. . . لَنْ تُعْطَوْا عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ . . .
”تمہیں صبر سے بہتر اور اس سے بڑھ کر کوئی نعمت اللہ کی طرف سے نہیں ملی ہے۔ “ [صحيح بخاري/الرقاق : 4670 ]
فوائد :
اللہ کی طرف سے آنے والی آزمائش کو اس کا فیصلہ سمجھ کر خوشی سے قبول کر لینے اور کسی قسم کا حرف شکایت زبان پر نہ لانے کا نام صبر ہے۔ واقعی اس نعمت سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی نعمت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بشارت دی ہے۔
آپ ایسے صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ”ہم خود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ “ [البقره : 157 ]
مصیبت آنے پر رونے دھونے کے بعد تھک ہار چپ ہو جانا صبر نہیں ہے بلکہ صبر یہ ہے کہ پہلی چوٹ لگتے ہی اللہ کی رضا کے لئے اسے برداشت کر لے جیسا کہ حدیث میں ہے۔
”صبر وہی ہے جو ابتدا کے صدمہ میں ہو۔ “ [صحيح بخاري/الجنائز : 1302 ]
یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو وعظ کرتے ہوئے فرمائے جو قبر کے پاس اپنے کسی عزیز کی وفات پر رو رہی تھی۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”اللہ سے ڈر اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ۔ “ [صحيح بخاري/الجنائز : 1252 ]
بہرحال صبر اللہ کی طرف سے بہت عجیب و غریب نعمت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے مرد مومن پر جو صبر کیش ہوتا ہے۔ اظہار تعجب کیا ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”مومن کا معاملہ تو بہت ہی عجیب ہے کہ اس کی ہر ادا خیر پر مبنی ہے اور یہ اعزاز صرف مومن ہی کو حاصل ہے اگر اسے خوشی ملتی ہے تو اس پر اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور یہ اس کے لئے نہایت ہی مفید ہے اور اگر کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے تو صبر کرنے میں ہی اس کے لئے خیر و برکت ہے۔ “ [صحيح مسلم/الذهد : 2999 ]