شیطان کے گمراہ کرنے کے متعد د طریقے ہیں۔ ذیل میں ہم ان طریقوں میں سے چند ایک کا تذکرہ کرتے ہیں کیونکہ جب تک انسان کے جسم میں جان ہے اس وقت تک وہ انسان کو گمراہ کرنے کی قسم کھا چکا ہے، جیسا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے ۔ ملاحظہ کریں ۔
«عن ابي سعيد الخدري قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن إبليس قال لربه بعزتك وجلالك لا أبرح أغوي بني آدم ما دامت الارواح فيهم فقال له الله فبعزتي وجلالي لا أبرح أغفر لهم وماستغفروني»
مسند احمد: 29/3 – مستدرك حاكم وصححه: 261/4 ـ صحيح الجامع الصغير: 72/2 ۔
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شیطان نے کہا تھا: اے پروردگار! تیری عزت کی قسم ! میں تیرے بندوں کو اس وقت تک گمراہ کرتا رہوں گا جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجھے میری عزت وجلال کی قسم ! میں ان کو مسلسل بخشتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے۔ “
1۔ وسوسہ ڈالنا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴿٤﴾ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ﴿٥﴾ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴿٦﴾
(114-الناس: 4تا6)
”وسوسہ ڈالنے والے کے شرسے جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں سے۔ “
ایک مقام پر فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ ﴿٢٠١﴾
(7-الأعراف: 201)
”یقیناً جو لوگ ڈرتے ہیں جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی (برا) خیال چھو جائے تو ہوشیار ہو جاتے ہیں ، پھر اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔“
«عن على بن حسين عن صفية بنت حيي قالت قال إن الشيطان يجرى من ابن آدم مجرى الدم»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابليس وجنوه، رقم: 3281.
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان انسانوں کی رگوں میں اس طرح دوڑتا ہے جیسے رگوں میں خون گردش کرتا ہے، مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ کہیں تمہارے دل میں کچھ ڈال نہ دے۔“
2۔ بھلانا:
شیطان کے گمراہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ انسان کو کوئی چیز بھلا دیتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
﴿اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿١٩﴾
(58-المجادلة: 19)
”شیطان ان پر غالب آ گیا ہے سو اس نے انہیں اللہ کی یاد بھلا دی۔ یہی لوگ شیطان کا گروہ ہیں، خوب یاد رکھو، بے شک شیطان کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو گھاٹا پانے والے ہیں ۔ “
دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا ﴿٦٣﴾
(18-الكهف: 63)
”اس نے جواب دیا کہ کیا آپ نے دیکھا بھی؟ جب کہ ہم پتھر سے ٹیک لگا کر آرام کر رہے تھے وہیں میں مچھلی بھول گیا تھا، دراصل شیطان نے ہی مجھے بھلا دیا تھا کہ میں آپ سے اس کا ذکر کروں۔ اس مچھلی نے ایک انوکھے طور پر دریا میں اپنا راستہ بنالیا۔ “
ایک جگہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا:
﴿وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ ﴿٤٢﴾
(12-يوسف: 42)
”اور جس کی نسبت یوسف کا گمان تھا کہ ان دونوں میں سے یہ رہا ہونے والا ہے، اس سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے میرا ذکر بھی کر دینا ، پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاہ سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف کئی سال قید خانے میں ہی رہے۔ “
3۔ امیدیں اور جھوٹے وعدے:
شیطان کے گمراہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ بندوں کو لمبی لمبی امیدوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ لوگ لمبی لمبی امیدیں لگا بیٹھتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿لَّعَنَهُ اللَّهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴿١١٨﴾ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا ﴿١١٩﴾ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿١٢٠﴾
(4-النساء: 118تا120)
”جس پر اللہ نے لعنت کی اور اس نے کہا کہ میں تیرے بندوں سے مقرر حصہ لے کر رہوں گا۔ اور انہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امید میں دلاتا رہوں گا، اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں، اور ان سے کہوں گا کہ اللہ کی بنائی صورت کو بگاڑ دیں ، سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا، یقیناً اس نے واضح خسارہ اٹھا لیا ، وہ ان سے زبانی وعدے کرتا رہے گا، اور سبز باغ دکھاتا رہے گا، (مگر یاد رکھو!) شیطان کے جو وعدے ان سے ہیں وہ سراسر دھوکہ ہیں۔ “
ایک مقام پر فرمایا:
﴿وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٢٢﴾
(14-إبراهيم: 22)
”اور جب کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تمہیں سچا وعدہ دیا تھا، اور میں نے تم سے جو وعدے کیے تھے تو میں نے ان کے خلاف کیا، میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں ، ہاں میں نے تمھیں پکارا اور تم نے میری مان لی ۔ پس تم مجھے ملامت نہ کرو اور اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہارا فریاد رس ہوں اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے، میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے۔ یقیناً ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ “
4۔ فقر و فاقہ اور محتاجی کا ڈر:
شیطان کے گمراہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ شیطان انسان کو فقر و فاقہ اور محتاجی سے ڈراتا ہے۔ اس کا ذکر قرآن یوں کرتا ہے:
﴿الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦٨﴾
(2-البقرة: 268)
”شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے، اور تمھیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ وسعت والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
اپنے دشمن یعنی شیطان کی پیروی ہرگز نہ کرنا، جو تمہیں بخل کا حکم دیتا ہے، اور تم کو ڈراتا ہے کہ خرچ کرنے سے مفلس ہو جاؤ گے، وہ تمہاری خیر خواہی کے طور پر یہ مشورہ نہیں دیتا ، بلکہ یہ اس کا بہت بڑا دھوکہ ہے۔
﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿٦﴾
(35-فاطر: 6)
”وہ اپنی جماعت کو (گناہ کی طرف بلاتا ہے تا کہ وہ بھی جہنمی بن جائیں۔ “
بلکہ اپنے رب کا حکم مانو جو تمہیں ایسے انداز سے خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے جو تمہارے لیے آسان ہو اور جس میں تمہارا کوئی نقصان نہ ہو اس کے ساتھ ﴿يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ﴾ ”وہ تم سے وعدہ کرتا ہے اپنی بخشش کا“ ۔ یعنی تمہیں گناہوں سے پاک کرنے کا ﴿وَفَضْلًا﴾ ”اور فضل کا“ جس سے دنیا اور آخرت میں تمہارا بھلا ہو گا یعنی جو خرچ کرتے ہوں ویسا ہی جلد ہی (دنیا میں ) تمہیں دے گا دلوں کو خوشی اور سکون اور قبر میں راحت حاصل ہو گی ، قیامت کے دن اس کا پورا پور اثواب بھی ملے گا اور اللہ تعالیٰ کے لیے اتنا زیادہ اجر و ثواب اور انعام دینا مشکل نہیں۔“
(تفسیر السعدی: 319/1)
5۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے ڈرانا:
اس کے گمراہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ یہ غیر اللہ کا ڈر انسانوں کے دلوں میں بٹھا دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٧٥﴾
(3-آل عمران: 175)
”یہ خبر دینے والا صرف شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو ۔“
6 ۔ بُرے اعمال کو مزین کر کے دکھانا:
گمراہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ یہ انسان کے بُرے اعمال کو مزین کر کے اس کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٤٣﴾
(6-الأنعام: 43)
”سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہ اختیار کی؟ لیکن ان کے قلوب سخت ہو گئے ، اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کر دیا۔ “
ایک مقام پر فرمایا:
﴿وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ﴿٢٤﴾
(27-النمل: 24)
”میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا شیطان نے ان کے کام ان کے لیے مزین کر دیئے ہیں، اور انہیں صحیح راہ سے روک دیا ہے ، پس وہ سیدھا راستہ نہیں پاتے۔“
نیز فرمایا:
﴿وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَد تَّبَيَّنَ لَكُم مِّن مَّسَاكِنِهِمْ ۖ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ ﴿٣٨﴾
(29-العنكبوت: 38)
”اور ہم نے عادیوں اور ثمودیوں کو بھی غارت کیا، جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں اور شیطان نے انہیں ان کی بد اعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں ، اور انہیں اصل راہ سے روک دیا تھا ، حالانکہ وہ سمجھ دار تھے۔“
7 ۔ صراط مستقیم میں رکاوٹ ڈالنا:
اس کے گمراہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو راہ راست پر آنے سے ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
﴿وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ﴿٣٦﴾ وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٣٧﴾
(43-الزخرف: 36، 37)
”اور جو شخص رحمن کی یاد سے غفلت کرے، ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے، اور وہ انہیں اصل راہ سے روکتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ سیدھی راہ پر ہیں۔“
8 ۔ اللہ کی یاد سے غافل کرنا:
شیطان انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کر کے اسے اللہ سے دور کر دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ﴿٩١﴾
(5-المائدة: 91)
”شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی یاد اور نماز سے روک دے، کیا تم باز آنے والے ہو؟“
9۔ آ پس میں پھوٹ ڈالنا:
«عن جابر، قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: "إن الشيطان قدايس أن يعبده المصلون فى جزيرة العرب، ولكن فى التحريش بينهم»
صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقين، باب تحريش الشيطان الخ، رقم: 2812 – مسند احمد: .126/4۔
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً شیطان مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرہ عرب میں نمازی اس کی عبادت کریں لیکن ان کے مابین فساد انگیزی کے لیے کوشاں ہے ۔ “
اس امر کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:
﴿وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿٥٣﴾
(17-الإسراء:53)
”اور میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔ بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے انہیں بہتر اخلاق و اعمال اور اقوال کا حکم دیا ہے جو دنیا و آخرت کی سعادت کے موجب ہیں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ ”کہہ دو میرے بندوں سے بات وہی کہیں جو اچھی ہو۔“ یہ ہر اس کلام کے بارے میں حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہے مثلاً قراءت قرآن ، ذکرِ النبی ، حصول علم ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسب مراتب اور حسب منزلت شیریں کلامی و غیر ہ اگر وہ اچھے امور در پیش ہوں اور ان دونوں میں جمع و تطبیق ممکن نہ ہو تو ان میں جو بہتر ہو اس کو ترجیح دی جائے اور اچھی بات ہمیشہ خلق جمیل اور عمل صالح کو دعوت دیتی ہے اس لیے جسے اپنی زبان پر اختیار ہے اس کے تمام معاملات اس کے اختیار میں ہیں۔ ﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ﴾ ”بے شک شیطان ان کے درمیان جھڑپ کرواتا ہے۔“ یعنی شیطان بندوں کے دین و دنیا کو خراب کر کے ان کے درمیان فساد پھیلانا چاہتا ہے اور اس فساد کی دوا یہ ہے کہ وہ بُری باتوں میں شیطان کی پیروی نہ کریں
جن کی طرف شیطان دعوت دیتا رہتا ہے، اور آپس میں نرم رویہ اختیار کریں تاکہ شیطان کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع ہو جو ان کے درمیان فساد کا بیج بوتا رہتا ہے ، اس لیے شیطان ان کا حقیقی دشمن ہے اور ان پر لازم ہے کہ وہ شیطان کے خلاف مصروف جنگ رہیں۔ اس لیے کہ وہ تو انہیں دعوت دیتا رہتا ہے۔ ﴿لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴾ (35-فاطر:6) ”تا کہ وہ جہنم والے بن جائیں۔“ اگر چہ شیطان ان کے درمیان فساد اور عداوت ڈالنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ، لیکن اس بارے میں کامل عزم واحتیاط یہ ہے کہ اپنے دشمن شیطان کی مخالفت کی جائے نفس امارہ کا قلع قمع کیا جائے جس کے راستے سے شیطان داخل ہوتا ہے اس طرح وہ اپنے رب کی اطاعت کر سکیں گے ان کا معاملہ درست رہے گا اور راہ ہدایت پالیں گے۔“
(تفسیر السعدی: 2/ 1468)
ایک مقام پر اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٣٥﴾
(41-فصلت:34، 35)
”نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی ۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو، پھر تیرا دشمن ایسا ہو جائے گا جیسے ولی دوست اور یہ بات انہی کو نصیحت ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پاسکتا۔ “
10۔ شکوک وشبہات پیدا کرنا :
شیطان کے گمراہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو شکوک و شبہات کے لق و دق صحرا میں بھٹکا دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٥٢﴾ لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ﴿٥٣﴾
(22-الحج:52، 53)
” ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا، شیطان نے اس آرزو میں کچھ ملا دیا ، پس شیطان کی ملاوٹ کو اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے، پھر اپنی باتیں پکی کر دیتا ہے۔ اللہ تعالی دانا، حکمت والا ہے۔ یہ اس لیے کہ شیطانی ملاوٹ کو اللہ ان لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بنادے جن کے دلوں میں بیماری ہے، اور جن کے دل سخت ہیں۔ بے شک ظالم لوگ دور دراز کی مخالفت میں ہیں۔ “
11 ۔ خواہشات کے پیچھے چلاتا ہے :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿١٧٥﴾ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿١٧٦﴾
(7-الأعراف:175، 176)
”اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے بالکل ہی نکل گیا ، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا، سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہو گیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہو گیا، اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگا۔ سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر کچھ لا دے تب بھی ہانپے، یا اس کو چھوڑ دے تب بھی ہانپے۔ یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ سو آپ اس حال کو بیان کر دیجیے شاید وہ لوگ غور و فکر کریں۔
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”پس اُس کتاب کو چھوڑ دیا اور ان اخلاق کو دور پھینک دیا جن کا حکم کتاب اللہ دیتی تھی اور ان اخلاق کو اس طرح (اپنی ذات سے ) اُتار دیا جس طرح لباس اُتارا جاتا ہے۔ جب وہ آیات الہی سے نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگ گیا۔ اور جب وہ مضبوط پناہ گاہ سے نکل بھاگا تو شیطان اس پر مسلط ہو گیا۔ اور یوں وہ ادنی ترین لوگوں میں شامل ہو گیا۔ شیطان نے اسے گناہوں پر آمادہ کیا (اور وہ گناہوں میں گھر گیا ) ﴿فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ﴾ ”پس وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔ “جب کہ وہ ہدیت یافتہ لوگوں میں سے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے حال پر چھوڑ کر اس کے نفس کے حوالے کر دیا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا﴾ ”اور اگر ہم چاہتے تو اس کا رتبہ ان آیتوں کی بدولت بلند کر دیتے ۔ یعنی ہم اسے آیات الہی پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرتے اور یوں وہ دنیا و آخرت میں بلند درجات پاتا اور اپنے دشمنوں سے محفوظ ہو جاتا۔ ﴿وَلَٰكِنَّهُ﴾ مگر اس نے ایسے افعال سر انجام دیے جو اس بات کا تقاضا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی توفیق سے محروم کر دے۔ ﴿أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ﴾ ”وہ ہو رہا زمین کا ۔“ یعنی وہ سفلی جذبات و خواہشات اور دنیاوی مقاصد کی طرف مائل ہو گیا۔ ﴿وَاتَّبَعَ هَوَاهُ﴾ اور خواہشات نفس کے پیچھے لگ گیا اور اپنے آقا ومولیٰ کی اطاعت چھوڑ دی ۔ ﴿فَمَثَلُهُ﴾ تو اس کی مثال پس دنیا کی حرص کی شدت اور اس کی طرف میلان میں اس کی حالت یہ ہوگئی ﴿كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث﴾ ”جیسے کتا ہوتا ہے اس پر تو بوجھ لا دے تو ہانپے اور چھوڑ دے تو ہانپے ۔ یعنی وہ ہر حال میں (حرص کی وجہ سے ) زبان باہر نکالے رکھتا ہے ، سخت لالچی بنا رہتا ہے اس میں ایسی حرص ہے جس نے اس کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ہے دنیا کی کوئی چیز اس کی محتاجی کو دُور نہیں کر سکتی ۔
(تفسیر السعدی )
12 ۔ برائی اور بے حیائی کا حکم دینا :
﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿١٦٨﴾ إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿١٦٩﴾
(2-البقرة:168 ،169 )
”لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں، انہیں کھاؤ اور پیو۔ اور شیطانی راہ پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں ۔ “
عبدالرحمن بن ناصر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
﴿ إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ﴾ وہ شر کا حکم دیتا ہے۔ یعنی ایسے شر کا جو اپنے مرتکب کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہے ، پس تمام معاصی اس میں آ جاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَالْفَحْشَاءِ﴾ خاص کا عطف عام پر کے باب میں سے ہوگا کیونکہ فواحش بھی معاصی میں شمار ہوتے ہیں جن کی قباحت انتہا کو پہنچی ہوئی ہوتی ہے، مثلاً زنا، شراب نوشی ، قتل ناحق ، تہمت اور بخل وغیرہ یہ سب ان کاموں میں سے ہیں جن کو ہر عقل مند بُرا سمجھتا ہے۔“
(تفسیر السعدی: 1/ 210)
اس امر کو قرآن مجید دوسرے مقام پر یوں بیان کرتا ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢١﴾
(24-النور:21)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو ۔ جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وہ بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے کر دیتا ہے۔ اور اگر اللہ سب کچھ سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔“