متواتر احادیث کی روشنی میں اہل سنت و الجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدی کا نام محمد بن عبداللہ ہو گا، وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہوں گے، قرب قیامت ان کا ظہور ہو گا اور وہ پوری دنیا میں عدل و انصاف کے پھریرے لہرائیں گے۔
ائمہ دین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام مہدی کے ظہور کے بارے میں مروی احادیث صحیح اور قابل حجت ہیں۔ اس حوالے سے چند ایک ائمہ دین کی آراء ملاحظہ فرمائیں :
(1) امام ابوجعفر محمد بن عمرو بن موسیٰ بن حماد عقیلی (م : ۳۲۲ھ ) فرماتے ہیں :
وفي المهدي احاديث جيد
’’ امام مہدی کے بارے میں عمدہ احادیث موجود ہیں۔ “ [الضعفاء الكبير للعقيلي 254/3]
(2) امام ابوبکر احمد بن الحسین بن علی بن موسیٰ بیہقی رحمہ اللہ (۳۸۴۔ ۴۵۸ھ ) فرماتے ہیں :
والاحاديث فى التنصيص على خروج المهدي اصح اسنادا، وفيها بيان كونه من عترة النبى صلى الله عليه وسلم
’’ امام مہدی کے خروج کے بارے میں احادیث صحیح سند والی ہیں۔ ان میں یہ وضاحت بھی ہے کہ امام مہدی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ہوں گے۔ “ [تاريخ ابن عساكر :517/47، تهذيب التهذيب لابن حجر: 126/9]
(3) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( ۶۶۱۔ ۷۲۸ھ ) فرماتے ہیں :
والاحاديث التي يحتج بها خروج المهدي احاديث صحيحة
’’ جن احادیث سے امام مہدی کے خروج پر دلیل لی جاتی ہے، وہ احادیث صحیح ہیں۔ “ [منهاج السنة لابن تيمية:95/4]
(4) شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن القیم (۶۹۱۔ ۷۵۱ھ ) نے فرمایا :
وهذا الاحاديث اربعة اقسام، صحاح وحسان وغرائب و موضوعة
’’ یہ احادیث چار قسم کی ہیں جن میں سے صحیح بھی ہیں، حسن بھی ہیں، غریب بھی ہیں اور موضوع بھی۔ “ [المنار المنيف لابن القيم : ص : 148]
(5) علامہ ابوعبداللہ محمد بن جعفر بن ادریس کتانی رحمہ اللہ ( ۱۲۷۴۔ ۱۳۴۵ھ ) اس بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد خلاصہ یوں بیان فرماتے ہیں :
والحاصل ان الاحاديث الواردة في المهدي المنتظر متواترة
’’ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مہدی منتظر کے بارے میں وارد احادیث متواتر ہیں۔ “ [نظم المتناثر في الحديث المتواتر للكتاني،ص:47]
(6) علامہ شمس الدین ابوالعون محمد بن احمد بن سالم سفارینی رحمہ اللہ (۱۱۱۴۔ ۱۱۸۸ھ ) لکھتے ہیں :
من اشراط الساعة التي وردت بها الاخبار وتواترت في مضمونها الاثار
’’ امام مہدی کا ظہور قیامت کی ان علامات میں سے ہے جن کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہیں اور جن کے بارے میں متواتر آثار مروی ہیں۔ “ [لوامع الأنوار البهية للسفاريني : 70/2]
(7) علامہ محمد امین بن محمد مختار شنقیطی رحمہ اللہ (۱۳۲۵۔ ۱۳۹۳ھ ) فرماتے ہیں :
وقد تواترت الاخبار واستفاضت بكثرة روايتها عن المختار صلى الله عليه وسلم بمجيء المهدي، وانه من اهل بيته
’’ امام مہدی کے آنے اور ان کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر و مشہور احادیث مروی ہیں۔ “ [الجواب المقنع المحرر للشينقيطي، ص:30]
یہ تو علمائے کرام اور ائمہ دین کے نزدیک امام مہدی کے متعلق وارد ہونے والی احادیث کا حال تھا۔ اب ان میں سے چند احادیث و آثار ملاحظہ فرمائیں :
٭ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لو لم يبق من الدنيا إلا يوم، قال: زائدة في حديثه لطول الله ذلك اليوم، ثم اتفقوا: حتى يبعث فيه رجلا مني او من اهل بيتي يواطئ اسمه اسمي واسم ابيه اسم
’’ اگر دنیا کے ختم ہونے میں ایک دن بھی باقی ہوا (اور امام مہدی نہ آئے ) تو اللہ تعالیٰ اسی دن کو لمباکر دے گا حتی کہ میری نسل سے یا میرے اہل بیت سے ایک آدمی کو مبعوث کرے گا جس کا نام میرے نام پر اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا۔ “ [مسند الامام احمد: 430، 377/1، سنن ابي داود : 4282، سنن الترمذي : 2230، وقال حسن صحيح، وسنده حسن]
٭ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ستكون فتنة يحصل الناس منها كما يحصل الذهب في المعدن، فلا تسبوا أهل الشام، وسبوا ظلمتهم، فإن فيهم الأبدال، وسيرسل الله تعالى إليهم سيباً من السماء فيغرقهم، حتى لو قاتلهم الثعالب غلبتهم، ثم يبعث الله عز وجل عند ذلك رجلاً من عترة الرسول صلى الله عليه وسلم في اثني عشر ألفا إن قلوا، وخمسة عشر ألفا إن كثروا، أمارتهم أو علامتهم أمت أمت على ثلاث رايات يقاتلهم أهل سبع رايات ليس من صاحب راية إلا وهو يطمع بالملك، فيقتتلون ويهزمون، ثم يظهر الهاشمي فيرد الله إلى الناس إلفتهم ونعمتهم، فيكونون على ذلك حتى يخرج الدجال .
’’ عنقریب فتنہ نمودار ہو گا۔ لوگ اس سے ایسے کندن بن کر نکلیں گے جیسے سونا بھٹی میں کندن بنتا ہے۔ تم اہل شام کو برا بھلا نہ کہو بلکہ ان پر ظلم کرنے والوں کو برا بھلا کہو کیونکہ اہل شام میں ابدال ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان پر آسمان سے بارش نازل کرے گا اور ان کو غرق کر دے گا۔ اگر لومڑیوں جیسے مکار لوگ بھی ان سے لڑیں گے تو وہ ان پر غالب آ جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ایک شخص کو کم از کم بارہ ہزار اور زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار لوگوں میں بھیجے گا۔ ان کی علامت امت امت ہو گی۔ وہ تین جھنڈوں پر ہوں گے۔ ان سے سات جھنڈوں والے لڑائی کریں گے۔ ہر جھنڈے والا بادشاہت کا طمع کرتا ہو گا۔ وہ لڑیں گے اور شکست کھائیں گے، پھر ہاشمی غالب آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف ان کی الفت اور محبت و مودّ ت لوٹا دے گا۔ وہ دجال کے نکلنے تک یونہی رہیں گے۔ “ [المستدرك على الصحيحين للحاكم : 596/4، ح : 8658، وسنده صحيح]
اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد“ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ صحیح “ کہا ہے۔
احادیث و آثار کے خلاف رافضی شیعوں نے اپنا ایک ’’امام غائب“ بنا رکھا ہے۔ وہ ان کا ’’مہدئ منتظر“ ہے۔ اس کا نام محمد بن حسن عسکری ہے۔
اس بارے میں حافظ ابن کثیر (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) فرماتے ہیں :
المهدي الذي يكون في آخر الزمان، وهو أحد الخلفاء الراشدين والأئمة المهديين، وليس بالمنتظر الذي تزعم الروافض، وترتجي ظهوره من سرداب في سامراء، فإِن ذاك ما لا حقيقة له، ولا عين ولا أثر .
’’ اس سے مراد وہ مہدی ہیں جو آخر زمانے میں ہوں گے۔ وہ ایک خلیفہ راشد اور ہدایت یافتہ امام ہوں گے۔ ان سے مراد وہ مہدئ منتظر نہیں جس کے بارے میں رافضی لوگ دعویٰ کرتے ہیں اور سامراء کے ایک مورچے سے اس کے ظہورکا انتظار کرتے ہیں۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں، نہ اس کے بارے میں کوئی روایت و اثر ہی موجود ہے۔ “ [النهاية في الفتن والملاحم لابن كثير:49/1]
نیز فرماتے ہیں :
فيخرج المهدي، ويكون ظهوره من بلاد المشرق، لا من سرداب سامرا، كما يزعمه جهلة الرافضة من أنه موجوده فيه الآن، وهم ينتظرون خروجه آخر الزمان، فإن هذا نوع من الهذيان، وقسط كبير من الخذلان، وهوس شديد من الشيطان، إذ لا دليل عليه ذلك ولا برهان، لا من كتاب ولا سنة ولا من معقول صحيح ولا استحسان
’’ امام مہدی نکلیں گے۔ ان کا ظہور مشرق کے علاقے سے ہو گا، سامراء کے مورچے سے، جاہل رافضیوں کاخیال ہے کہ وہ امام مہدی اس غار میں اب موجود ہیں اور وہ آخری زمانے میں ان کے خروج کے منتظر ہیں۔ یہ ایک قسم کی بے وقوفی، بہت بڑی رسوائی اور شیطان کی طرف سے شدید ہوس ہے کیونکہ اس بات پر کوئی دلیل و برہان نہیں، نہ قرآن سے، نہ سنت رسول سے، نہ عقل سے اور نہ قیاس سے۔ “ [النهاية في الفتن والملاحم لابن كثير:55/1]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
هذا الحديث دلالة على أنه لا بد من وجود اثني عشر خليفة عادل وليسوا هم بأئمة الشيعة الاثني عشر فإن كثيرا من أولئك لم يكن لهم من الامر شئ، فأما هؤلاء فإنهم يكونون من قريش يلون فيعدلون وقد وقعت البشارة بهم في الكتب المتقدمة ثم لا يشترط أن يكون متتابعين بل يكون وجودهم في الأمة متتابعا ومتفرقا، وقد وجد منهم أربعة على الولاء وهم أبو بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي رضي الله عنهم ثم كانت بعدهم فترة ثم وجد منهم من شاء الله، ثم قد يوجد منهم من بقي في الوقت الذي يعلمه الله تعالى، ومنهم المهدي الذي أسمه يطابق أسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وكنيته كنيته يملأ الأرض عدلا وقسطا كما ملئت جورا وظلما .
’’ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بارہ عادل خلیفہ ضرور ہوں گے۔ ان سے مراد شیعوں کے بارہ امام نہیں۔ کیونکہ ان میں سے اکثر کے پاس کوئی حکومت تھی ہی نہیں جبکہ جن بارہ خلفاء کا حدیث میں ذکر ہے، وہ قریش سے ہوں گے جو حاکم بن کر عدل کریں گے۔ ان کے بارے میں پہلی کتابوں میں بھی بشارت موجود ہے۔ پھر ان کا پے در پے آنا ضروری نہیں بلکہ امت میں ان کا وجود پے در پے بھی ہو گا اور وقفے وقفے سے بھی۔ ان میں سے چار پے در پے آئے۔ وہ سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم ہیں۔ ان کے بعد وقفہ ہوا اور پھر جتنے اللہ نے چاہے آئے، پھر ان میں سے جتنے باقی ہیں، وہ اللہ کے علم میں وقت مقررہ پر ضرور آئیں گے۔ انہی میں سے امام مہدی ہوں گے جن کا نام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اور کنیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت کے مطابق ہو گی۔ وہ ظلم وستم سے بھری ہوئی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ “ [تفسير ابن كثير :569، 568/4، تحت سورة النور : 55]
ایک مقام پر یوں فرماتے ہیں :
ولا تقوم الساعة حتى تكون ولايتهم لا محالة، والظاهر أن منهم المهدي المبشر به فى الأحاديث، بذكره انه يواطيء اسمه اسم النبى صلى الله عليه وسلم واسم ابيه اسم ابيه فيملا الارض عدلا وقسطا كما ملئت جوراً وظلماً، وليس هذا بالمنتظر الذى يتوهم الرافضة وجوده ثم ظهوره من سرداب سَامرّاء . فإن ذلك ليس له حقيقة ولا وجود بالكلية، بل هو من هَوَسِ العقول السخيفة، وَتَوَهُّم الخيالات الضعيفة، وليس المراد بهؤلاء الخلفاء الاثني عشر الأئمة الاثني عشر الذين يعتقد فيهم الاثنا عشرية من الروافض، لجهلهم وقلة عقلهم. وفي التوراة البشارة بإسماعيل، عليه السلام، وأن الله يقيم من صُلْبِه اثني عشر عظيما، وهم هؤلاء الخلفاء الاثنا عشر المذكورون فى حديث ابن مسعود، وجابر بن سَمُرة، وبعض الجهلة ممن أسلم من اليهود إذا اقترن بهم بعض الشيعة يوهمونهم أنهم الأئمة الاثنا عشر، فيتشيع كثير منهم جهلا وسَفَها، لقلة علمهم وعلم من لقنهم ذلك بالسنن الثابتة عن النبى صلى الله عليه وسلم.
’’ بلاشبہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک ان بارہ خلیفوں کی حکومت قائم نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ انہی میں سے امام مہدی ہوں گے جن کے بارے میں احادیث میں یہ موجود ہے کہ ان کا نام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے مطابق (محمد) اور ان کے والد کا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نام کے مطابق (عبداللہ ) ہو گا۔ وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ امام مہدی سے مراد وہ امام منتظر نہیں جس کے بارے میں رافضی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اب موجود ہے اور سامراء کے مورچے سے اس کا ظہور ہو گا۔ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں نہ اس کا قطعاً کوئی وجود ہے بلکہ یہ گندی ذہنیت کی ہوس اور کمزور خیالات کا وہم ہے۔ ان بارہ خلفاء سے مراد وہ بارہ امام نہیں جن کا اثنا عشری رافضی اپنی جہالت اور کم علمی کی بنا پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ تورات میں اسماعیل علیہ السلام کی بشارت کے ساتھ یہ بات بھی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے بارہ عظیم لوگ پیدا کرے گا۔ یہ وہی بارہ خلفاء ہیں جن کا ذکر سیدنا ابن مسعود اور سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے۔ یہودیت سے توبہ کر کے اسلام لانے والے بعض جاہل لوگوں سے جب کوئی شیعہ ملتا ہے تو وہ ان کو دھوکا دیتا ہے کہ ان سے مراد بارہ امام ہیں۔ ان میں سے اکثر جہالت اور بے وقوفی کی بنا پر شیعہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت احادیث کے بارے میں کم علم ہوتے ہیں اور ان کو ایسی تلقین کرنے والے بھی کم علم ہوتے ہیں۔ “ [تفسير ابن كثير : 504/3، تحت سورة المائدہ : 12]
امامیہ شیعوں کے ’’ امام غائب “ کے بارے میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واما الرافضة الامامية فلهم قول رابع وهو: أن المهدي هو محمد بن الحسن العسكري المنتظر, من ولد الحسين بن علي لا من ولد الحسن, الحاضر في الأمصار، الغائب عن الأبصار، الذي يورث العصا، ويختم الفضا، دخل سرداب سامراء طفلاً صغيرًا من أكثر من خمسمائة سنة، فلم تره بعد ذلك عين، ولم يُحس فيه بخبر ولا أثر، وهم ينتظرونه كل يوم ويقفون بالخيل على باب السرداب، ويصيحون به أن يخرج إليهم، اخرج يا مولانا! اخرج يا مولانا! ثم يرجعون بالخيبة والحرمان، فهذا دأبهم ودأبه، ولقد أحسن من قال:ما آن للسرداب أن يلد الذي … كلمتموه بجهلكم ما آنا؟ فعلى عقولكم العفاء فإنكم … ثلثتم العنقاء والغيلانا ولقد أصبح هؤلاء عارًا على بني آدم وضحكة يسخر منها كل عاقل .
’’ امامی رافضیوں کی ایک چوتھی بات یہ ہے کہ امام مہدی کا نام محمد بن حسن عسکری ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ وہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی نسل سے ہے، سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی نسل سے نہیں۔ وہ آبادیوں میں موجود ہے لیکن آنکھوں سے غائب ہے۔ وہ دنیا پر اپنی حکومت قائم کرے گا۔ وہ چھوٹا سا بچہ تھا جب وہ سامراء کے مورچے میں داخل ہوا تھا۔ یہ پانچ سو سال (اور اب سے کوئی بارہ سو سال ) پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد نہ کسی آنکھ نے اسے دیکھا ہے نہ اس کے بارے میں کوئی خبر ملی ہے نہ اس کا کوئی نشان ملا ہے۔ امامی شیعہ ہر روز مورچے کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرتے ہیں اور اسے آوازیں لگاتے ہیں کہ اے ہمارے مولیٰ تو نکل، اے ہمارے مولا تو نکل۔ پھر وہ ناکامی و نامرادی کے ساتھ واپس لوٹ جاتے ہیں۔ یہ ان کی اور ان کے امام منتظر کی روداد ہے۔ کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے :
ما آن للسرداب أن يلد الذي … كلمتموه بجهلكم ما آنا؟ فعلى عقولكم العفاء فإنكم … ثلثتم العنقاء والغيلانا
(ابھی وقت نہیں آیا، ابھی وقت نہیں آیا کہ مورچے سے وہ شخص پیدا ہو جس سے تم اپنی جہالت کی بنا پر باتیں کرتے ہو۔ تمہاری عقلوں پر مٹی پڑ گئی ہے اور تم عنقاء اور غیلان (عربوں کے ہاں دو وہمی و خیالی چیزوں ) کو تین کر رہے ہو۔) یہ لوگ بنی آدم کے لیے باعث عار اور ایسے بن گئے ہیں کہ کوئی عقل مند شخص ان کی بیوقوفی پر ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔ “ [المنار المنيف لابن القيم : 153]
دراصل عنقاء وہ پرندہ ہے جس کا نام لیا جاتا ہے، لیکن وجود نہیں ملتا۔ اسی طرح غیلان چڑیل کو کہتے ہیں جس کا نام تو ہے لیکن وجود کوئی نہیں، اسی طرح شیعوں کے مہدی اور امام غائب کا نام ہی ہے، وجود کوئی نہیں۔
٭سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لو لم يبق من الدهر الا يوم لبعث الله رجلا من اهل بيتي، يملاها عدلا كما ملئت جورا
’’ اگر زمانے کا ایک دن بھی باقی رہ گیا (اور امام مہدی نہ آئے ) تو اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو ضرور بھیجے گا جو ظلم سے بھری ہوئی زمین کو عدل سے بھر دے گا۔ “ [مسند احمد : 90/1، سنن ابي داود 4283، وسنده حسن]
٭ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
المهدي من عترتي من ولد فاطمة .
’’ امام مہدی میرے خاندان سے، فاطمہ (رضی اللہ عنہا ) کی اولاد سے ہوں گے۔ “ [سنن ابي داود 4284، سنن ابن ماجه : 4086]
٭ سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تقوم الساعة حتى تمتلئ الأرض ظلما وعدوانا – قال – ثم يخرج رجل من عترتى أو من أهل بيتى يملؤها قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وعدوانا
’’ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک زمین ظلم و زیادتی کے ساتھ بھر نہ جائے۔ پھر میری نسل یا میرے اہل بیت میں سے ایک آدمی نکلے گا جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف کے ساتھ بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و زیادتی کے ساتھ بھری ہوئی تھی۔ “ [مسند احمد : 36/3، وسنده صحيح]
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [2823] نے ’’صحیح“ اور امام حاکم رحمہ اللہ [المستدرک 557/4] نے امام بخاری و مسلم کی شرط پر ’’ صحیح“ کہا: ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
مسند احمد اور صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
يملك سبع سنين
’’ امام مہدی سات سال حکومت کریں گے۔ “ [مسند الإامام أحمد : 17/3، صحيح ابن حبان: 6826، وسنده حسن]
ان تمام احادیث کے خلاف رافضیوں کا کہنا ہے کہ مہدی کا نام محمد بن حسن عسکری ہے۔ وہ اس کے نام کی پکار بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں : يا صاحب الزمان، الغوث الغوث الغوث، ادركني ادركني ادركني وغیرہ۔
یہ لوگ اس کا نام پکارنا جائز نہیں سمجھتے بلکہ المہدی، القائم، المنتظر، صاحب الزمان، صاحب الامروالحاحۃ والخاتم اور صاحب الدار کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس کو نقمہ بھی کہا جاتا ہے۔ [روضة الكافي للكليني، ص : 195]
ان کے نزدیک امام مہدی کا نام لیناجائز نہیں۔ ان کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے :
ولا يحل ذكره باسمه
’’ امام مہدی کا نام لے کر اس کا ذکر کرنا جائز نہیں۔ “ [اصول الكافي : 333/1، الارشاد، ص: 394، اكمال الدين لابن بابويه، ص: 608]
جو شیعہ مہدی کا نام لے لے وہ کافر ہو جاتا ہے، کہتے ہیں :
صاحب هذا الامر، لا يسميه باسمه الا كافر
’’ صاحب ہذا الامر، اس کا نام کافر ہی لیتا ہے۔ “ [اصول الكافي : 333/1]
اگر کہیں مہدی کا نام لکھنا پڑے تو شیعہ اس کا نام حروف مقطعات کے ساتھ لکھتے ہیں، مثلاً م ح م د۔ [اصول الكافي : 339/1]
شیعہ اپنے مہدی کے بارے میں کہتے ہیں کہ 255ھ میں اس کی ولادت ہوئی اور 260ھ میں وہ غائب ہو گیا، کہتے ہیں :
يشهد الموسم فيراهم، ولا يرونه
’’ مہدی حج کے لیے آتا ہے۔ وہ ان کو دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن وہ اسے نہیں دیکھ پاتے۔ “ [اصول الكافي : 337/1، 338، الغيبة للنعماني، ص:116]
مشہو رشیعہ الفیض کاشانی (م : 1091ھ ) نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں لکھا ہے :
لو قام قائمنا رد الحميراء عائشة حتي يجلدها الحد
’’ اگر ہمارا مہدئ منتظر آ گیا تو وہ حمیراء عائشہ کو قبر سے واپس نکال کر اس پر حد قائم کرے گا۔ “ [التفسير الصافي للفيض الكاشاني: 359/3، نور اليقين للمجلسي: ص 347]
نعوذباللہ ! کتنے خبیث اور بدباطن ہیں یہ لوگ جو نبی طاہر و مطہر کی ازواج مطہرات پر بھی کیچڑ اچھالنے سے باز نہیں آتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں بیان کر دی لیکن رافضی جھوٹے اور ظالم ان پر حد قائم کرنے کا سوچتے ہیں۔ انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ [16-النحل:105]
’’ جھوٹ وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔ “
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان کے ’’ امام زمان“ کے بارے میں لکھتے ہیں :
فليس فيهم احد يعرفه لابعينه ولا صفته، لكن يقولون: ان هذا الشخص الذي لم يره احد، ولم يسمع له خبر، هو امام زمانهم، ومعلوم ان هذا ليس هو معرفة بالامام . . . .
’’ ان میں سے کوئی بھی اسے پہچانتا نہیں، نہ اسے کسی نے دیکھا ہے نہ اس کی کوئی صفت کسی کو معلوم ہے بلکہ کہتے ہیں کہ وہ ایسا شخص ہے جسے کسی نے دیکھا نہیں نہ اس کی کوئی خبر سنی ہے۔ وہ ان کا امام زمان ہے حالانکہ معلوم ہے کہ یہ امام کی پہچان نہیں ہے۔ “ [منهاج السنة النبوية لابن تيمية: 114/1]
شیخ الاسلام رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
ويقولون: انما كانو علي الحق لان فيهم الامام المعصوم، والمعصوم عند الرافضة الامامية الاثني عشرية هو الذي دخل الي سرداب سامراء بعد موت ابيه الحسن بن علي العسكري سنة ستين وماتين، وهو الي الان غائب، لم يعرف له خبر، ولا وقع له احد علي عين ولا اثر .
’’ رافضی کہتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں کیونکہ ان میں امام معصوم موجود ہے۔ رافضی امامی اثنا عشری شیعوں کے نزدیک معصوم وہ ہے جو اپنے والد کی وفات کے بعد 260ھ میں سامراء کے مورچے میں داخل ہو گیا اور اب تک غائب ہے۔ اس کی کوئی خبر معلوم نہیں ہوئی نہ کسی کو اس کا کوئی نشان ملا ہے۔ “ [مجموع الفتاوي لابن تيمية: 452/27]
کیا امام مہدی اور عیسیٰ بن مریم ایک ہیں ؟
وكذب، فالمهدي عيسىٰ عليه السلام
’’ اس نے جھوٹ بولا ہے کیونکہ امام مہدی عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔ “ [الاعتصام للشاطبي: 92/2، وفي نسخة: 585/2]
لیکن یہ بات بے دلیل ہونے اور صحیح احادیث و آثار کے خلاف ہونے کی بنا پر مردود و باطل ہے۔ علامہ شاطبی رحمہ اللہ سے ایک صدی پہلے ہی مشہور مفسر علامہ شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی رحمہ اللہ (600۔ 671ھ ) فرما گئے تھے :
وقيل المهدي هو عيسيٰ فقط، وهو غير صحيح، لان الاخبار الصحاح قد تواترت على ان المهدي من عترة رسول الله صلى الله عليه وسلم فلا يجوز حمله على عيسىٰ
’’ کہا گیا ہے کہ امام مہدی، عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔ لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ صحیح احادیث اس بارے میں تواتر کے درجے تک پہنچ گئی ہیں کہ مہدی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ہوں گے، لہٰذا امام مہدی کو عیسیٰ علیہ السلام قرار دیناجائز نہیں۔ “ [تفسير القرطبي:122/8]
’’ عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کوئی مہدی نہیں۔ “ [سنن ابن ماجه 4039، حلية الاولياء لابي نعيم: 161/9، المستدرك علي الصحيحين للحاكم: 441/4، جامع بيان العلم و فضله لابن عبدالبر: 155/1، تاريخ بغداد للخطيب: 221/4]
الجواب : لیکن یہ روایت دو وجہ سے ’’ضعیف“ ہے :
(1) اس کا راوی محمد بن خالد الجندی ’’ مجہول“ ہے۔
اس کو امام حاکم رحمہ اللہ (تاریخ ابن عساکر : 517/47) امام بیہقی رحمہ اللہ [بیان خطا للبیہقی : 299] نے ’’ مجہول“ کہا ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے تو یہ بھی لکھا ہے :
لم يعرف بما تثبت به عدالته ويوجب قبول خبره
’’ اس کی معرفت نہیں ہوئی جس کے ذریعے اس کی عدالت ثابت ہو اور اس کی حدیث کو قبول کرنا واجب ہو۔ “
کسی ایک بھی ثقہ امام سے اس کی توثیق ثابت نہیں۔ البتہ امام ابن عبدالبرا رحمہ اللہ نے اسے ’’ متروک“ ضرور کہا ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولسنا نقبل رواية المجهولين
’’ ہم مجہول راویوں کی روایات قبول نہیں کرتے۔ “ [كتاب القراءت للبيهقي: 197]
نیز فرماتے ہیں :
ولسنا نقبل دين الله تعالىٰ عمن لا يعرفه اهل العلم بالحديث بالعدالة ولا احتج به احد من المتقدمين من علماء اهل الكوفة
’’ ہم اللہ کا دین ان لوگوں سے نہیں لیتے جن کی عدالت کو محدثین کرام نہیں جانتے۔ متقدمین علمائے کوفہ میں سے بھی کسی نے ایسے راویوں سے حجت نہیں پکڑی۔ “ [كتاب القراءت للبيهقي: ص 181، 180، تحت الحديث 392]
(2) اس کی سند میں امام حسن بصری رحمہ اللہ ’’مدلس“ ہیں۔ انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
اس حدیث کو ائمہ حدیث نے قبول نہیں کیا جیسا کہ :
(۱) علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام نسائی کا یہ قول ذکر کرتے ہیں :
هذا حديث منكر
’’ یہ حدیث منکر ہے۔ “ [العلل المتناهية لابن الجوزي:862/2 ح 1447]
(۲) امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا الحديث ان كان منكرا بهذا الاسناد، فالحل فيه على محمد بن خالد الجندي
’’ اگر یہ حدیث اس سند کے ساتھ منکر ہے تو اس کی ذمہ داری محمد بن خالد پر پڑتی ہے۔ “ [بيان خطا للبيهقي]
(۳) حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو خبر منكر ’’ یہ حدیث منکر ہے۔ “ [ميزان الاعتدال للذهبي : 535/3]
(۴) علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
غير صحيح ’’ یہ حدیث صحیح نہیں۔ “ [تفسیر قرطبی : 122/8]
(۵) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف ’’ یہ روایت ضعیف ہے۔ “ [منهاج السنۃ النبویۃ لابن تیمیۃ : 211/4]
(۶) علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وانه لا يصح، ولو صح لم يكن فيه حجة
’’ یہ حدیث ثابت نہیں، اگر ثابت بھی ہو تو اس میں کوئی دلیل موجود نہیں۔ “ [المنار المنيف لابن القيم : 148]
(۷) علامہ صنعانی رحمہ اللہ نے اسے ’’ موضوع“ (من گھڑت ) قرار دیا ہے۔ [الفوائد المجموعة للشوکانی: ص 510]