صلح ، قیدی اور غلامی کے شرعی احکام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

عربوں کو غلام بنانا جائز ہے
لغوی وضاحت: قیدی کو عربی میں اُسير کہتے ہیں۔ اس کی جمع أسرى ، اُسَرَاء ، أَسَارَى ، أَسَارَي وغیرہ آتی ہے ۔ سبي قیدی عورت کو کہتے ہیں ۔ باب سَبي استبى (ضرب ، استفعال ) قید کرنا ۔ اسی طرح باب أَسَرَ اسْتَأثَرَ (ضرب ، استفعال ) قید کرنا ۔
[المعجم الوسيط: ص / 17 ، ص / 415]
اصطلاحی تعریف: ایسے مرد جو جنگ میں مسلمانوں کے غلبے کی وجہ سے ہاتھ لگیں ۔ اس کا اطلاق عورتوں اور بچوں پر بھی ہوتا ہے ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 369/6]
جاسوس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو خبروں کی تفتیش کرتے ہیں ۔ اس کی جمع جواسيس ہے ۔ باب جس ، تجَمْسَ ، اجتس (نصر ، تفعل ، افتعال ) تفتیش کرنا ، جاسوسی کرنا ۔
[المعجم الوسيط: ص / 122]
لغوی وضاحت: عربی میں صلح کے لیے الهدنة کا لفظ مستعمل ہے اس کی جمع هدن آتی ہے ۔ باب هَادَنَ ، تَهَادَنَ (مفاعلة ، تفاعل ) باہم صلح کرنا ۔
[المعجم الوسيط: ص / 978 ، المصباح: 983]
اصطلاحی تعریف: اہل حرب کا قتال ترک کرنے پر معین مدت تک عوض یا کسی اور چیز کے ساتھ باہم صلح کر لینا ۔
(جمہور ) صلح کا معاہدہ کرنے والا حکمران یا اس کا نائب ہو گا ورنہ صلح کا معاہدہ صحیح نہیں ہو گا ۔
(احناف ) مسلمانوں کی ایک جماعت جب حاکم کی اجازت کے بغیر یہ معاہدہ کرے اور اس میں تمام مسلمانوں کی مصلحت بھی ہو تو یہ معاہدہ درست ہو گا کیونکہ اصل مقصود مصلحت کا وجود ہے جو کہ اس میں موجود ہے اور اس لیے بھی درست ہے کہ مصالحت ایک امان ہے اور ایک آدمی کی امان جماعت کی امان کی طرح ہے ۔
[آثار الحرب: ص / 662 ، بدائع الصنائع: 108/7 ، حاشية الدسوقى: 189/2 ، معنى المحتاج: 260/4 ، المغنى: 462/8 ، الفروق: 207/1]
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً [محمد: 4]
”مضبوط قید و بند سے گرفتار کر لو (پھر اختیار ہے کہ ) خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے لو ۔“
➋ مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ ہوازن قبیلے کا ایک مسلمان وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر اپنے اموال اور قیدی خواتین و اولاد کی واپسی کا سوال کرنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أحب الحديث إلى أصدقه فاختاروا بعدى الطائفتين إما السبى وإما المال
”میرے لیے زیادہ پسندیدہ بات وہ ہے جو سب سے زیادہ سچی ہو لٰہذا تم دونوں حصوں میں سے کوئی ایک اختیار کر لو یا قیدی یا مال ۔“
[بخاري: 2307 ، 2308 ، كتاب الوكالة: باب إذا وهب شيئا لوكيل أو شفيع قوم جاز ، ابو داود: 2693 ، احمـد: 326/4]
وفد ہوازن کے یہ قیدی یقیناً عرب قبائل میں سے تھے ۔
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بنو تمیم قبیلے کی ایک لونڈی تھی ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ اسماعیل کی اولاد سے ہی ہے ۔“
[بخاري: 2543 ، 4366 ، مسلم: 2525 ، احمد: 390/2]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ اس لیے کہا تھا کیونکہ انہوں نے نذر مانی تھی کہ وہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ایک غلام آزاد کریں گی ۔
[مجمع الزوائد: 50/10 ، طبراني أوسط: 7967 ، نيل الأوطار: 71/5 ، طبراني كبير: 231/4]
قبیلہ بنو تمیم بھی عرب کا معروف قبیلہ ہے ۔
➍ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جویریہ بنت حارث قبیلہ بنو مصطلق کے قیدیوں میں تھیں ۔ انہوں نے اپنے مالک سے اپنے بارے میں مکاتبت کا معاملہ طے کر رکھا تھا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (جویریہ بنت حارث ) سے اس شرط پر شادی کر لی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طے شدہ رقم ادا کر دیں گے ۔ آپ نے جب ان سے شادی کر لی تو لوگوں نے کہا یہ تو اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار ہیں اس لیے انہوں نے وہ تمام قیدی لونڈیاں جو (اس قبیلے کی ) ان کے پاس تھیں آزاد کر دیں ۔
[بخاري: 2541 ، مسلم: 1356 ، ابو داود: 3931 ، بيهقى: 24/9 ، حاكم: 26/4 ، احمد: 277/6]
(جمہور ) عربوں کو غلام بنانا جائز ہے ۔
(احناف ) عرب کے مشرکین سے اسلام یا تلوار کے سوا کوئی چیز قبول نہیں کی جائے گی ۔
[فتح الباري: 479/5 ، الأم: 467/5 ، بيهقى: 73/9 ، نيل الأوطار: 73/5 ، الروضة الندية: 751/2]
(راجح ) عربوں کو غلام بنانا جائز ہے کیونکہ کافر قیدیوں کو قتل کرنا ، ان سے فدیہ لینا یا احسان کرتے ہوئے چھوڑ دینا اور غلام بنا لینا سب شریعت میں ثابت ہے ۔ اب جو شخص بعض کافروں کو ان اُمور میں دوسروں سے خاص کرتا ہے تو اس کا یہ دعویٰ بغیر ثبوت کے قبول نہیں کیا جائے گا ۔
[نيل الأوطار: 74/5 ، الروضة الندية: 752/2]
❀ جس روایت میں مذکور ہے کہ :
لو كان الاسترقاق جائزا على العرب لكان اليوم إنما هو أسرى
”اگر عربوں کو قیدی بنانا جائز ہوتا تو وہ آج قیدی ہی ہوتے ۔“ وہ ضعیف ہے ۔
[بيهقي: 74/9 ، اس كي سند ميں واقدي راوي ضعيف هے ۔ امام بخاريؒ نے اسے متروك الحديث قرار ديا هے ۔ امام ابو حاتمؒ نے اسے متروك كها هے ۔ امام ابن معينؒ نے كها هے كه يه ثقه نهيں هے ۔ امام دارقطنيؒ نے كها هے كه اس ميں ضعف هے ۔ امام نسائيؒ نے كها هے كه يه متروك هے ، حديثيں گهڑتا هے ۔ المجروحين: 290/2 ، الجرح والتعديل: 20/8 ، ميزان الاعتدال: 662/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے