شیطانی وسوسے اور ان کا علاج
تحریر: حافظ زبیر علی زئی

عن أبي ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ : (( إن اللہ تجاوز عن أمتي ما وسوست بہ صدورھا مالم تعمل بہ أو تتکلم)) متفق علیہ۔(سیدنا) ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے میری امت کے ان وسوسوں سے درگزر فرمایا ہے جو سینوں میں پیدا ہوتے ہیں ، جب تک لوگ ان پر عمل نہ کریں یا زبانی اظہار نہ کریں۔                                                            متفق علیہ (البخاری: ۲۵۲۸ و مسلم: ۳۳۱/۱۲۷)

فقہ الحدیث:
۱:        طیبی شارح مشکوٰۃ کے کلام کاخلاصہ یہ ہے کہ وسوسے کی دو قسمیں ہیں:

اول:جو بغیر اختیار کے خودبخود دل میں پیدا ہوجاتا ہے جس میں آدمی کا ذاتی ارادہ شامل نہیں ہوتا ۔ یہ وسوسہ تمام شریعتوں میں قابلِ معافی ہے۔دوم:     اپنے اختیار اور ذاتی ارادے کے ساتھ دل میں برائی کا تصور پیدا کرنا۔ یہ وسوسہ شریعتِ محمدیہ میں اس وقت تک قابلِ معافی ہے جب تک اس وسوسے والا زبانی اظہار یا جسمانی عمل نہ کردے۔

۲:        امتِ محمدیہ کو سابقہ امتیوں پر فضیلت حاصل ہے ۔
 وعنہ قال: جاء ناس من أصحاب رسول اللہ ﷺ إلی النبي ﷺ فسألوہ: إنا نجد في أنفسنا ما یتعاظم أحدنا أن یتکلم بہ، قال : أوقد و جد تموہ ؟قالوا: نعم، قال: ذاک صریح الإیمان۔ رواہ مسلم
انھی (سیدنا ابوہریرہؓ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ صحابہ آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ سے پوچھا: ہم اپنے دلوں میں ایسی باتیں محسوس کرتے ہیں جنھیں ہم بیان کرنا بہت بڑا (گناہ یا غلط کام) سمجھتے ہیں۔!
آپ نے فرمایا: کیا تم نے ایسا محسوس کرلیا ہے ؟ انہوں نے کہا: جی ہاں!
آپ نے فرمایا: یہ صریح ایمان ہے ۔
اسے مسلم (۳۴۰/۱۳۲) نے روایت کیا ہے ۔
فقہ الحدیث:
۱:        بُرے وسوسوں سے نفرت کرنا خالص ایمان کی نشانی ہے ۔
۲:        ذاتی و خفیہ مسائل کے لئے علمائے حق کی طرف رجوع کرنا تاکہ وہ کتاب و سنت کا حکم بتا دیں، بالکل صحیح طریقہ ہے۔
۳:       صحابہ کرام ایمان کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز تھے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین
۴:       بُرے وسوسوں سے بچنے کے لئے ہر وقت کتاب و سنت پر عمل اور اذکارِ صحیحہ و کلماتِ طیبہ میں مصروف رہنا چاہئے ۔

 وعنہ قال قال رسول اللہ ﷺ : یأتی الشیطان أحدکم فیقول: من خلق کذا؟ من خلق کذا؟ حتٰی یقول: من خلق ربٔک؟ فإذا بلغہ فلیستعذ باللہ و لینتہ۔ متفق علیہ۔اور انھی (سیدنا ابوہریرہؓ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس شیطان آتا ہے تو کہتا ہے : اسے کس نے پیدا کیا ؟اسے کس نے پیدا کیا ؟ حتیٰ کہ وہ کہتا ہے : تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ جب بات یہاں تک پہنچ جائے تو استغفار کرنا چاہئے اور رک جانا چاہئے۔ متفق علیہ (بخاری: ۳۲۷۶ و مسلم: ۳۴۵/۱۳۴)

فقہ الحدیث:
۱:        دلوں میں برے وسوسے ڈالنے والا شیطا ن ہے ۔
۲:        برے خیالات سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی اعوذ باللہ پڑھے ، استغفار کرے اور دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف طاری کرے۔
۳:       برے خیالات سے بچنے کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے ورنہ عین ممکن ہے کہ یہ خیالات انسان کو کفر، شرک اور گناہ کی طرف  پھیر دیں اور وہ ہلاک ہوجائے۔

وعنہ قال قال رسول اللہ ﷺ : لا یزال الناس یتساءلون حتٰی یقال: ھذا خلق اللہ الخلق فمن خلق اللہ؟ فمن وجد من ذلک شیئاً فلیقل آمنت باللہ ورسلہ۔ متفق علیہ۔اور انھی (سیدنا ابوہریرہؓ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگ ایک دوسرے سے سوال (پر سوال) کرتے رہیں گے حتیٰ کہ کہا جائے گا: اللہ نے یہ مخلوق پیدا کی ہے ، پس اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟جو شخص یہ (شیطانی وسوسہ) محسوس کرے تو کہہ دے : میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں۔                                                          متفق علیہ (بخاری: ؟ و مسلم ۳۴۳/۱۳۴)

فقہ الحدیث:
۱:        ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں۔
۲:        شیطانی سوالات اور غلط وسوسوں سے اپنے آپ کو ہر ممکن طریقے سے بچانا چاہئے

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے