حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی بکریاں چرا رہے تھے۔ آج بھی لوگ بکریاں چراتے ہیں، مگر ان کے اس چرواہے کا ایک منفرد واقعہ یہ تھا کہ بکریاں اور بھیڑئیے اکٹھے چر رہے تھے، اور بھیڑئیے بکریوں پر حملہ نہیں کر رہے تھے۔ یہ غیر معمولی منظر تھا، کیونکہ عمومی طور پر بھیڑئیے بکریوں کو دیکھ کر ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ مگر ایک رات اچانک ایک بھیڑیا نے ایک بکری پر حملہ کیا، جس پر سب حیران رہ گئے۔ یہ صورتحال ان کے لیے ناقابل فہم تھی۔ البتہ حضرت موسیٰ بن اعین نے فوراً اندازہ لگایا کہ جس عادل حکمران کی برکت سے انسان تو کیا، حتیٰ کہ درندے بھی مہذب ہو گئے تھے، وہ ہستی اب دنیا میں موجود نہیں رہی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ واقعی وہ انصاف کی علامت شخصیت اس دنیا سے دار البقا کی طرف منتقل ہو چکی تھی۔
فاروقِ ثانی: عدل و انصاف کی اعلیٰ مثال
کیا آپ جانتے ہیں یہ شخصیت کون تھی؟ یہ عظیم شخصیت وہ تھی جسے لوگ "فاروقِ ثانی” کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ آپ کا نام حضرت عمر بن عبدالعزیز تھا، جن کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے: عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن الحکم بن ابی العاص بن امیہ القرشی۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو عدل و انصاف کے قیام کے اعلیٰ مقصد کے لیے ہی پیدا فرمایا تھا۔ آپ نے نبی اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے بعد دنیا میں انصاف کی ایک انوکھی مثال قائم کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے اسلاف نے اپنے بعد آنے والوں کو یہی سبق دیا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زندگی کو ہی دیکھ لیں؛ ان کی زندگی عدل و انصاف کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھی۔ جس عمدگی سے آپ نے حکمرانی کے فرائض انجام دیے، اس کا اعتراف سب کرتے ہیں، چاہے وہ دوست ہوں یا دشمن۔ یہاں ہم ان کی وفات کے وقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی انصاف پسندی
عمرو بن میمون روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا اور ان کا دنیا میں آخری دن تھا، تو آپ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بلایا اور کہا، "دیکھو، میرے ذمے کتنا قرض ہے؟” حساب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ تقریباً 86 ہزار درہم کا قرض ہے۔ آپ نے فرمایا، "اگر میرے خاندان والوں کے پاس اتنا مال ہو تو ٹھیک ہے، ورنہ قریبی رشتہ داروں سے مانگ کر اس قرض کو پورا کرو اور بیت المال میں جمع کروا دو۔”
اتنی انصاف پسندی کے باوجود جب آپ کو تسلی دیتے ہوئے کسی نے کہا کہ آپ خوش بخت ہیں، کہ پہلے آپ کو صحابیت کا شرف حاصل ہوا، پھر اسلام میں مرتبہ و مقام ملا، اور خلافت بھی ملی جس میں آپ نے عدل و انصاف کی مثال قائم کی، اور اب آپ کو شہادت کا مقام ملنے والا ہے، تو آپ نے فرمایا، "تم ان سب چیزوں کو بہت عظیم سمجھتے ہو، میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ میری نجات کے لیے ‘گزارا’ بن جائے، ڈر ہے کہ کہیں یہ میرے لیے بوجھ نہ بن جائے!” (صحیح بخاری: 3700)
آج کے حکمرانوں کی بدعنوانیاں
یہ تھے ہمارے اسلاف! مگر آج کے حکمرانوں کی بے اعتدالیوں اور عیش و عشرت کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ آج کے حکمران حکومت کو ایک منافع بخش کاروبار سمجھتے ہیں اور ہر حد پار کرتے ہوئے قوم کے وسائل کو لوٹتے ہیں۔ ہر حکمران اپنے دور میں دولت کے انبار اکٹھے کر کے دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہوتا ہے اور واپس جاتا ہے۔
ہمارے اسلاف کی سادگی اور انصاف کی برکت سے نہ صرف انسانیت بلکہ حیوانات بھی ان سے متاثر اور خائف تھے۔ آج کے حکمرانوں کی عیش پرستی اور بدعنوانیوں کی نحوست سے مسلمان اغیار کے غلام بن چکے ہیں۔
اس صورتحال کو دیکھ کر شاعر کا یہ شعر یاد آتا ہے: ؎ وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
آج کے حکمرانوں کے لیے سبق
کیا آج کے حکمرانوں میں سے کوئی ہے جو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے عدل و انصاف کو اپنا شعار بنا لے اور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کا مصداق بن جائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سبعۃ یظلّہم اللّٰہ فی ظلّہ یوم لا ظلّ الّا ظلّہ: الامام العادل
"سات قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، جس دن اس کے عرش کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، ان میں سے ایک عدل و انصاف کرنے والا حکمران ہوگا۔” (صحیح بخاری: 6806، صحیح مسلم: 1031)
خلاصہ
یہ مضمون حضرت عمر بن عبدالعزیز، المعروف "فاروقِ ثانی”، کی عدل و انصاف پر مبنی حکمرانی کا تذکرہ کرتا ہے۔ ابتدائی واقعے میں بھیڑ اور بکریوں کا امن کے ساتھ چرنا اس دور کی انصاف پسندی کا استعارہ ہے، جسے ان کی وفات کے بعد بھاری تبدیلی نے متاثر کیا۔ اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زندگی کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں ان کی انصاف پسندی اور عاجزی کے واقعات شامل ہیں۔ مضمون موجودہ حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں کی نشاندہی کرتا ہے، جن کے برعکس اسلاف کی سادگی اور انصاف پسندی کا عکس پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں، نبی اکرم ﷺ کا فرمان ذکر کیا گیا ہے کہ عادل حکمران قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوگا، اور موجودہ دور کے حکمرانوں کے لیے اس میں ایک نصیحت اور راہنمائی ہے۔