وعن ابن عباس قال: كنت خلف النبى صلى الله عليه وآله وسلم يوما فقال: يا غلام احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده تجاهك وإذا سالت فاسال الله وإذا استعنت فاستعن بالله . رواه الترمذي وقال: حسن صحيح.
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (سوار) تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے لڑکے! اللہ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا۔ اللہ کا دھیان رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا اور جب سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ۔“ (اسے ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا یہ حسن صحیح ہے۔ )
تخریج : صحیح، [ترمذي 2516] اور دیکھئے [صحيح الترمذي 2043]
ترمذی میں بقیہ حدیث یہ ہے ”اور جان لے کہ اگر امت اس بات پر جمع ہو جائے کہ تجھے کوئی فائدہ پہنچائیں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے، مگر جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ جمع ہو جائیں کہ تجھے کوئی نقصان پہنچائیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، مگر جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے قلم خشک ہو گئے اور صحیفے لپیٹ دیے گئے۔“
فوائد :
➊ اللہ کا دھیان رکھ۔ یعنی اللہ کی حدود، اس کے احکام، اس کی منع کی ہوئی چیزوں اور اس کے ساتھ کیے ہوئے عہد و پیمان کا دھیان رکھ۔ اللہ کی حد آ جائے تو اس سے آگے مت بڑھ، حکم آ جائے تو اس پر عمل کر، وہ منع کر دے تو رک جا۔ غرض ہر کام کرتے وقت اللہ تعالیٰ انسان کی یاد میں رہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا :
وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّـهِ [9-التوبة:112]
”اور وہ جو اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“
اور فرمایا :
هَـذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ [50-ق:32]
”یہ وہ ہے جس کا تو وعدہ دیئے جاتے ہو ہر رجوع کرنے والے حفاظت کرنے والے کے لیے۔“
اہل علم نے یہاں حفيظ کا مطلب بیان فرمایا : ”اللہ کے احکام کی حفاظت کرنے والا“
بعض نے فرمایا : ”اپنے گناہوں کا دھیان رکھنے والا یعنی اگر کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً پلٹ آتا ہے۔“
➋ ”وہ تیرا دھیان رکھے گا۔“ جس طرح فرمایا :
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [2-البقرة:152]
”تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔“
اللہ تعالیٰ بندے کا دھیان دنیا کے معاملے میں بھی رکھتا ہے اور آخرت کے معاملے میں بھی دنیا میں اسے اس کے جسم میں اہل و عیال میں اور مال و اولاد میں عافیت دیتا ہے فرشتے ہر تکلیف دہ چیز سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ إِنَّ اللَّـهَ [13-الرعد:11]
”اس کے لیے باری باری (حفاظت کے لئے) آنے والے ہیں اس کے آگے اور اس کے پیچھے جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔“
آخرت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ بندے کے دین و ایمان کی حفاظت رکھتا ہے اسے گمراہ کن خواہشات و نظریات و اعمال سے محفوظ رکھتا ہے، اسے ایمان کی حالت میں موت دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا پورا ادراک ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ کس طرح ہماری حفاظت فرما رہا ہے۔
➌ ”تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ “ جب بندہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے اس کے احکام کی اطاعت اور اس کی حدود کی حفاظت کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے پاتا ہے اسے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت میرے ساتھ ہے۔ اس کی مدد ہر وقت اس کے شامل حال ہوتی ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ ہر بندے کے ہی ساتھ ہے جیسے فرمایا :
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [57-الحديد:4]
”اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو اور اللہ تعالیٰ اس کو دیکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔“
مگر یہ خاص معیت ہے جو اللہ کو یاد رکھنے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ جیسے فرمایا :
لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا [9-التوبة:40]
”کچھ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“
اور فرمایا :
لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى [20-طه:46]
”تم مت ڈرنا بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔“
اس معیت سے مراد خاص حفاظت اور نصرت ہے۔
➍ جب سوال کرے تو اللہ سے سوال کر۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سوال سے خوش ہوتا ہے۔ سوال نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من لم يسال الله يغضب عليه ”جو اللہ سے سوال نہ کرے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔“ [صحيح الترمذي عن ابي هريره رضى الله عنه 2682]
اس کے برعکس بندوں سے مانگیں تو وہ ناراض ہوتے ہیں۔
الله يغضب ان تركت سواله … وتري ابن آدم حين يسئل يغضب
”اللہ تعالیٰ غصے ہوتا ہے اگر تم اس سے سوال کرنا چھوڑ دو اور ابن آدم کو دیکھو گے کہ وہ اس وقت غصے ہو گا جب اس سے سوال کیا جائے۔“
ایک اور شاعر نے کہا ہے۔
ابا مالك لا تسال الناس والتمس
بكفيك فضل الله فالله اوسع
ولوسئل الناس التراب لاوشكوا
اذا قيل هاتوا ان يملوا ويمنعوا
”اے ابومالک لوگوں سے سوال مت کر اور دونوں ہاتھوں سے اللہ کا فضل مانگ کیوں کے اللہ سب سے وسعت والا ہے لوگوں سے تو اگر مٹی کا سوال کیا جائے تو جلد ہی ان کا یہ حال ہو جائے گا کہ مانگنے پر اکتا کر مٹی دینے سے بھی انکار کر دیں گے۔“
➎ وہ چیزیں جو صرف اللہ کے اختیار میں ہیں مثلاً ہدایت، صحت، دولتمندی، اولاد، فتح و نصرت وغیرہ ان سب کا سوال صرف اللہ سے جائز ہے اور ان چیزوں میں مدد بھی اللہ سے ہی مانگی جائے گی۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ [1-الفاتحة:2] ”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“ غیر سے مانگے گا تو مشرک ہو جائے گا۔ اور جو چیزیں بندوں کے اختیار میں ہیں یا اس کا دوسرے پر حق ہیں مثلاً کسی کے پاس کھانے کی چیز موجود ہے تو مانگ لینا کوئی شخص کسی ظالم کا ظلم دور کرنے میں یا کسی اور کام میں مدد کر سکتا ہے تو اس سے مدد مانگ لینا جائز ہے جیسا کہ موسیٰ اور خضر علیہ السلام نے بستی والوں سے کھانا مانگا تھا اور عیسی بن مریم علیہ السلام نے فرمایا تھا : مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ [3-آل عمران:52] ”کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں“ کیونکہ مہمان نوازی اور دین میں نصرت طلب کرنا مہمان اور داعی کا حق ہے۔
ان چیزوں میں بھی اصل امید اللہ سے ہی رکھے کہ وہ چاہے گا تو مخلوق کے دل اس کی طرف مائل کر دے گا۔ گویا اصل سوال اور استعانت اللہ تعالیٰ سے ہی کرے۔
جہاں تک ہو سکے معمولی چیزوں میں بھی مخلوق سے سوال کرنے سے بچے کیونکہ سوال کرنا اپنے آپ کو دوسرے کے سامنے ذلیل کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی ایک جماعت سے بیعت لی تھی کہ وہ کسی سے سوال نہیں کریں گے ان میں کسی کا کوڑا تک گر جاتا تو وہ کسی سے پکڑانے کے لئے نہیں کہتا تھا اس جماعت میں آٹھ یا نو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ [صحيح مسلم، كتاب الزكاة 1043 ]
➏ جب مدد مانگے تو اللہ سے مانگ کیونکہ اگر اللہ مدد نہ کرے تو کوئی کام بھی نہیں ہو سکتا۔ نہ اللہ کی بندگی نہ دنیا کا کوئی کام۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی :
رَبِّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ [صحيح النسائي 1236]
”اے اللہ اپنی یاد پر، اپنے شکر پر اور اپنی اچھی عبادت پر میری مدد فرما۔ “
اور یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے فرمایا تھا :
وَاللَّـهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ [12-يوسف:18]
”جو تم بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مددگار ہے۔ “
➐ اس حدیث میں جو چار وصیتیں کی گئی ہیں ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دنیا کے اسباب سے قطع تعلق کر لے کیونکہ یہ بھی اللہ سے سوال اور اس سے استعانت میں شامل ہیں۔ جو شخص ان ذرائع سے رزق طلب کرے جو اللہ نے مقرر فرمائے ہیں تو اگر مل جائے تو اللہ ہی کی طرف سے ہے نہ ملے تو وہ بھی اس کی مرضی سے ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اصل بھروسہ اور امید صرف اللہ سے ہونی چاہیے۔