ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے ساتھ پڑھنا کیسا ہے؟
رَوَى مَالِكٌ بِسَنَدِهِ إِلَى مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ الله الله عَامَ تَبُوكَ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فَأَخَرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظهرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ دَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا ….. الْحَدِيثَ .
امام مالک نے حضرت معاذ بن جبل کے حوالے سے روایت کیا ہے ”وہ (یعنی صحابہ کرام ) رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تبوک کے سال روانہ ہوئے اس سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر عصر اور مغرب عشاء کو جمع کر کے پڑھ لیا تھا کسی روز آپ نماز کو مؤخر کر دیتے پھر روانہ ہوتے ظہر اور عصر کو جمع کر لیتے پھر داخل ہوتے پھر روانہ ہوتے تو مغرب اور عشاء کو جمع کر لیتے۔“
تحقيق و تخریج:

مسلم: 706
فوائد:

➊ ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے ساتھ پڑھنا یا ظہر اول وقت میں اور عصر کی نماز بھی اسی وقت میں پڑھنا دونوں طرح درست ہے ۔
➋ صحیح قول یہ ہے کہ جمع حقیقی جائز ہے ۔
➌ نماز مغرب اور نماز عشاء کو مذکورہ انداز میں جمع کرنا بھی جائز ہے ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: