عقیدہ ختم نبوت پر ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں کہلا سکتا، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا چکا ہے اور ان کی سرگرمیوں پر بھی ایک حد تک پابندی عائدکر دی گئی ہے۔
قادیانی ختم نبوت کے منکر ہیں ان کے نزدیک سلسلہ نبوت منقطع نہیں ہوا بلکہ وہ جاری وساری ہے اگر چہ وہ ظلی و بروزی کی تقسیم کرتے ہیں تاہم اس تقسیم کا کتاب وسنت میں کوئی وجود نہیں۔
قادیانیوں سے بھی پہلے جس مکتبہ فکر نے ’’امامت ‘‘ کے نام پر ختم نبوت کا انکار کیا وہ شیعہ مکتبہ فکر ہے۔ ان کے نزدیک "’’امامت‘‘ کا وہی مفہوم ہے جو مسلمانوں کے نزدیک ’’نبوت‘‘ کا ہے۔ میں نے اس انتہائی نازک اور حساس موضوع پر قلم کو جنبش نہیں دی تاوقتیکہ میں نے علامہ احسان الہیٰ ظہیر شہیدؒ کی تصنیفات کے علاوہ خود شیعہ مراجع و مصادر کا بغور مطالعہ نہیں کر لیا۔ مختلف شیعی کتب کے مطالعہ کے بعد جب میرے پاس دلائل و براہین کی اتنی بڑی تعداد جمع ہو گئی جن پر ایک ایسی عمارت ایستادہ کی جاسکے کہ جس میں بیٹھے ہوئے حریف کو دلائل کے سامنے سر تسلیم خم کیے بغیر کوئی چارہ کار اور راہ فرار نہ ہو تب میں نے اللہ کے فضل سے اس موضوع پر اپنے قلم کو حرکت دینے کی جسارت کی مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ العزیزیہ مقالہ قارئین کی بھر پور التفات و توجہ حاصل کریگا۔
اس فکر کہ جس پر شیعہ مذہب کی عمارت اور اس نظر کے درمیان کہ جس پر شریعت اسلامیہ کی عمارت ایستادہ ہے ایک واضح فرق یہ ہے کہ اسلام کے بر عکس شیعہ مذہب میں ختم نبوت کا کوئی تصور نہیں۔
شاید قارئین کرام اتنی عبارت پڑھ کر میرے اوپر انتہا پسندی اور تطرف کا حکم لگادیں مگر جب وہ ان کثیر التعداد دلائل کا مطالعہ کریں گے جو اس مقالہ میں بیان کیے گئے ہیں تو یقیناً انہیں اپنی رائے تبدیل کرنے کے سوا کوئی مفسر نہیں ہو گا انہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ میں نے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کیا ہے:
وَلَا تَخِرِ مَثَكُم شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى الْأَتَعْدِلُوا الليلُو الهوَ أَقْرَبُ للتَّقْوَى (المائده: ۸)
تمہیں کسی قوم کی مخالفت عدل وانصاف سے رع گردانی مجبور نہ کرے اختلاف کے با وجود عدل و انصاف کرنا تمہاری ذمہ داری ہے اور تقویٰ کا بھی یہی تقاضا ہے۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ اہل سنت کے ساتھ خود شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اکثر حضرات کو بھی شیعہ مذہب کے عقائد اور اس کی تاریخ کا علم نہیں ہے۔ وہ اپنی سادہ لوحی کی بناپر یہ سمجھتے ہیں کہ شاید سید نا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ذکر پہ آنسو بہا لینے ، ماتم اور تعزیہ نکال لینے کا نام ہی شیعہ مذہب ہے ، ہمیں یقین ہے کہ اگر خود شیعہ حضرات کو بھی شیعی عقائد کا علم ہو جائے تو یقینا وہ اس مذہب سے تو بہ کرنے میں ہی اپنی عاقبت کی بہتری خیال کریں گے ۔ امام العصر علامہ احسان الہی ظہیر شہیدؒ کا شیعہ قوم پہ یہ احسان عظیم ہے کہ آپ نے اپنی تصنیفات اور محاضرات کے ذریعے شیعہ مذہب کی اصلیت اور تاریخی حیثیت واضح کی تاکہ شیعہ قوم کا وہ طبقہ جو صرف اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے شیعہ عقائد کو اختیار کیے ہوئے ہے حقیقت سے آگاہ ہو کر اس مذہب سے توبہ کر کے اپنی عاقبت سنوارنے کی طرف توجہ دے سکے کہ جس مذہب کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں جو اللہ تعالیٰ نے جبریل امین کے واسطے سے سید نا محمد رسول اللہ ﷺ پہ نازل فرمایا تھا۔
عقیدہ ختم نبوت سے انکار بھی ان عقائد میں سے ہے جن کا اہل سنت کے ساتھ ساتھ خود شیعہ اکثریت کو بھی علم نہیں۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے کہ جس سے آگاہی کے بعد شیعہ قوم کے صاحب بصیرت طبقے سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس مذہب سے اپنا تعلق ختم کرلے۔
شیعہ قوم اپنے بارہ اماموں کو ان صفات سے متصف کرتی ہے جو کہ نبوت کا خاصہ ہیں۔
➊ ان کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونا۔
➋ ان کا معصوم عن الخطاء ہونا۔
➌ ان کی اطاعت کا فرض ہونا۔
➍ ان پر وحی اور فرشتوں کا نزول ہونا۔
یہ چاروں صفات اگر کسی بھی انسان میں مان لی جائیں تو اس میں اور انبیائے کرام میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا جب کوئی شخص کسی کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ
➊ وہ اللہ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہے۔
➋ وہ معصوم من الخطا ہے۔
➌ اس کی اطاعت فرض ہے۔
➍ اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔
تو گویا کہ وہ اسے اللہ کا نبی خیال کرتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا ہے۔
شیعہ مذہب میں بارہ اماموں کو یہ چاروں حیثیتیں حاصل ہیں چنانچہ اس مذہب میں محمد رسول اللہ ﷺ آخری نبی نہ تھے اور نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ بلکہ ’’امامت‘‘ کے لبادے میں نبوت جاری و ساری ہے اور بارہ امام بارہ امام نہیں بلکہ بارہ نہیں تھے۔ اب ہم ان چاروں صفات یعنی بعثت ، عصمت، وجوب اطاعت اور نزول وحی کو خود شیعہ کتب کی روشنی میں ہمیت کرتے ہیں کہ شیعہ مذہب کے مطابق باره امام ان چاروں صفات سے متصف ہیں۔
بعثت:
مشہور شیعہ عالم جسے شیعہ قوم نے ’’ خاتم المحد ثین ‘‘ کا لقب دے رکھا ہے یعنی ملا باقر مجلسی‘‘ اپنی مشہور کتاب ’’حق الیقین‘‘ میں لکھتا ہے۔
’’بارہ امام اللہ کی طرف سے منصوص یعنی مبعوث ہیں۔ ‘‘
(حق القین ۴۷)
شیعہ قوم کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے بارہ اماموں کو بذریعہ نص یا کہہ لیجئے آرڈنینس کے ذریعے نامزد کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نص نازل ہوئی تھی جس میں اماموں کو نامزد کیا گیا تھا۔ اس نص کے مطابق سید نا علی رضی اللہ عنہ پہلے امام تھے اور محمد بن الحسن العسکری آخری امام ۔ چنانچہ شیعوں کے ’’شیخ صدوق ‘‘ ابن بابو یہ قمی محمد بن یعقوب کلینی اور مشہور شیعہ عالم طوسی نے اپنی کتب میں روایت بیان کی ہے کہ :
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر وفات سے قبل ایک کتاب نازل فرمائی اور کہا:
’’يا محمد هذه وصيتك الى التجبة من اهلك‘‘
کہ اے محمد ﷺ ! یہ تیرے خاندان کے معززین کے لیے وصیت ہے۔
آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا:
میرے خاندان کے معززین کون لوگ ہیں ؟ جبریل نے کہا:
علی بن ابی طالب، اور ان کی اولاد میں سے فلاں فلاں۔
اس کتاب پر سنہری رنگ کی مہریں لگی ہوئی تھیں۔ آپ نے وہ کتاب امیر المومنین علیہ السلام کے سپرد کردی چنانچہ علی علیہ السلام نے ایک مہر کو کھولا اور اس وصیت کے مطابق اپنے دور امامت میں عمل کیا۔ پھر حسن علیہ السلام نے دوسری مہر کو کھولا اور وصیت کے مطابق عمل کیا حتی کہ وہ کتاب آخری امام تک پہنچ گئی۔
شیعوں کا امام بخاری ’’محمد بن یعقوب کلینی سیدنا جعفر کی طرف منسوب کرتے ہوئے اصول کافی میں لکھتا ہے:
ان الامامة عهد من الله عز وجل معهود لرجال مسمين ليس للامام ان يذوبها عن الذي يكون من بعده۔
’’امامت اللہ عزوجل کی طرف سے ایک منصب ہے جس پر چند برگزیدہ اور متعین ہستیاں فائز ہیں۔ کوئی امام اپنے اختیار سے اپنے بعد والے امام کو اس منصب سے محروم کر کے کسی اور کو اس پہ فائز نہیں کر سکتا۔
❀ (عیون الاخبار الرضاء از ابن بابویہ قمی جلد اص: ۴۳ اصول کافی جلد اص: ۲۸۰ کمال الدین و تمام الدین انعمتہ ازقمی جلد ۲ ص ۱۲۲۹ مالی الصدوق ص: ۱۳۲۸ مالی الطوسی جلد ۲ ص ۵۲ کتاب الغیبة از طوسی۹۰- اصول کافی از کلینی باب ان الامامة عہد من الله )
یعنی بارہ اماموں میں سے ہر ایک کا تقرو تعین اللہ کی طرف سے ہوا ہے۔ امامت ایک منصب الہٰی ہے وہی جسے چاہتا امام مقرر کرتا ہے۔ شیعہ اکابرین کا کہنا ہے:
’’يجب على الله نصب الامام كنصب النبي‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرض ہے کہ وہ امام کو بھی اسی طرح مقرر کرے جس طرح کہ وہ نبی کو مقرر کرتا ہے۔
(ملاحظہ ہو منہاج الکرامتہ از حلی صفحہ ۷۲ ، اعیان الشیعہ ۶/۱، الشیعتہ فی التاریخ از محمد حسین الزین صفحه ۴۴ اصول المعارف از محمد موسوی صفحه ۸۲۔)
یعنی امامت کا منصب بھی نبوت کی طرح اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہے۔ اس عقیدے کے مطابق سید نا علی رضی اللہ عنہ شیعوں کے نزدیک اللہ کی طرف سے مقرر کردہ پہلے نام تھے۔ اور ان کی امامت پر ایمان لانا اسی طرح فرض تھا جس طرح کہ سیدنا محمد ﷺ کی نبوت ورسالت پر ایمان لانا، اس کی وضاحت کرتے ہوئے مشہور شیعہ عالم مفید لکھتا ہے:
’’ امامیوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو خلیفہ نامزد کیا تھا۔ چنانچہ ان کی خلافت و امامت کا منکر دین کے ایک اہم فرض ، بنیادی رکن کا منکر تصور ہوگا۔
(اوائل المقالات از مفید صفحه ۴۸)
شیعہ عقیدے کے مطابق امت مسلمہ کے وہ تمام مکاتب فکر جو سید نا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ مانتے ہیں وہ نہ صرف دین اسلام کے ایک بنیادی رکن بلکہ سرے سے نبوت ہی کے منکر ٹھہر تے ہیں کیونکہ علیؓ کی امامت کا انکار تمام انبیائے کرام کی نبوت کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔
(ملاحظہ ہو اعتقادات الصدوق نقل از مقدمتہ البر ہان صفحہ ۱۹)
محمد بن یعقوب کلینی سید نا باقر کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
’’اللہ نے علی علیہ السلام کو اپنی مخلوق کے لئے نشان ہدایت بنا کر مبعوث کیا ہے۔ جس نے ان کی معرفت حاصل کر لی وہ مومن قرار پائے گا جو ان سے بے خبر رہے گا وہ گمراہ کہلائے گا اور جس نے ان کے ساتھ کسی اور کو بھی ( خلافت وامامت میں) شریک کیا اسے مشرک کہا جائے گا۔
(اصول کافی ۴۳۷/۱)
شیعہ محدث ابن بابو یہ قمی کہتا ہے:
ليس لاحد ان يختار الخليفة الا الله عز و جل۔ (کمال الدین از ابن بابو یہ قمی صفحه ۹)
’’خلیفہ کو منتخب کرنے کا اختیار اللہ عزوجل کے علاوہ کسی کو نہیں‘‘
مقصود یہ ہے کہ وہ تمام خلفاء جنہیں مسلمان عوام نے منتخب کیا تھا خواہ وہ خلفائے راشدین ہی کیوں نہ ہوں غیر شرعی خلفاء تھے۔ خلافت وامامت صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حق تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک صریح نص کے ذریعے ان کے سر پر تاج کرامت رکھا گیا تھا۔
طبری لکھتا ہے:
بارہ اماموں میں سے ہر امام اللہ کی طرف سے منصوص یعنی مقرر کردہ تھا۔ (اعلام الوریٰ صفحہ ۲۰۶، عقیدۃ اشیعتہ فی الامامتہ از شریعتی صفحه ۸۳) شیعہ فرقے کے اس عقیدے کو بڑے واضح اور دوٹوک الفاظ میں بیان کرتے ہوئے ’’اصل الشیعتہ و اصولہا۔‘‘ کا مصنف لکھتا ہے۔
’’الامامة منصب الهي كالنبوة ‘‘ (اصل الشبع واصولہا از کاشف الغطاء صفحه ۱۰۳)
’’یعنی امامت بھی نبوت کی طرح وہی اور خدائی منصب ہے۔‘‘
ان تمام نصوص و عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ شیعہ علماء اپنے اماموں کو انبیاء ورسل کی مانند اللہ کی طرف سے مبعوث سمجھتے ہیں جب کہ امت مسلمہ کے نزدیک بعثت فقط انبیائے کرام اور رسل اللہ کی خاصیت ہے تو گو یا غیر انبیاء کی نسبت مبعوث ہونے کا عقیدہ رکھنا انکار ختم نبوت کی طرف پہلا قدم تھا جو ابن سبانے اٹھایا اور باقی سبائیوں نے اس کی پیروی کی جو آگے چل کر شیعہ مذہب کی بنیاد بنا۔
عصمت:
امت مسلمہ کے نزدیک عصمت صرف انبیاء ورسل کا خاصہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کا معنی یہی ہے کہ آپ ﷺ ہی خاتم المعصومین ہیں، انبیاء کے علاوہ کوئی دوسری شخصیت معصوم عن الخطاء نہیں۔ مگر شیعہ علماء کہتے ہیں کہ ائمہ بھی اس صفت میں انبیاء کرام کے ہم پلہ و شریک ہیں جس طرح اللہ تعالٰی نے انبیاء کرام کی حفاظت و صیانت اور انہیں غلطیوں سے پاک کرنے کا ذمہ لیا ہے۔ بعینہ بارہ امام بھی ہر قسم کی غلطی اور لغزش سے پاک ہیں۔
چنانچہ شیعہ محدث طوسی لکھتا ہے:
’’العصمة عند الامامية شرط اساسى الجميع الانبياء والائمة عليهم السلام سواء في الذنوب الكبيرة والصغيرة قبل النبوة والامامة وبعد هما على سبيل العمد والنسيان، وهكذا العصمة من كل الرذائل والقبائح ‘‘ ( تلخیص الثانی از طوسی ۶۲/۱)
’’امامیوں کے نزدیک انبیاء اور اماموں کا معصوم ہو نا ثبوت و امامت کی بنیادی شرط ہے۔ انبیاء وائمہ کبیر و صغیرہ ہر قسم کے گناہوں سے معصوم ہیں ان سے نبوت امامت سے پہلے غلطی کے صدور کا امکان ہے نہ نبوت و امامت کے بعد وہ عمدا گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں نہ نسیانا، اسی طرح وہ ہر قسم کی غیر اخلاقی اور انسانی مروت کے خلاف حرکات سے بھی معصوم ہوتے ہیں۔
نیز امام چونکہ واجب الاطاعت ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا معصوم ہونا ضروری ہے۔
(تلخیص الشافی صفحه ۱۹۱)
ملا باقر مجلسی لکھا ہے:
’’اجماع الامامية متعقد على أن الامام مثل النبي معصوم من أول عمره إلى آخر عمره من جميع الذنوب الصغائر والكبائر‘‘ ( حق الیقین از مجلسی صفحہ ۴۰، عقيدة الشيعتہ في الامامتہ صفحہ ۲۳۴)
ترجمہ:
’’امامیوں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ امام بھی نبی ﷺ کی طرح صغیرہ و کبیرہ گنا ہوں سے از پیدائش تا وفات معصوم عن الخطاء ہوتا ہے۔‘‘
ابن بابویہ نے اپنی کتاب کمال الدین و تمام النعمتہ میں ’’وجوب عصۃ الامام‘‘ کا ایک عنوان قائم کیا ہے جس کے تحت اس نے مختلف روایات کا سہارا لے کر بے بنیاد قسم کے دلائل ذکر کیے ہیں۔ ایک جگہ لکھتا ہے:
’’اگر ہم کسی امام کی امامت کو تو مان لیں مگر اس کے معصوم ہوے پر ایمان نہ لائیں تو اس کا معنی یہ ہو گا کہ ہم نے اس کی امامت کو ہی نہیں مانا‘‘۔
( کمال الدین از ابن بابویه ۱۵/۱)
یعنی عصمت کے بغیر امامت کا تصور ادھورا اور نامکمل ہے جس طرح یہ کہنا کہ سیدنا محمد ﷺ نبی تو ہیں مگر معصوم نہیں انکار نبوت کو مستلزم ہے اسی طرح بارہ اماموں میں سے کسی کی عصمت پر ایمان نہ لانا اس کی امامت کے انکار کو مستلزم ہے۔
طبرسی اپنی کتاب ’’ اعلام الوریٰ‘‘ میں لکھتا ہے:
’’الامام لابد ان يكون معصوماً‘‘ (اعلام الوریٰ از طبری صفحه ۲۰)
’’ امام کے لئے معصوم ہوناضروری ہے‘‘۔
نیز ’’ انبیاء اور اماموں کے بارے میں ہمارا اعتقاد ہے کہ وہ ہر قسم کی برائی سے محفوظ ہیں۔ نہ کسی صغیرہ گناہ کا صدور ان سے ممکن ہے نہ کبیرہ گناہ کا ان کی عصمت کا انکار کرنے والا ان کی عظمت کا منکر اور ان کی فضیلت سے نا آشنا ہے‘‘۔
( بحار الانوار از مجلسی ۷۲/۱۱‘)
رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہوئے ایک شیعہ عالم لکھتا ہے:
’’ انا وعلى والحسن والحسين والتسعة من ولد الحسين مطهرون معصومون‘‘
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں، علی، حسن اور حسین کی اولاد میں سے نو امام معصوم اور گناہوں سے پاک ہیں۔
(عیون اخبار الرضا از این بابو یہ قمی ۶۴/۱ ، عقیدۃ الشیعتہ فی الامامتہ از محمد باقر شریعتی صفحه ۲۲۸)
نیز ’’امام کے لیے معصوم ہونا اس لیے ضروری ہے۔ کہ امام کی بعثت کا مقصد مظلوموں کی دادرسی اور زمین میں عدل و انصاف کا قیام ہوتا ہے۔ اور اگر امام سے بھی غلطی صادر ہونے کا امکان ہو تو اس کی اصلاح کے لیے کسی دوسرے امام کی ضرورت پڑے گی اور یوں تسلسل لازم آئے گا جو کہ محال ہے۔ ”
(عقيدۃ الشیعتہ فی الامامتہ از شریعتی صفحه ۲۲۸)
ابن بابویہ تھی اپنی کتاب معانی الاظہار میں لکھتا ہے:
’’ابن ابی عمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:
میں نے ہشام بن حکم سے پوچھا:
کیا امام معصوم ہوتا ہے؟
انہوں نے کہا: ہاں
راوی کہتا ہے :
میں نے پوچھا:
اوصاف عصمت کیا ہیں؟
کہا:
تمام گناہوں کو ہم چار قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
حرص، حسد، غضب ، اور شہوت
امام حریص اس لیے نہیں ہوتا کہ ساری دنیا اس کے قبضے میں ہوتی ہے۔ وہ خود دنیا کا مالک ہوتا ہے۔ حسداس لیے نہیں ہوتا کہ اس کا رتبہ سب سے بلند ہوتا ہے اور انسان حسد اس سے کرتا ہے جو اس سے بالا ہو۔
اسے غصہ اس لیے نہیں آتا کہ اس کی ساری جد و جہد کا محور اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ دنیوی خواہشات ولذت کا متبع اس لیے نہیں ہوتا کہ اسے آخرت اسی طرح محبوب ہوتی ہے جس طرح ہمیں دنیا۔
گناہ کی یہ چار قسمیں ہیں اور ان چاروں سے امام محفوظ ہوتا ہے۔
(معانی الاخبار از قمی صفحہ ۱۳۱ ‘ ۱۳۳ ، امالی الصدوق صفحه ۵۰۵)
شیعہ کا چوتھی صدی کا عالم ’’الحرانی‘‘ اپنی کتاب ’’ تحف العقول عن آل الرسول میں لکھتا ہے:
’’ الإمام مطهر من الذنوب ميرء من العيوب‘‘
امام گناہوں سے پاک اور عیوب سے صاف ہوتا ہے۔
(تحف الرسول صفحہ ۳۲۸)
شیعہ کہتے ہیں:
وجوب عصمة النبي ﷺ والله مع عدم وجوب عصمة الامام عليه السلام بما لا يجتمعان كلما وجب عصمة النبي ﷺ والله وجب عصمة الامام ‘‘
’’نبی اور امام دونوں معصوم ہیں، ایک کی عصمت اور دوسرے کی عدم عصمت اجتماع نا ممکن ہے۔ نبی کا معصوم ہوناضروری ہے تو امام کا معصوم ہونا بھی ضروری ٹھہرے گا ‘‘
(عقیدۃ الشیعتہ فی الامامۃ صفحہ ۲۳۶)
یعنی یہ کہنا کہ نبی اکرم ﷺ تو معصوم عن الخطاء ہیں اور بارہ اماموں میں سے کسی امام کے متعلق یہ کہنا کہ وہ غیر معصوم ہے شیعہ دین کے مطابق درست نہیں۔ عصمت ائمہ کے بارے میں آخری نص نقل کر کے ہم اس موضوع کو سمیٹتے ہیں ‘‘ مشہور شیعہ عالم محسن امین اپنی کتب ’’اعیان اشیعتہ‘‘ میں کہتا ہے:
’’ يجب في الامام أن يكون معصوما كما يجب في النبی‘‘
یعنی ’’امام کے متعلق معصوم ہونے کا عقیدہ رکھنا بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح نبی کے متعلق معصوم ہونے کا عقیدہ رکھنا واجب ہے۔‘‘
(اعیان الشیعتہ از محسن امین ۱ / ۱۰۱)
ان تمام نصوص واقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شیعہ دین میں جس طرح امام ، انبیاء کرام کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ اور اس کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اسی طرح وہ معصوم عن الخطا بھی ہوتا ہے۔
انکار ختم نبوت کی طرف شیعہ علماء کی طرف سے اٹھا یا جانے والا یہ دوسرا قدم تھا۔
وجوب اطاعت :
تیسرے نمبر پر شیعہ فقہاء محد ثین نے انکار ختم نبوت کے لیے جو عقیدہ وضع کیا وہ یہ تھا کہ اماموں کی اطاعت لوگوں پر فرض ہے یعنی جس طرح انبیائے کرام کے ارشادات و فرامین سے رو گردانی کرنا کفر ہے اسی طرح اگر کوئی شخص بارہ اماموں میں سے کسی امام کی نافرمانی کرتا ہے یا اس کی اطاعت واتباع کو فرض نہیں سمجھتا ہے تو وہ بھی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس لئے کہ وہ بھی انبیائے کرام کے ہم پلہ اور حاملین اوصاف نبوت ہیں۔ ابن بابویہ قمی اور ابن شیعہ حرانی متوفی ۳۸۱ ھ شیعہ کے آٹھویں امام علی بن موسیٰ رضا سے روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
امامت انبیاء کا رتبہ ہے نام اللہ کا خلیفہ ہوتا ہے۔ امام اسلام کی بنیاد بھی ہے اور اس کی شاخ بھی۔ نماز ،روزہ، زکوۃ اور دیگر فرائض وواجبات امام کے بغیر قبول نہیں ہوتے۔ امام کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اشیاء کو حلال یا حرام قرار دے۔ امام اللہ کا خلیفہ اور اس کی طرف سے اس کے بندوں پر حجت ہوتا ہے۔ پوری کائنات میں امام سب سے زیادہ افضل ہوتا ہے کوئی اس کا ہم مرتبہ نہیں ہوتا۔
یہ فضائل ( نبوت کی طرح ) وہبی اور غیر کسبی ہیں۔ امام نبوت کا خزانہ ہوتا ہے۔ اس کے حسب و نسب پر تنقید نہیں کی جاسکتی۔
آخر میں بقول شیعہ امام علی رضا کہتے ہیں:
مستحق للرئاسة مفترض الطاعة
یعنی اقتدار کا حق صرف امام کو ہوتا ہے اس کی اطاعت لوگوں پر فرض ہوتی ہے۔
(امالی الصدوق صفحہ ۵۴۰، کمال الدین ۶۷۷/۲، تحف العقول للحرانی صفحه ۳۲۶)
امام کے واجب الاطاعت ہونے کے عقیدہ کے وضاحت کرتے ہوئے شیعہ محدث طوی لکھتا ہے:
’’ سید نا ہارون علیہ السلام کی اطاعت بھی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرح ان کی امت پر فرض تھی اس لیے کہ وہ شریک نبوت تھے اور ظاہر ہے کہ اگر ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے بعد زندہ رہتے تب بھی ان کی اطاعت امت پر فرض رہتی اور چونکہ رسول اللہ ﷺ نے سید نا علی علیہ السلام کو وہ تمام مراتب عطا کیے تھے جو سید نا ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے دیے گئے تھے چنانچہ ثابت ہوا ۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کی امت پر علی علیہ السلام کی اطاعت (رسول اللہ کی طرح) فرض رہی۔
(تلخیص الشافی از طوسی ۲۱۰/۲)
قارئین اسی ایک نص سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ شیعہ دین میں امامت اور امام کا مفہوم کیا ہے اور یہ کہ سیدنا علیؓ سول اللہ ﷺ کے خلیفہ نہیں بلکہ وہ آپ کی نبوت میں شریک اور آپ کے ہم رتبہ و ہم پلہ تھے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے طوسی لکھتا ہے:
’’ على من الرسول ﷺ كنفسه طاعته كطاعته ومعصیته کمعصیته‘‘ (تلخیص الشافی از طوسی صفحه ۸۱)
على رسول اللہ ﷺ کے ہم مثل ہیں ان کی اطاعت رسول اللہ کی اطاعت ہے اور ان کی معصیت رسول اللہ کی معصیت ہے۔
یعنی سول الله ﷺ اور سید نا علی رضی اللہ عنہ کا مرتبہ برابر تھا۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ مبعوث ، معصوم اور واجب الاطاعت تھے اسی طرح علی رضی اللہ عنہ بھی مبعوث ، معصوم اور واجب الاطاعت تھے، رسالت اور امامت میں لفظی فرق تو ضرور ہے مگر حقیقت میں دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔
عياذاً باالله
چھٹی صدی ہجری کا مشہور شیعہ محدث ابو جعفر طبری اپنی کتاب ’’بشارۃ المصطفی لشیعتہ المرتضی‘‘ میں بیان کرتا ہے:
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ علی کا یہ کہنا درست ہے کہ اللہ نے انہیں اپنی مخلوق کے لیے امیر مقرر کیا ہے ؟
اس شخص کا یہ سوال سن کر آپ غصہ میں آگئے اور فرمایا:
علی مومنوں کے امیر ہیں اللہ نے ان کے امارت کا فیصلہ فرشتوں کو گواہ بنا کر اپنے عرش پر کیا ہے، علی اللہ کے خلیفہ اور مسلمانوں کے امام علی کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔
ان کی معصیت اللہ کی معصیت ہے۔
ان کی پہچان میری پہچان ہے۔
ان کی امامت کا منکر میری نبوت کا منکر ہے۔
اور ان کی امارت کا منکر میری رسالت کا منکر ہے۔
علی، فاطمہ ، حسن، حسین اور باقی نو امام اللہ کے بندوں پر حجت ہیں۔
’’ ہمارا دشمن اللہ کا شمن ہے اور ہمارا دوست اللہ کا دوست ہے‘‘۔
(بشارۃ المصطفیٰ از طبرسی متوفی ۵۳۳ مطبوعه نجف عراق)
اس روایت سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ بارہ اماموں کی اطاعت رسول اللہ ﷺ کی طرح امت پر فرض ہے۔
شیعہ علی رضا آٹھویں امام سے نقل کرتے ہیں کہ :
آپ نے فرمایا:
’’ الناس عبيد لنا فی الطاعة‘‘ (بشارة مصطفیٰ از طبرسی متوفی ۵۳۳ مطبوعه نجف عراق)
یعنی لوگ اطاعت کی اعتبار سے ہمارے غلام ہیں۔
مجلسی لکھتا ہے:
’’طاعة الأئمة واجبة على الناس في اقوالهم وافعالهم (حق الیقین از مجلسی باب اثبات الامامۃ صفحہ ۴۱)
’’لوگوں پر اماموں کے اقوال و افعال کی اطاعت فرض ہے۔
بحار الانوار میں لکھتا ہے:
’’ان طاعة الائمة كطاعة الرسول ومعصيتهم كمعصية الرسول‘‘ (بحار الانوار از ملا باقر مجلسی ۲۵ / ۳۶۱، عقیدۃ الشیعتہ فی الامامتہ صفحہ ۲۰۹)
اماموں کی اطاعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی رسول کی نافرمانی ہے۔ ابو خالد کابلی سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا:
میں علی زین العابدین ۔ (شیعہ کے چوتھے امام) کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے پوچھا:
اے صاحبزادہ رسول ! ہمارے اوپر اللہ کی طرف سے کن کی اطاعت فرض ہے؟
آپ نے فرمایا:
’’علی علیہ السلام کی پھر حسن اور پھر حسین علیہ السلام کی۔ اور اب یہ سلسلہ ہم تک پہنچ چکا ہے۔“
(بحار الانوار از مجلسی۔ باب نص علی بن الحسین علیہ السلام ۳۸۶/۳۶)
کلینی لکھتا ہے: امام جعفر فرماتے ہیں:
نحن قوم معصومون امر الله تبارک و تعالى بطاعتنا ونهى عن معصيتنا نحن الحجة البالغة على من دون السماء وفوق الارض “ (اصول کافی ۲ /۲۶۹)
’’ہم سب بارہ امام معصوم عن الخطاء ہیں اللہ نے ہماری اطاعت کا حکم دیا ہے اور ہماری نافرمانی سے منع فرمایا ہے، ہم آسمان سے نیچے اور زمین کے اوپر رہنے والوں کے لیے اللہ کی طرف سے حجت ہیں۔
بارہ اماموں میں سے کسی اور امام کی طرف منسوب کرتے ہوئے یہی کلینی لکھتا ہے۔ انہوں نے کہا:
’’ طا عتى مفترضة مثل طاعة على وكذالك الائمة من بعدی‘‘ (اصول کافی ۱/ ۱۸۷)
’’ میری اطاعت علی کی اطاعت کی طرح فرض ہے۔ اسی طرح میرے بعد آنے والے کاموں کے اطاعت بھی فرض ہے‘‘
اسی بنا پر شیعہ مفسر ’’البحرانی ‘‘ کہتا ہے:
’’من جحد امامة امام الله فهو كافر مرتد‘‘ ( تفسیر البریان، مقدمه صفحه ۲۱)
’’ بارہ اماموں میں سے کسی امام کی امامت‘‘ کا انکار کرنے والا کافر و مرتد ہے۔
مشہور شیعہ عالم مفید فرید وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’ اماموں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو شخص کسی امام کی امامت پر ایمان نہ لائے اور اس کی اطاعت کی فرضیت کو تسلیم نہ کرے
’’ فھو کافر صال مستحق الخلود في لنار‘‘ (کتاب المسائل از مفید نقل از مقدمہ البرہان للبحرانی ص ۲۰)
یعنی وہ کافر گمر اہ اور جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کا مستحق ہے‘‘
اسی سلسلے میں ابن بابویہ قمی جسے شیعوں نے ’’صدوق‘‘ کا لقب دے رکھا ہے۔ اپنی کتاب میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس شیعی عقیدے کو بیان کرتا ہے:
’’اعتقادنا فيمن جحد امامة امير المومنين على بن ابي طالب عليه السلام وأئمة من بعده انه كمن جحد نبوة جميع الانبياء‘‘ ( اعتقاد الصدوق صفحه ۱۱۳، عقید ت الشیعتہ فی الامامتہ صفحہ ۱۴۱)
"جو شخص امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور دیگر (گیارہ) ناموں کی علامت پر ایمان نہ لائے ہمارا اس کے متعلق عقیدہ ہے کہ وہ اس شخص کی مانند ہے جو تمام انبیاء کرام کی نبوت کا منکر ہو‘‘
بحرانی لکھتا ہے:
ان الائمة مثل النبي في فرض الطاعة و الافضلية ( تفسیر البرہان مقدمہ صفحہ ۱۹)
’’ بارہ امام وجوب اطاعت اور افضلیت میں نبی اکرم ﷺ ہم پلہ و ہم مرتبہ ہیں‘‘
یعنی جس طرح رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و اتباع امت پر فرض ہے اسی طرح بارہ اماموں کی اطاعت واتباع بھی فرض ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا منکر کا فر و مرتد ہے اسی طرح لاموں کی اطاعت کا منکر کافر و مرتد ہے۔
این با بو یہ قمی کہتا ہے:
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
’’نحن معدن النبوة ومحن موضع الرسالة‘‘ —– (کمال الدین از ابن بابویہ قمی ۱/ ۲۰۶)
’’ ہم نبوت کا خزانہ ہیں اور جائے رسالت ہیں ہمارے پاس فرشتوں کی آمد رفت رہتی ہے۔‘‘
طوسی کی کتاب تلخیص الشافی کا محشی سید حسین ، العلوم لکھتا ہے:
’’ ان منطلق الامامة هو منطلق النبوة بالذات، والهدى الذي من اجله وجبت النيرة هو نفسه الهدف الذى من اجله تجب الامامة ( تلخيص الشافی از طوسی حاشیہ ۴/۱۳۱، و مثلہ فی عقیدہ الشیعتہ فی الامامتہ‘‘صفحه ۲۰۳)
’’امامت کا وہی فلسفہ ہے جو نبوت کا ہے۔ اسی طرح جن مقاصد کی تکمیل کے لیے نبوت کا اجراء کیا گیا وہی مقاصد امامت کے بھی ہیں‘‘
مزید لکھتا ہے
’’ الامامة اذن قرين النبوة‘‘ (تلخیص الشافی از طوسی- حاشیہ ۱۳۱/۴، ومثله في ’’عقيد والشیعتہ فی الامامتہ ‘‘ صفحه ۲۰۳)
’’ یعنی بنا بریں یہ کہا جا سکتا ہے کہ امامت نبوت کے ہم پلہ ہے‘‘
اور ظاہر ہے جب امامت نبوت کے ہم پلہ و ہم مرتبہ ہے تو امام بھی نبی و رسول کے ہم پلہ و ہم رتبہ ہوگا۔
بلکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ بارہ امام انبیائے کرام سے افضل واعلیٰ ہیں چنانچہ شیعہ رہنما خمینی لکھتا ہے:
’’ان من ضروريات مذهبنا انه لا ينال احد المقامات الروحية للائمة حتى ملك مقرب ولا نبي مرسل وهذا من الاسس والاصول التى قام عليها مذهبنا (ولایت فقیہ در خصوص حکومت اسلامی صفحہ ۵۸ مطبوعہ ایران)
یعنی ’’ یہ ہمارے مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے کہ جو مراتب و مقامات اماموں کو حاصل ہیں ان تک کوئی مقرب فرشتہ یا کوئی رسول بھی نہیں پہنچ سکتا اس عقیدے پر ہمارے مذہب کی بنیاد ہے‘‘
خمینی نے اپنا یہ عقیدہ اکابرین شیعہ کی کتب سے مذ کیا ہے۔ چنانچہ ملا باقر مجلسی لکھتا ہے:
’’ان الائمة افضل من الانبیاء ‘‘
’’ امام انبیاء سے افضل ہیں‘‘
(بحار انوار از مجلسی ۲۶/۲۴۰)
الحر العاملی لکھتا ہے:
الائمة الاثنا عشر أفضل من سائر المخلوقات من الانبياء والاوصياءٍ السابقين ( الفصول الممتہ فی اصول الائمتہ از اجر عاملی صفحہ ۱۵۲)
’’بارہ امام سابقہ تمام انبیاء و اوصیاء اور ساری کائنات سے افضل ہیں‘‘
شیعہ محدث ابن بابویہ قمی نے اپنی کتاب ’’ عیون الاخبار الرضا‘‘ میں عنوان قائم کیا ہے:
’’افضلية الامة على جميع الانبیاء‘‘ (عیون اخبار الرضار قمی۱ / ۲۶۲)
یعنی امام تمام انبیاء سے اٖفضل ہیں“
رسول اللہ ﷺ کے علاوہ باقی تمام انبیاء کرام سے اماموں کے افضل ہونے کی تو شیعہ کتب میں تصریح موجود ہے۔ مگر رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کہتے ہیں:
الائمة بمنزلة رسول الله ﷺ ” (اصول کافی ۱ /۲۷۰)
’’اماموں کا رتبہ رسول اللہ کے برابر ہے‘‘
حالانکہ یہ محض تکلفاً اور عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے کہا گیا ہے حقیقت میں یہ لوگ اپنے اماموں کو رسول اللہ ﷺ سے بھی افضل قرار دیتے ہیں۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ الشیعتہ واہل البیت از علامہ احسان الہی ظہیرؒ صفحہ ۱۹۱۔
’’ بہر حال یہ بحث تو ضمناً آگئی۔ موضوع چل رہا تھا۔ شیعوں کے عقیدہ انکار ختم نبوت کا ہم نے بیان کیا تھا کہ شیعوں کے نزدیک اماموں کی اطاعت فرض ہے اب ہم اماموں پر نزول وحی کے عقیدے کی وضاحت کرتے ہیں۔
نزول وحی
انکار ختم نبوت کی طرف شیعہ مذہب کے بانیوں کی طرف سے جو آخری قدم اٹھایا گیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے عقیدہ وضع کیا کہ اماموں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کرام کی طرح با قاعدہ وحی نازل ہوتی تھی علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ شیعوں کے اس عقیدے کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی کتاب بین اشیعتہ و اہل السنہ میں لکھتے ہیں:
’’ ان الشيعة يعتقدون نزول الوحى على المتهم وعن طريق جبريل عن طريق ملک اعظم وافضل من جبريل ، فإن المتهم في الحديث بوبوا أبوابا مستقلة في هذا الخصوص (بین الشیعتہ واہل السنتہ صفحہ ۱۴۱ مطبوعہ ادارہ ترجمان السنتہ لاہور )
’’شیعہ گروہ کا عقیدہ ہے کہ ان کے اماموں پر وحی نازل ہوتی ہے:
کثر اوقات جبریل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر ان پر نازل ہوتے تھے اور کبھی کبھی شیعوں کے مطابق جبریل علیہ السلام سے بھی عظیم اور افضل فرشتہ ان پر نازل ہو تا تھا۔ شیعہ اکابرین نے اس سلسلے میں مستقل ابواب قائم کیے ہیں‘‘
یہ عقیدہ رکھنے کے بعد نہ صرف یہ کہ شیعوں اور دیگر منکرین ختم نبوت کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا بلکہ اس عقیدے میں شیعہ اثنا عشری اپنے ہم عقیدہ تمام فرقوں پر بھی بازی لے گئے ہیں شیعوں کی کتب میں ان کے محدثین واکابرین نے بہت سی ایسی نصوص ذکر کی ہیں جن سے واضح طور پر یہ ثبوت ملتا ہے کہ شیعہ اپنے اماموں پر وحی نازل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
اس سلسلے میں اہم ترین کتاب بصائر الدرجات ہے جو کہ محمد بن حسن الصفار کی تصنیف ہے۔ محمد بن حسن صفار شیعوں کے سب سے بڑے محدث کلینی کا استاد ہے اور قدیم ترین شیعہ محدث ہے شیعہ مورخین کے مطابق یہ شخص گیارھویں امام حسن عسکری کے مقربین میں سے تھا۔
(رجال طوسی صفحہ ۴۳۶)
اس شیعہ محدث نے اپنی کتاب ” بصائر الدرجات الکبریٰ فی فضائل آل محمد “ میں بے شمار ایسے عنوانات قائم کیے اور ان کے تحت ایسی روایات ذکر کی ہیں جن سے شیعوں کے اس عقیدے کی توضیح ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کتاب کا ایک عنوان ہے۔
’’الباب الخامس عشر في الائمة عليهم السلام ان روح القدس بتلقاهم از احتاجوا اليه (بصائر الدرجات از صفات- الباب الخامس عشر الجزء التاسع صفہ ۴۷۱)
’’ یعنی جب ائمہ کو ضرورت محسوس ہوتی ہے تو روح القدس ان سے ملاقات کیلئے حاضر ہو جاتے ہیں۔‘‘
روح القدس سے کیا مراد ہے ؟ یہی صفار اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے ، امام جعفر صادق فرماتے ہیں:
” خلق الله اعظم من جبرائيل وميكائيل وقد كان مع رسول الله لا يغيره ويسدده وهو مع الائمة يخبرهم ويسددهم (بصائر الدرجات از صفات۔ الباب الخامس عشر الجزء التاسع صفحہ ۴۷۵)
’’روح القدس جبرائل اور میکائیل سے بھی بڑا فرشتہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں یہ فرشتہ آپ کے ساتھ ہوتا تھا۔ آپ کو غیب کی خبریں دیا کرتا اور آپ کی راہنمائی کرتا تھا۔ اب وہ اماموں کے ساتھ ہوتا ہے انہیں غیب کی خبریں دیتا اور ان کی راہنمائی کرتا ہے ‘‘
ایک روایت کے مطابق یہ فرشتہ جس کی قرآن و حدیث میں کوئی وضاحت نہیں ہے رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی نبی یارسول پر نازل نہیں ہوا۔ یہ صرف آپ ﷺ اور بارہ اماموں کے لیے مخصوص تھا۔
(بصائر الدرجات الباب الثامن عشر صفحہ ۴۸۱)۔
اس قسم کی روایات کلینی نے بھی اصول کافی میں ذکر کی ہیں لکھنا ہے:
’’امام ابو عبد الله (جعفر صادق) علیہ السلام نے فرمایا:
جب سے اللہ تعالیٰ نے جبرائیل و میکائیل سے بھی بڑے روح نامی اس فرشتے کو نازل فرمایا ہے یہ آسمانوں پر نہیں گیا پہلے یہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہوتا تھا اب یہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔“
(اصول کافی ۔ کتاب الحجہ ۲۷۳/۱)
ایک اور شیعہ محدث الحر العاملی اپنی کتاب ’’ الفصول المهمة فی اصول الائمة ‘‘ میں لکھتا ہے:
’’ أن الملائكة ينالون ليلة القدر إلى الارض ويعبرون الائمة عليهم السلام جميع ما يكون في تلك السنة من قضاء وقدر والهم يعلمون كل علم الانبياء عليهم السلام ‘‘ (الفصول المهمة في اصول الائمة باب ۹۴ صفحه ۱۴۵-)
’’لیلتہ القدر میں فرشتے زمین پہ اترتے ہیں۔ اماموں کے پاس جاتے ہیں اور انہیں سال بھر میں رونما ہونے والے تمام واقعات اور قضاء و قدر یعنی اللہ تعالیٰ نے اس سال کے لیے جتنے بھی فیصلے کیے ہیں ان کی خبر دیتے ہیں، اسی طرح بارہ اماموں کے پاس تمام انبیاء کرام کا علم ہوتا ہے۔‘‘
’’علی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئی مرتبہ ہم کلام ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ اور علی علیہ السلام کے در میان جبرئیل علیہ السلام واسطہ ہوتے تھے۔“
(بصائر الدرجات۔ الباب السادس عشر صفحہ ۴۳۰)
ایک اور جگہ لکھتا ہے:
ایک دفعہ جبرائیل و میکائیل علی علیہ السلام پر نازل ہوئے اور ان سے گفتگو کی “۔
(بصائر الدرجات۔ الباب السادس عشر صفحہ ۳۴۱)
’’نیز امام باقر اور امام جعفر علیہما السلام کے پاس ایک دفعہ جبریل اور ملک الموت آئے جبریل بوڑھے آدمی کی شکل میں تھے اور میکائیل جوان اور خوبصورت آدمی کی شکل میں “۔
(بصائر الدرجات۔ الجزء الخامس صفحه ۲۵۳)
➊ ایک دفعہ حضرت جعفر سے دریافت کیا گیا:
اے حضرت! جب آپ سے کوئی ایسا سوال پو چھا جاتا ہے جس کا آپ کو علم نہیں ہوتا تو آپ کیا کرتے ہیں؟
جواب میں کہا:
جب بھی ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو روح القدس ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔
(بصائر الدرجات۔ الباب الخامس عشر صفحہ ۴۷۱)
بصائر الدرجات میں شیعہ راوی بشر بن ابراہیم سے روایت ہے:
ایک روز میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس بیٹا ہوا تھا کہ ایک شخص اندر داخل ہوا اور کوئی مسئلہ دریافت کیا۔
امام علیہ السلام فرمانے لگے :
ماعندی فیهاشتی
مجھے اس کا علم نہیں ہیں وہ آدمی یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ دعویٰ واجب الاطاعت ہونے کا کرتے ہیں مگر سوالات کا جواب دے نہیں سکتے ؟ امام جعفر نے قورا دیوار کے ساتھ اپنا کان لگایا گویا کہ کوئی انسان ان سے ہم کلام ہو تھوڑی دیر بعد فرمایا:
سائل کہاں ہے ؟ اسے واپس بلایا گیا:
امام علیہ السلام نے اسے اس کے سوال کا جواب دیا اور واپس چلا گیا۔ پھر مری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے۔
’’لولا نزاد النفد ما عندنا‘‘ (بصائر الدرجات صفحہ ۴۱۶)
’’یعنی اگر ہمارے علم میں اضافہ نہ کیا جائے تو ہمارا علم کب کا ختم ہو چکا ہو تا۔‘‘
آخر میں اصول کافی کی ایک عبارت نقل کر کے ہم اس بحث کو سمیٹتے ہیں۔ کلینی نے اپنی کتاب میں عنوان قائم کیا ہے:
’’باب ان الاكمة تدخل الملائكة بيرتهم وتطأبسطهم وثانيهم بالاخبار‘‘
یعنی فرشتے اماموں کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں ان کی مسندوں پر بیٹھتے ہیں اور انہیں غیب کی جبریں دیتے ہیں۔
ان واضح نصوص و عبارات کے بعد کسی شیعہ کے لیے اس امر کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اماموں پر نزول وحی کے عقیدے کا انکار کرے اور کہے کہ شیعہ ختم نبوت کے منکر نہیں یا یہ کہ وہ بارہ اماموں کو بارہ
نبی نہیں سمجھتے۔
خلاصہ مبحث:
گذشته ساری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ شیعہ اثنا عشر عقیدہ امامت کے پردے میں ختم نبوت کے منکر ہیں وہ امام ان کے نزدیک۔
ا۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے۔
۲۔ معصوم عن الخطاء ہوتا ہے۔
لہ واجب الاطاعت ہوتا ہے۔
۴۔ اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔
شیعہ قوم یا تو ان عقائد سے تو بہ کرے اور اپنے ان تمام اکابرین سے براءت کا اظہار کرے جنہوں نے ان عقائد کو وضع کیا اور انہیں مسلمانوں میں رواج دیایا پھر کھل کر کہے کہ ان کے نزدیک ختم نبوت کا کوئی تصور نہیں اور آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ نہیں بلکہ محمد بن جس عسکری تھے تاکہ مسلمان امت ان کے متعلق دو ٹوک فیصلہ کر سکے۔
یہ مقاله ان شیعہ حضرات کی لیے اتمام محبت کے حیثیت رکھتا ہے جو واقعی حق کے متلاشی ہیں اور اپنی عاقبت کو سنوارنا چاہتے ہیں۔ کیا وہ چاہیں گے کہ وہ ایسے مذہب کو اختیار کیے رکھیں جس کی تعلیمات واضح طور پر اسلام اور کتاب و سنت سے متصادم ہوں اور جس مذہب میں ختم نبوت ورسالت کا تصور موجود نہ ہو۔
نستال الله الهداية وهو الهادي إلى سواء السبيل