صحابہؓ کے بعض اجتہادی اعمال اور “بدعتِ حسنہ” کا شبہ
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

بریلوی حضرات اور بدعت کے قائل بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ نبی ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے کئی اجتہادی اعمال کو اقرار (یعنی خاموش منظوری) فرمایا، حالانکہ وہ پہلے سے شریعت میں مقرر نہ تھے۔ ان کے بقول اس کا مطلب یہ ہے کہ دین میں “بدعتِ حسنہ” کی گنجائش ہے۔

اس مضمون میں پہلے شبہ بیان کیا جائے گا، پھر قرآن و سنت اور فہمِ سلف کی روشنی میں اس کا جواب دیا جائے گا۔

بدعت کے جواز پر بریلوی شبہ

بریلوی حضرات کا کہنا ہے:
“نبی ﷺ نے کئی صحابہ کے اعمال کو اقرار فرمایا جو پہلے سے دین میں مقرر نہ تھے، اس لئے یہ ‘بدعتِ حسنہ’ تھیں۔ مثلاً:

  • عمرو بن عاصؓ نے جنابت (غسل واجب ہونے کی حالت) کے باوجود ٹھنڈے موسم میں تیمم سے نماز پڑھائی، اور نبی ﷺ نے اقرار فرمایا۔

  • ایک صحابی ہر رکعت میں سورہ اخلاص پڑھتے تھے، نبی ﷺ نے ان کے عمل کو تسلیم کیا۔

  • ایک صحابی نے سورہ فاتحہ سے دم کیا، آپ ﷺ نے اس کو جائز قرار دیا۔

  • بلالؓ ہر وضو کے بعد نفل پڑھتے تھے، نبی ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی۔

  • ایک صحابی نے عطس کے بعد نیا ذکر کہا، نبی ﷺ نے اقرار کیا۔

  • خبیبؓ نے قتل سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں، آپ ﷺ نے ان کو درست کہا۔

پس معلوم ہوا کہ نئی عبادات یا اذکار بھی “بدعتِ حسنہ” کے طور پر درست ہیں۔”

اس بریلوی شبہ کا مدلل جواب

➊ وحی کے زمانے کے اقرار اور بعد کے اقرار میں فرق

نبی ﷺ کی زندگی میں صحابہ جو اجتہادی عمل کرتے، وحی نازل ہوتی اور ان کا فیصلہ کر دیتی۔ اگر وہ عمل درست ہوتا تو نبی ﷺ اقرار فرما دیتے (یعنی خاموش یا واضح منظوری دے دیتے)، اگر غلط ہوتا تو اصلاح فرما دیتے۔

📌 لیکن نبی ﷺ کی وفات کے بعد ایسا ممکن نہیں رہا۔ اس لئے بعد کے دور کے اجتہادی کاموں کو “اقرارِ نبویﷺ” کا درجہ دینا محض مغالطہ ہے۔

➋ نبی ﷺ نے بعض اعمال کی اصلاح بھی کی

اگر ہر اجتہاد کو “بدعت حسنہ” سمجھ لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نبی ﷺ نے کئی صحابہ کے اجتہادات کو رد بھی کیا، جیسے:

✿ براء بن عازبؓ نے دعا میں الفاظ بدل دیے، نبی ﷺ نے ان کی اصلاح فرمائی:

عربی:
«آمَنتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ»
فقال البراء: “وبرسولك”، فقال النبي ﷺ: «وبنبيك».
ترجمہ: براءؓ نے دعا میں کہا: “اور تیرے رسول پر ایمان لایا”، تو نبی ﷺ نے فرمایا: “یوں کہو: اور تیرے نبی پر ایمان لایا”۔
حوالہ: صحیح بخاری (حدیث: 247)

✿ عثمان بن مظعونؓ نے نکاح چھوڑنے (رہبانیت/تبتل) کی خواہش ظاہر کی، نبی ﷺ نے منع فرمایا۔
حوالہ: صحیح بخاری (حدیث: 5063)

✿ تین صحابہ نے یہ کہا کہ ہم ہمیشہ قیام کریں گے، ہمیشہ روزہ رکھیں گے اور عورتوں سے شادی نہیں کریں گے۔ نبی ﷺ نے سختی سے منع کیا اور فرمایا:

«فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي»
ترجمہ: “جو میری سنت سے ہٹے وہ مجھ سے نہیں۔”
حوالہ: صحیح بخاری (حدیث: 5063)، صحیح مسلم (حدیث: 1401)

📌 اس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ صرف ان اعمال کو تسلیم کرتے جو وحی کے مطابق ہوتے، باقی کو رد فرما دیتے۔

➌ صحابہ کے اجتہادات سنت کیوں بنے؟

جو اجتہادات نبی ﷺ نے تسلیم فرمائے، وہ دراصل وحی کے ذریعے شریعت کا حصہ بن گئے۔ یعنی وہ اب سنت بن گئے، بدعت نہیں رہے۔

امام قسطلانی رحمہ اللہ (شارح بخاری) فرماتے ہیں:

«وإنما صار فعل خبيب سنةً، لأنه فعل ذلك في حياة الشارع واستحسنه.»

ترجمہ: “خبیبؓ کا عمل (قتل سے پہلے دو رکعت پڑھنا) اس لئے سنت بن گیا کہ یہ نبی ﷺ کی زندگی میں ہوا اور آپ ﷺ نے اسے پسند فرمایا۔”

حوالہ: إرشاد الساري (5/165)

➍ اقرارِ نبوی کا دروازہ وفات کے بعد بند ہو گیا

امام ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

«فكل من أحدث شيئاً ونسبه إلى الدين، ولم يكن له أصل من الدين يرجع إليه، فهو ضلالة والدين بريء منه.»
ترجمہ: “جو کوئی نئی چیز دین میں داخل کرے اور اس کی کوئی اصل شریعت میں نہ ہو، تو وہ بدعت اور گمراہی ہے اور دین اس سے بری ہے۔”
حوالہ: جامع العلوم والحكم (ص 252)

📌 مطلب یہ ہے کہ جو کام نبی ﷺ کے سامنے ہوا اور آپ نے تسلیم کیا، وہ دین بن گیا۔ لیکن آپ کی وفات کے بعد جو بھی نیا کام ایجاد کیا جائے، وہ “بدعت” ہوگا کیونکہ اب وحی ختم ہو چکی۔

خلاصہ

  • نبی ﷺ کے زمانے میں صحابہ کے بعض اجتہادی اعمال وحی کے تحت پرکھے گئے، جو درست نکلے وہ دین میں شامل ہو گئے، جو غلط نکلے ان کو رد کر دیا گیا۔

  • آپ ﷺ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا، اب کوئی بھی نئی عبادت یا عمل “بدعت” ہوگا۔

  • اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ چونکہ نبی ﷺ نے بعض صحابہ کے نئے اعمال کو قبول کیا، لہٰذا ہم بھی نئی عبادات ایجاد کر سکتے ہیں۔

نبی ﷺ کا فرمان سب پر حاکم ہے:

عربی:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»
ترجمہ: “جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے پر نہیں، وہ مردود ہے۔”
حوالہ: صحیح مسلم (حدیث: 1718)

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے