سوال :
گزارش ہے کہ میری بیٹی ثمرہ سلیم کو طلاق ہو گئی ہے۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ شادی کے موقع پر دیے گئے پارچہ جات اور زیورات جو میری بیٹی سسرال سے آتے ہوئے لے آئی تھی، کیا وہ اس کا حق ہے، یا اسے لوٹانے ہوں گے؟
جواب :
صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ اگر یہ زیورات شوہر نے ثمرہ سلیم کو بطورِ حقِ مہر ادا کیے تھے تو وہ ان کو واپس طلب کرنے کا مجاز نہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَّآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚ أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَّإِثْمًا مُّبِينًا﴾
(النساء: 20)
”اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہو اور ان میں سے کسی کو تم نے خزانہ بطور حق مہر دے رکھا ہو تو بھی تم اس میں سے کچھ نہ لو، کیا تم اسے ناحق اور کھلا گناہ ہونے کے باوجود بھی لے لو گے؟“
حق مہر کے متعلق نازل ہونے والی اس آیت سے معلوم ہوا کہ شوہر بیوی کو حق مہر ادا کرنے کے بعد لینے کا حق دار نہیں ہے۔ تفصیل تفسیر ابنِ کثیر (1/633) میں موجود ہے۔
اور اگر یہ زیورات خاوند نے ثمرہ سلیم کو بطور ہدیہ و تحفہ دیے تھے تو بھی واپس لینے کا مجاز نہیں، دلیل کے لیے حدیث نبوی ملاحظہ ہو:
العائد فى هبته كالكلب يعود فى قيئه ليس لنا مثل السوء
(بخاری، کتاب الحیل، باب في الهبة والشمعة 6975)
”اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے خود چاٹ جاتا ہے۔ ہمارے لیے بری مثال نہیں۔“
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ تحفہ پر قبضہ ہو جانے کے بعد اسے واپس لینا حرام اور ناجائز ہے۔ ہاں، اگر شوہر نے یہ زیورات اپنی بیوی ثمرہ سلیم کو بطورِ استعمال کے دیے تھے، نہ کہ حقِ مہر اور تحفہ کے طور پر تو پھر وہ واپس طلب کر سکتا ہے، کیونکہ اس صورت میں ان زیورات کا مالک شوہر ہے نہ کہ بیوی۔