طلاق کی قسم اٹھانے یا اس کو کسی شرط کے ساتھ معلق کرنے کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال:

ایک شخص نے اپنی بیوی کو کہا: مجھ پر تمہیں طلاق دینا واجب ہو گا ، اگر تم فلاں جگہ جاؤ گی ، تو جب بیوی اس جگہ جائے گی تو اس پر کیا حکم لگے گا؟ واضح ہو کہ اس کی نیت لفظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے ؟

جواب:

مذکورہ شخص کا یہ کہنا: علي الطلاق (مجھ پر طلاق دینا واجب ہے ) یہ طلاق دینے کی قسم ہے اور طلاق دینے کی قسم اٹھنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ، الا یہ کہ وہ طلاق کا قصد و ارادہ بھی کرے ، پس جب وہ طلاق کی نیت سے یہ الفاظ بولے: گا تو طلاق واقع ہو جائے گی ۔
بلاشبہ علماء نے طلاق کی دوقسمیں بنائی ہیں:
➊ طلاق سنی ۔
➋ طلاق بدی ۔
چنانچہ طلاق سنی وہ ہے جو سنت کے مطابق دی گئی ہو ، اور طلاق بدی وہ ہے جو سنت کے خلاف ہو ۔ اور علماء کا اس پر تو اتفاق ہے کہ مسلمان کے لیے طلاق بدعی دیناجائز نہیں ہے ، مگر طلاق بدی کے واقع ہونے میں انہوں نے اختلاف کیا ہے ۔ اور گواہی قائم کرنا بھی طلاق سنی کی شرطوں میں شامل ہے ۔

(محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: