روکنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت بیان کی گئی ہے کہ وہ جمعہ کے روز عورتوں کو کنکریاں مار کر مسجد سے نکالتے تھے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن عورتوں کو مسجد سے نکال دیتے اور فرماتے کہ اپنے گھروں کو جاؤ۔ صفحہ نمبر 18 پر لکھا ہے کہ صحابہ کرام نے خواتین کو مساجد میں آنے سے منع کرنا شروع کر دیا تھا۔ صفحہ نمبر 25 پر تحریر ہے کہ عورتوں کی جماعت بھی ناجائز اور مکروہ تحریمی ہے اور امامت بھی۔ صفحہ نمبر 29 پر کہا گیا ہے کہ عورتوں کو مسجد حرام اور مسجد نبوی میں بھی آنے کی اجازت نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ
ان فرمودات کے جواب میں ہم صرف احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم پیش کریں گے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو مسجد میں آنے کی اجازت دی ہے اور مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو مسجد جانے کی اجازت دیں۔ آپ نے فرمایا:
إذا استأذنت امرأة أحدكم فلا يمنعها
”اگر تم میں سے کسی کی بیوی اس سے (مسجد) جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے مت روکے۔“
(صحیح البخاری و مسلم)
إذا استأذنكم نساؤكم بالليل إلى المسجد فأذنوا لهن
”اگر تمہاری بیویاں تم سے رات کے وقت مسجد میں جانے کی اجازت طلب کریں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔“
(صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب خروج النساء إلى المساجد، حدیث: 865)
لا تمنعوا نساءكم المساجد إذا استأذنكم إليها
”اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے نہ روکو جب وہ مسجد جانے کی تم سے اجازت طلب کریں۔“
(صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب خروج النساء إلى المساجد، حدیث: 989)
مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے گھر والوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکے۔“ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیٹا (بلال بن عبداللہ) کہنے لگا: ہم تو ان کو ضرور روکیں گے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو ایسی بات کرتا ہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ نے تا زندگی پھر اس سے کلام نہ کیا۔ (احمد، مسلم)
سالم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہما (اپنے بیٹے) بلال کی جانب متوجہ ہوئے اور اسے اس قدر برا بھلا کہا کہ میں نے اس طرح کی لعن طعن کو نہیں سنا۔ اور انہوں نے کہا: ”تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتا رہا ہوں اور تو کہتا ہے اللہ ہی سمجھے! ہم عورتوں کو ضرور روکیں گے۔“ (مسلم)
ام ورقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
أمرها أن تؤم أهل دارها
”انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرائیں۔“
(ابو داود: 592)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
أنها تؤم النساء وتقوم وسطهن
”ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور صف کے درمیان میں کھڑی ہوتی تھیں۔“
(مستدرک حاکم)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جماعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف کھڑا ہوا اور ایک عورت ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ (صحیح البخاری)
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا خواتین کی امامت کراتیں اور صف کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں۔ (ابن ابی شیبہ)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نماز لمبی کرنے کے ارادے سے نماز میں داخل ہوتا ہوں۔ پھر عورتوں کی صف میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز میں کمی کر دیتا ہوں (یعنی ہلکی پڑھتا ہوں) کہ بچے کے رونے سے اس کی ماں کو تکلیف ہو گی۔“ (صحیح البخاری)
دیکھئے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ اے عورتو! تم مسجد آنے کی بجائے گھر پر نماز پڑھو، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وجہ سے نماز مختصر کر دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین جب فرض نماز سے سلام پھیرتیں تو کھڑی ہو جاتی تھیں (اور گھروں کی طرف چلی جاتی تھیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نمازی (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) بیٹھے رہتے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ جاتے تو لوگ بھی کھڑے ہو جاتے۔ (صحیح البخاری)
مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ خواتین بچوں سمیت نماز باجماعت میں شریک ہو سکتی ہیں اور اختلاط سے بچنے کے لئے مردوں کو خواتین کے چلے جانے کا انتظار کرنا چاہئے۔ ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین کا باجماعت نماز ادا کرنا ناجائز نہیں اور نہ عورت کا عورتوں کی امامت کرانا غلط ہے، اس لئے انہیں نماز باجماعت سے روکنا جائز نہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی زوجہ عاتکہ رضی اللہ عنہا کا مسجد میں جانا گراں گزرتا تھا۔ ان کی زوجہ کو کسی نے یہ بات بتائی تو انہوں نے جواب دیا: گراں گزرتا ہے مگر انہوں نے منع تو نہیں کیا۔ یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خواتین کو مسجد جانے سے نہیں روکا۔
ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورتوں کو اپنے خاوندوں سے اجازت لے کر ہر مساجد یا دوسری جگہوں کی طرف جانا چاہئے۔