بسم الله الرحمن الرحيم
لمحہ فکریہ! ان افراد کے لئے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی توہین کرتے ہیں۔
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ. (سورة الحشر الاية 10)
اور (ان کے لیے) جنھوں نے ان سے پہلے اس گھر میں اور ایمان میں جگہ بنا لی ہے، وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کی طرف آئیں اور وہ اپنے سینوں میں اس چیز کی کوئی خواہش نہیں پاتے جو ان (مہاجرین) کو دی جائے اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔
وَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَغَيْرُهُ: مَنْ أَبْغَضَ الصَّحَابَةَ وَسَبَّهُمْ فَلَيْسَ لَهُ فِي فَيْءِ الْمُسْلِمِينَ حَقٌّ.
(الشفا بتعريف حقوق المصطفى محذوف الأسانيد (القاضي عياض) ج 2 ص 120 )
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو شخص صحابہ کرام رضي اللہ عنہم سے بغض رکھے اور ان کو برا بھلا کہے پس نہیں ہے اس کے لئے مسلمین (مسلمانوں)کے مال فے میں کوئی حصہ نہیں۔
تبصرہ:
جو لوگ اس صفت کو اختیار نہیں کرتے، یعنی جن کے دلوں میں ایمان والوں کے لیے بغض ہو، وہ اس آیت کے مطابق مؤمنین کے اصل درجات میں شامل نہیں سمجھے جا سکتے۔
یہ وضاحت ہمیں بتاتی ہے کہ اصل مؤمن کی پہچان یہ ہے کہ وہ دل سے ایمان والوں کے لیے محبت رکھے، اور ان کے دلوں میں کسی قسم کی دشمنی یا بغض نہ ہو۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ يَا ابْنَ أُخْتِي ” أُمِرُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَبُّوهُمْ.
(صحيح مسلم, كِتَاب التَّفْسِيرِ, بَابٌ فِي تَفْسِيرِ آيَاتٍ مُّتَفَرِّقَةٍ, حدیث نمبر 7539 (3022))
عروہ سے روایت ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا: اے بھانجے میرے! حکم ہوا تھا لوگوں کو کہ بخشش مانگیں صحابہ کے لیے، انہوں نے ان کو برا کہا: (وہ بخشش مانگنے کا حکم اس آیت میں ہے (رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَان) (سورة الحشر 10)
حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ الْقَاسِمِ الصَّيْدَلَانِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ خِرَاشٍ، عَنِ الْعَوَّامِّ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.
(المعجم الكبير للطبراني (الطبراني) ج 12 ص 142 الرقم 12709)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں، اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو گی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ نُسَيْرِ بْنِ ذُعْلُوقٍ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ ، يَقُولُ: لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمْرَهُ.
(سنن ابن ماجه, باب فى فضائل اصحاب رسول الله, بَابُ : فَضْلِ أَهْلِ بَدْرٍ: حدیث نمبر 162)
نسیر بن ذعلوق کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: ”اصحاب محمد ﷺ کو گالیاں نہ دو، ان کا نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں ایک لمحہ رہنا تمہارے ساری عمر کے عمل سے بہتر ہے“۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذٍ الْعَدْلُ، ثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَالِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ، رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تبارك وتعالى اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ بِي أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.
(المستدرك على الصحيحين – ط العلمية (أبو عبد الله الحاكم) ج 3 ص 732 الرقم 6656)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے منتخب کیا اور میرے لیے کچھ صحابہ کرام منتخب کیے، جن میں سے بعض کو وزیر، مددگار اور رشتہ دار بنایا۔ جس شخص نے ( ان صحابہ کرام کی) توہین کی ، پس اس پر اللہ کی لعنت، اور فرشتوں کی لعنت ، اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ قیامت کے دن اللہ اُس کے کسی بھی عمل کو قبول نہیں کرے گا۔
وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: تَفَاضَلَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى عَلَى الرَّافِضَةِ بِخَصْلَةٍ، سُئِلَتِ الْيَهُودُ: مَنْ خَيْرُ أَهْلِ مِلَّتِكُمْ؟ فَقَالُوا: أَصْحَابُ مُوسَى. وَسُئِلَتِ النَّصَارَى: مَنْ خَيْرُ أَهْلِ مِلَّتِكُمْ؟ فَقَالُوا: أَصْحَابُ عِيسَى. وَسُئِلَتِ الرَّافِضَةُ مَنْ شَرُّ أَهْلِ مِلَّتِكُمْ؟ فَقَالُوا: أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ، أُمِرُوا بِالِاسْتِغْفَارِ لَهُمْ فَسَبُّوهُمْ فَالسَّيْفُ عَلَيْهِمْ مَسْلُولٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا تَقُومُ لَهُمْ رَايَةٌ، وَلَا تَثْبُتُ لَهُمْ قَدَمٌ، وَلَا تَجْتَمِعُ لَهُمْ كَلِمَةٌ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ بِسَفْكِ دِمَائِهِمْ وَإِدْحَاضِ حُجَّتِهِمْ. أَعَاذَنَا اللَّهُ وَإِيَّاكُمْ مِنَ الْأَهْوَاءِ الْمُضِلَّةِ.
(تفسير القرطبي الجامع لأحكام القرآن (القرطبي) ج 18 ص 33 سورة الحشر الاية 11)
امام شعبي رحمہ اللہ نے کہا:
یہود اور نصاریٰ کی برتری روافض پر ایک خصلت کی وجہ سے ہے : جب یہود سے پوچھا گیا کہ ان کی ملت کے سب سے بہترین لوگ کون ہیں، تو انہوں نے کہا: "موسیٰ (علیہ السلام) کے صحابہ سب سے بہتر ہیں۔” اور جب نصاریٰ سے یہی سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا: "عیسیٰ کے صحابہ سب سے بہتر ہیں۔”جب رافضہ (شیعہ) سے پوچھا گیا کہ ان کی ملت کے سب سے بُرے لوگ کون ہیں(استغفراللہ)، تو انہوں نے کہا: "محمد ﷺ کے صحابہ سب سے بُرے ہیں۔” حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ صحابہ کے لیے استغفار کریں، لیکن انہوں نے ان کی توہین کی۔ ان لوگوں پر تلوار قیامت تک کھینچی جائے گی۔ ان کے لیے کوئی پرچم قائم نہیں ہوگا، اور نہیں ثابت رہیں گے ان کے قدم، اور ان کی بات کبھی بھی نہیں جڑ سکے گی۔ جب کبھی وہ جنگ کی آگ بھڑکائیں گے، اللہ اسے ان کے خون کے بہنے اور ان کی دلیلوں کو کمزور کرکے بجھائے گا۔ اللہ ہمیں اور آپ کو گمراہ کن نظریات سے محفوظ رکھے۔
قَالَ مَالِكٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «إِنَّمَا هَـٰؤُلَاءِ قَوْمٌ أَرَادُوا القدح فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُمْكِنْهُمْ ذَلِكَ فقدحوا فِي أَصْحَابِهِ حَتَّى يُقَالَ: رَجُلٌ سُوءٌ كَانَ لَهُ أَصْحَابٌ سُوءٌ وَلَوْ كَانَ رَجُلًا صَالِحًا لَكَانَ أَصْحَابُهُ صَالِحِينَ أَوْ كَمَا قَالَ: وَذٰلِكَ أَنَّهُ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا كَانَ يَنْصُرُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَذُبُّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ وَيُعِينُهُ عَلَى إِظْهَارِ دِينِ اللَّهِ وَإِعْلَاءِ كَلِمَةِ اللَّهِ وَتَبْلِيغِ رِسَالَاتِ اللَّهِ فِي وَقْتِ الْحَاجَةِ وَهُوَ حِينَئِذٍ لَمْ يَسْتَقِرَّ أَمْرُهُ وَلَمْ تَنْتَشِرْ دَعْوَتُهُ وَلَمْ تَطْمَئِنْ قُلُوبُ أَكْثَرِ النَّاسِ بِدِينِهِ وَمَعْلُومٌ أَنَّ رَجُلًا لَوْ عَمِلَ بِهِ بَعْضُ النَّاسِ نَحْوَ هَـٰذَا ثُمَّ آذَاهُ أَحَدٌ لَغَضِبَ لَهُ صَاحِبُهُ وَعَدَّ ذَلِكَ أَذًى لَهُ.
(الصارم المسلول علي شاتم الرسول (ابن تيمية) ص 580)
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:یہ لوگ صرف نبی ﷺ پر اعتراض کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ تو انہوں نے نبی ﷺ کے صحابہ پر اعتراض کرنا شروع کر دیا تاکہ یہ کہا جا سکے کہ ‘وہ بُرا شخص تھا جس کے پاس بُرے لوگ تھے۔اگرچہ (وہ) آدمی صالح ہو، اور اس کے ساتھی صالح تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی ﷺ کے صحابہ میں ہر شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مدد کرتا تھا، رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کرتا تھا، اور دینِ اسلام کی تبلیغ میں اس کی مدد کرتا تھا، جبکہ نبی ﷺ کا دین ابھی پوری طرح قائم نہیں ہوا تھا اور لوگوں کے دلوں میں ابھی اس کا اطمینان نہیں تھا۔ اور یہ معلوم ہے کہ اگر کوئی شخص لوگوں کے درمیان نیکی کی بات کرتا ہے اور اس کے بعد کوئی اس کو اذیت پہنچاتا ہے، تو اس کے ساتھی بھی غصے میں آتے ہیں اور اس اذیت کو برا سمجھتے ہیں۔
وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ شَهْرَيَارَ قَالَ: حَدَّثَنَا فَضْلُ بْنُ زِيَادٍ قَالَ: حَدَّثَنَا رَبَاحُ بْنُ الْجَرَّاحِ الْمَوْصِلِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا ، يَسْأَلُ الْمُعَافَى بْنَ عِمْرَانَ فَقَالَ: يَا أَبَا مَسْعُودٍ ، أَيْنَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ؟ . فَرَأَيْتُهُ غَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا وَقَالَ: لَا يُقَاسُ بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ ، مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَاتِبُهُ وَصَاحِبُهُ وَصِهْرُهُ وَأَمِينُهُ عَلَى وَحْيِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعُوا لِي أَصْحَابِي وَأَصْهَارِي فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.
(الشريعة للآجري ج 5 ص 2466 الرقم 1956)
امام معافی بن عمران رحمہ اللہ کا قول۔ ان سے کسی نے پوچھا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین کیا فرق ہے؟ یہ سن کر وہ غصہ میں آگئے اور فرمایا: محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے بارے میں کسی کو قیاس نہ کیا جائے، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپﷺکے کاتب ، آپﷺ کے قرابت دار ،اور اللہ تعالی کی وحی پر آپ ﷺکے امین ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایاہے کہ میرے صحابہ وقرابت داروں سے درگزر کرو۔ جو ان کو برا کہے گا اللہ تعالی، اس کے فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت اس پر ہو۔
أَنْبَأَنَا خَلَفُ بْنُ عَمْرٍو الْعُكْبَرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا.
(الشريعة للآجري ج 5 ص 2498 الرقم 1989)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے منتخب کیا اور میرے لیے کچھ صحابہ کرام منتخب کیے، جن میں سے بعض کو وزیر، مددگار اور رشتہ دار بنایا۔ جس شخص نے ( ان صحابہ کرام کی) توہین کی ، پس اس پر اللہ کی لعنت، اور فرشتوں کی لعنت ، اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ قیامت کے دن اللہ اُس کے کسی بھی عمل کو قبول نہیں کرے گا۔
وَحَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّقْرِ السُّكَّرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَالِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا ، وَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وزَرَاءَ وَأَصْهَارًا وَأَنْصَارًا فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا» قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ: الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ: الْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ.
(الشريعة للآجري ج 5 ص 2500 الرقم 1990)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے منتخب کیا اور میرے لیے صحابہ کرام منتخب کیے، جن میں سے بعض کو وزیر، رشتہ دار، اور مددگار بنایا۔ جس شخص نے ( ان صحابہ کرام کی) توہین کی ، پس اس پر اللہ کی لعنت، اور فرشتوں کی لعنت ، اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ اللہ اس سے نہ فرض عمل قبول کرے گا ،اور نہ ہی نفل عمل قبول کرے گا۔
ابراہیم بن منذر فرماتے ہیں: الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ سے مراد فرض (عبادت) اور نفل (عبادت)۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ق ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ ق ثنا عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ الصُّدَائِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو شَيْبَةَ الْجَوْهَرِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَّا نُسَبُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا»
(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل ج 1 ص 52 الرقم 8)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں انہوں نے بیان کیا کہ:
رسول اللہ ﷺ سے کچھ صحابہ نے کہا: ‘یا رسول اللہ، ہماری (توہین) کی جاتی ہے۔’ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘جس شخص نے میرے صحابہ کی (توہین) کی ، پس اُس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت ، اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی۔ اللہ اس سے نہ فرض عمل قبول کرے گا ،اور نہ ہی نفل عمل قبول کرے گا۔
أَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى الْهَمَذَانِيُّ ، ثنا صَالِحُ بْنُ أَحْمَدَ الْحَافِظُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ أَحْمَدَ بْنَ عُبَيْدٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ التُّسْتَرِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ ، يَقُولُ: «إِذَا رَأَيْتَ الرَّجُلَ يَنْتَقِصُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَاعْلَمْ أَنَّهُ زِنْدِيقٌ ، وَذَلِكَ أَنَّ الرَّسُولَ صلى الله عليه وسلم عِنْدَنَا حَقٌّ ، وَالْقُرْآنَ حَقٌّ ، وَإِنَّمَا أَدَّى إِلَيْنَا هَذَا الْقُرْآنَ وَالسُّنَنَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، وَإِنَّمَا يُرِيدُونَ أَنْ يُجَرِّحُوا شُهُودَنَا لِيُبْطِلُوا الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ ، وَالْجَرْحُ بِهِمْ أَوْلَى وَهُمْ زَنَادِقَةٌ»
(الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي ص 49)
ابو زرعہ رحمہ اللہ نے کہا: "جب تم دیکھو کہ کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کی برائی کرتا ہے، تو جان لو کہ وہ شخص زندیق ہے (یعنی دین سے منحرف ہے)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک رسول اللہ ﷺ حق ہیں، اور قرآن حق ہے۔ اور قرآن اور سنت ہمیں صحابہ کرام نے پہنچائی ہے۔ وہ لوگ (جو صحابہ کی برائی کرتے ہیں) چاہتے ہیں کہ ہمارے گواہوں کی توہین کر کے قرآن اور سنت کو باطل قرار دیں، اور ان کی توہین کرنا خود ان کے حق میں بہتر ہے، اور وہ زندیق ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَا تَسُبُّوا الدِّيكَ، فَإِنَّهُ يُوقِظُ لِلصَّلَاةِ.
(سنن ابي داود, أَبْوَابُ النَّوْمِ، باب مَا جَاءَ فِي الدِّيكِ وَالْبَهَائِمِ: حدیث نمبر 5101)
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مرغ کو برا بھلا نہ کہو، کیونکہ وہ نماز فجر کے لیے جگاتا ہے۔
مذکورہ حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے مرغ کی صرف اس نیکی کی وجہ سے برا بھلا کہنے سے منع کر دیا کہ وہ ہمیں نماز فجر کے ليے اٹھاتا ہے ۔تو کیا خیال ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں کے انہوں نے ہم تک دین اسی طرح پہنچایا جس طرح رسول اللہ ﷺ چھوڑ کر گئے تھے۔ تو کیا ہم ان کو برا بھلا کہہ سکتے ہیں؟ قطعا ہرگز نہیں ، اس وجہ سے کہ انہوں نے ہم تک دین اسلام کو پہنچانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔اور یہ بہت عظیم نیکی ہے جو ہم سب کو ہر وقت محل نظر رکھنی چاہیۓ۔