جب نماز کی اقامت ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی دوسری نماز نہیں ہوتی (مسلم: 710)
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ہدیۃ المسلمین نماز کے اہم مسائل مع مکمل نماز نبویﷺ سے ماخوذ ہے۔

صبح کی دو سنتیں

«عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا أقيمت الصلوة فلا صلوة إلا المكتوبة»
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کی اقامت ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی دوسری نماز نہیں ہوتی۔“ [صحیح مسلم:247/1 ح 710]
فوائد
(1)اس حدیث سے ثابت ہوا کہ فرض نماز (مثلاً نماز صبح وغیرہ) کی اقامت کے بعد سنتیں یا نفل پڑھنا غلط اور باطل ہے۔ قرآن پاک کی آیت ﴿وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ (البقرة: 43) اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو، سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
(2)صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہما کی متعدد احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صبح کی فرض نماز کے ہوتے ہوئے دو رکعتیں نہیں پڑھنی چاہئیں۔ صحیح ابن خزیمہ کی ایک روایت میں ہے: فنهى أن يصلي فى المسجد إذا أقيمت الصلوة یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت ہو جانے کے بعد مسجد میں دوسری نماز پڑھنے سے منع فرما دیا۔“ [ 170/2، ح 1126]
(3)ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ جناب قیس بن قہد رضی اللہ عنہ نے صبح کے فرضوں کے بعد دو رکعتیں (سنتیں) پڑھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معلوم ہو جانے پر انہیں کچھ نہ کہا بلکہ سکوت کیا۔ [دیکھیے صحیح ابن خزیمہ 164/2 ح 116، صحیح ابن حبان 82/4 الاحسان ح 2462 ، المستدرک 274/1-275 ح 10170]
اسے ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم اور ذہبی چاروں نے صحیح کہا ہے۔ اس روایت کی سند پر ابن عبد البر کی جرح، جمہور کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
(4)امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ: ”جس کی صبح کی دو سنتیں رہ جائیں، وہ یہ سنتیں نہ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے پڑھے اور نہ طلوع ہونے کے بعد۔“ [دیکھیے الہدایہ 156/ 1، باب ردراک الفریضہ]
امام صاحب کا یہ قول درج بالا حدیث صحیح کے خلاف ہے اور ترمذی (ج96/1 ح 423) وغیرہ کی اس ضعیف حدیث کے بھی خلاف ہے، جس میں طلوع شمس کے بعد یہ سنتیں ادا کرنے کا ذکر ہے (یہ روایت قتادہ مدلس کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے)۔
(5)بعض تقلید پرستوں نے قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف بعض صحابہ کے آثار پیش کیے ہیں، جن میں سے اکثر ثابت نہیں ہیں۔ مثلاً مجمع الزوائد (75/2) میں بحوالہ طبرانی (المعجم الکبیر: 319/9 ح 9385، 9387) جو اثر ہے کہ جناب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے امام کی فرض نماز کے وقت دو سنتیں پڑھیں، یہ سند ابو اسحاق مدلس کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اگر طحاوی وغیرہ کے بعض آثار کو صحیح بھی مان لیا جائے تو قرآن اور صریح مرفوع احادیث کے مقابلے میں چند آثار کو پیش کرنا غلط اور باطل ہے۔ یاد رہے کہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جماعت کے دوران میں سنتیں پڑھنے کے قائل نہیں تھے۔
(6) ظفر احمد عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
ولا حجة فى قول الصحابي فى معارضة المرفوع
یعنی: (دیوبندیوں کے نزدیک) مرفوع حدیث کے مقابلے میں صحابی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے۔ [اعلاء السنن: 438/1 تحت: ح 432]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1