سوال :
ایک عورت نے طلاق لیے بغیر دوسرے آدمی سے نکاح کر لیا ہے اور نکاح کے بعد عدالت میں پہلے شوہر سے طلاق کے لیے خلع کی ڈگری لینے کی درخواست دے دی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب :
سائل کی تحریر اور زبانی گفتگو سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان کی منکوحہ نے گھر سے فرار اختیار کر کے طلاق لیے بغیر دوسرے آدمی سے نکاح کیا، پھر اپنے اس عیب پر پردہ ڈالنے کے لیے عدالت میں ضلع کی درخواست دائر کی۔ اس کا یہ کام کسی طرح بھی جائز نہیں، کیونکہ نکاح کے بعد عورت پر اپنے خاوند کی اطاعت لازمی ہے، وہ اس کے گھر کی راعیہ اور نگہبان ہے، خاوند کی غیر موجودگی میں اس کے مال اور عفت کی حفاظت اس کے ذمہ ہوتی ہے، کیا کئی ایک نفلی عبادات بھی خاوند کی اجازت ہی سے سرانجام دے سکتی ہے، اگر خاوند اجازت نہ دے تو نفلی عبادات بھی نہیں کر سکتی، اس سلسلے کی چند ایک نصوص ملاحظہ ہوں:
① سیدنا حسین بن محسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری پھوپھی نے بیان کیا کہ وہ کسی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا: ”یہ عورت کون ہے، کیا خاوند والی ہے؟“ میں نے کہا: ”جی ہاں!“ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے خاوند کے حقوق ادا کرنے میں کیسی ہو؟“ وہ کہنے لگی: ”میں نے اس کی اطاعت میں کوتاہی نہیں کی، سوائے ان امور کے جنھیں ادا کرنے سے میں عاجز ہو جاؤں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فانظرى أين أنت منه فإنما هو جنتك ونارك
(مسند حمیدی (335)، حاکم (189/2، ح : 2769))
”غور کر لو تم اس کی نسبت کہاں ہو؟ وہ تیری جنت بھی ہے اور جہنم بھی۔“
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جو عورت خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری کرتی ہے، وہ جنت حاصل کر لیتی ہے اور جو خاوند کو ضرر و تکلیف دیتی ہے، وہ جہنم میں جا گرتی ہے۔
② رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لا يحل للمرأة أن تصوم وزوجها شاهد إلا بإذنه
(بخاری، کتاب النکاح، باب لا تأذن المرأة في …. الخ (5195)، مسلم (1026))
”کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ (علاوہ رمضان کے) خاوند کی اجازت کے بغیر روزے رکھے، جب کہ اس کا خاوند پاس موجود ہو۔“
③ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إياكم والدخول على النساء فقال رجل من الأنصار يا رسول الله ! أفرأيت الحمو؟ قال الحمو الموت
(بخاري، كتاب النكاح، باب لا يخلون رجل …… الخ (5232)، مسلم (2172))
”غیر عورتوں کے ہاں جانے سے بچو۔“ ایک انصاری نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! دیور مجیٹھ وغیرہ کے بارے میں بتائیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو موت ہے۔“ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کا اپنے دیور و جیٹھ وغیرہ کے پاس تنہائی و خلوت میں رہنا حرام ہے تو غیر آدمی کے ساتھ فرار ہو جانا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
④ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تأذن فى بيت زوجها وهو كاره ولا تخرج وهو كاره ولا تطيع فيه أحدا
(بہیقی (293/7، ح : 14715)، المستدرک (189/2، ح : 2770) یہ حدیث شواہد کی بنا پر حسن ہے)
”کسی عورت کے لیے حلال نہیں، جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں کسی ایسے شخص کو داخل ہونے دے جس کو اس کا خاوند پسند نہیں کرتا اور نہ وہ گھر سے نکلے جب خاوند پسند نہیں کرتا ہو اور اس معاملے میں کسی کی اطاعت نہ کرے۔“
اس کا ایک شاہد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مسند طیالسی (1951)، بہیقی (392/7) اور التمہید (231/1) میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے:
ولا تخرج من بيته إلا بإذنه فإن فعلت لعنها الملائكة، ملائكة الغضب وملائكة الرحمة حتى تتوب أو ترجع قبل ولد كان ظالما؟ قال وإن كان ظالما
” عورت خاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر نہ نکلے، اگر ایسا کرے گی (یعنی اجازت کے بغیر چلی جائے گی) تو اس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں، غضب کے فرشتے بھی اور رحمت کے فرشتے بھی، یہاں تک کہ وہ توبہ کرے یا واپس آجائے۔“ کہا گیا: ”اگر خاوند ظالم ہو تب بھی؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ خاوند ظالم ہی کیوں نہ ہو۔“
اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بھی یہی بات موجود ہے جو کشف الاسرار عن زوائد البزار (177/2) میں موجود ہے۔ ان شواہد کی بنیاد پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت حسن ہے اور اس بات پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی اور اگر ایسا کرے گی تو اللہ کے غضب اور رحمت والے فرشتوں کی لعنت کی حقدار بنے گی اور فعل حرام کا ارتکاب کرے گی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يحل للزوجة أن تخرج من بيتها إلا بإذنه ولا يحل لأحد أن يأخذها إليه ويحبسها عن زوجها سواء كان ذلك لكونها مرضعا أو لكونها قابلة أو غير ذلك من الصناعات وإذا خرجت من بيت زوجها بغير إذنه كانت ناشزة عاصية له ولرسوله ومستحقة للعقوبة
(مجموع الفتاویٰ (281/32))
”عورت کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا حلال نہیں اور کسی دوسرے کے لیے بھی حلال نہیں کہ وہ اسے اپنے پاس روک لے اور اسے اس کے شوہر کے پاس نہ جانے دے، خواہ یہ روکنا دودھ پلانے کی غرض سے ہو، یا دایہ کے کام کے لیے، یا دیگر کسی کام کی غرض سے ہو۔ جب وہ گھر سے شوہر کی اجازت کے بغیر نکلے گی تو خاوند کی نافرمان ہوگی، اللہ اور اس کے رسول کی نافرمان اور مستحق عقوبت و سزا ہوگی۔“
بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ بھی فرماتے ہیں:
إذا خرجت من داره بغير إذنه فلا نفقة لها ولا كسوة
”جب شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر نکل جائے تو ایسی عورت کے لیے خرچہ و لباس بھی مرد کے ذمہ نہیں ہے۔“
مذکورہ دلائل سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی۔ اگر کبھی رات یا دن کو چوری چھپے فرار اختیار کر لیا تو فعل حرام کی مرتکب ہو کر مستحق عقوبت ہوگی۔ چوری چھپے فرار ہوتا تو جرم تھا ہی، اس کے ساتھ یہ جرم بہت بڑا ہے کہ عورت پہلے خاوند سے طلاق لیے بغیر نیا نکاح کرے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں محرمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ﴾ (النساء : 24)
”شادی شدہ عورتوں کے ساتھ نکاح کرنا بھی حرام ہے۔“
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنے تفسیر میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
أى وحرم عليكم الأجنبيات المحصنات وهن المزوجات
(تفسیر ابن کثیر (224/2))
یعنی ”تم پر اجنبی شادی شدہ عورتیں بھی حرام ہیں۔“
شادی شدہ عورت سے نکاح تو درکنار اگر کسی عورت کی منگنی کسی آدمی سے ہو چکی ہو تو جب تک وہ معاملہ صاف نہیں ہو جاتا دوسرا آدمی نکاح کا پیغام بھی نہیں دے سکتا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يخطب الرجل على خطبة أخيه حتى ينكح أو يترك
(بخاري، كتاب النكاح، باب لا يخطب على خطبة أخيه الخ (5144)، مسلم، كتاب النكاح باب تحريم الخطبة – الخ (1413/52))
”کوئی آدمی اپنے بھائی کی منگنی پر پیغام نکاح نہ دے، یہاں تک کہ وہ نکاح کرے یا چھوڑ دے۔“
معلوم ہوا کہ شادی شدہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے۔ مذکورہ شخص اور عورت زنا کا ارتکاب کر رہے ہیں اور ایسے لوگوں پر شرعی حد قائم ہونی چاہیے جو ایک اسلامی حکمران پر لازم ہے۔ اور پھر یہ بات تو بالکل میاں بیوی ظاہر ہے کہ آپ کے سسرال نے طلاق لیے بغیر اپنی لڑکی کا آگے نکاح کر دیا اور وعدہ خلافی کا ارتکاب کرنا بھی شرعاً حرام ہے۔ اسی طرح کورٹ کا اس طرح کی ذکر کردہ صورت میں تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کرنا بھی درست نہیں، کیونکہ لڑکی اور لڑکا زنا کا ارتکاب کر رہے ہیں اور آپ کے سسرال نے اپنے عیب پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ ساری کارروائی کی ہے جو بالکل حرام و ناجائز ہے۔ لہٰذا اس میں شریک تمام افراد گناہ پر تعاون کی وجہ سے مستحق عقوبت ہیں اور یہ کام تو حاکم وقت کا تھا، لیکن افسوس ہمارے ہاں اسلامی نظام کا نفاذ نہیں اور حکمران بھی فساق و فجار اور بعض کفر بواح کے مرتکب ہیں۔ یہ معاملہ تو اسلامی حکومت کا تھا، اگر دنیا میں حل نہ ہوا تو متعلقین عنداللہ ضرور اپنے جرم کی سزا پائیں گے۔