شیخ محمد بن عبدالوہاب پر بہتان
حفیظ الرحمن قادری صاحب لکھتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، شام کے لیے دعا فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ اس طرح یمن کے لیے دعا کی درخواست کی گئی، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور پھر نجد کے لیے دعا کی درخواست کی گئی، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں زلزلے آئیں گے اور فتنے برپا ہوں گے، اور اسی سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ (بخاری شریف، جلد اول، صفحہ 448)
علماء کرام فرماتے ہیں کہ وہ محمد بن عبد الوہاب اللہ تھا، جس نے تقلید کو شرک قرار دیا۔ (کتاب مذکور، صفحہ 50)
الجواب:
حقیقت یہ ہے کہ محمد بن عبد الوہاب پر یہ وہ مظلوم شخص ہے جس نے شرک و بدعت کو مٹانے کی کوشش کی اور توحید و سنت کا علم لہرانے کی انتھک محنت کی۔ لیکن خالص توحید و سنت کے مخالفین نے اس بطل حریت اسلام کے عظیم داعی پر جی بھر کر تہمت کی۔ میرا مقصد محمد بن عبد الوہاب کی فکر کا پرچار کرنا نہیں، مگر حق بات کرنا تو مومن کی شان ہے۔ ہم تو نہ ان کے مقلد ہیں اور نہ ہی اس کی طرف ہماری نسبت ہے۔ جو عام لوگوں میں مشہور ہے کہ اہل حدیث جماعت کا بانی محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کو سمجھا جاتا ہے، یہ لوگوں کی جہالت اور قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔ وگرنہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہماری نسبت اس شخص سے ہوتی، تو اس کا نام تو محمد تھا، عبد الوہاب تو اس کے باپ کا نام ہے۔
ہمارے نزدیک شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی حیثیت ایک عالم دین کی سی ہے۔ اس کا قول و فعل ہمارے لیے حجت نہیں ہے، جس طرح دوسرے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور دیگر اماموں رحمہم اللہ کی بات حجت و دلیل نہیں ہے۔ جو بات ان کی قرآن و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے، اس کو مانتے ہیں اور اس طرح دوسرے ائمہ رحمہم اللہ کی بات بھی مانتے ہیں۔ اور جو بات قرآن و سنت کے مطابق نہ ہوگی، وہ چاہے کسی امام رحمہ اللہ کی ہو یا کسی پیر کی ہو یا شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی ہو، اسے دیوار پر مارتے ہیں۔ اور رہا قادری صاحب کا یہ کہنا کہ علماء کہتے ہیں کہ شیطان کے سینگ سے مراد محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ ہیں، تو انہوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا کہ کون سے علماء کہتے ہیں، بریلوی یا دیوبندی یا ائمہ محدثین، فقہاء، مؤرخین؟ لیکن یہ بات وہی شخص کر سکتا ہے جس کے پاس قرآن و حدیث کا علم نہ ہو۔ من قبل المشرق کی ذیل میں نقل کر کے ثابت کیا ہے کہ فتنوں اور گمراہ فرقوں کا ظہور مدینہ منورہ سے مشرق کی جانب علاقہ یعنی نجد عراق ہی سے ہوگا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
(نجد کا لغوی معنی) نجد مصدر ہے، جس کا معنی رفعت یا بلند ہے۔ گویا کہ محاورہ عرب میں ہر اونچی اور نمایاں چیز کو نجد کہا جاتا ہے۔ ہر نشیبی زمین کے مقابلے میں اونچی زمین کے علاقہ کو نجد کہا جاتا ہے۔ جس طرح فارسی میں اونچی سطح والی زمین کو سطح مرتفع اور اردو میں اوتار کہا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ تمام اونچی سطح والی زمین کا علاقہ جو تہامہ، غور یا سمندر کے کنارے سے شروع ہو کر یمن، شام اور عراق تک پھیلا ہوا ہے، نجد کہلاتا ہے۔ جو تقسیم اور محل وقوع کے لحاظ سے مختلف حصوں اور ناموں سے مشہور ہے۔ نجد کا لغوی معنی لغت عرب کی تمام کتب مثل صراح نہایہ، ابن منظور، لسان العرب، قاموس، مصباح المنیر، تاج العروس اور منجد وغیرہ میں یوں ہے:
ان النجد ما اشرف من الأرض
سطح مرتفع زمین کو نجد کہتے ہیں۔
اسی طرح جغرافیہ عرب کی مستند کتاب ”معجم البلدان“ میں ہے کہ نجد کا معنی ہر وہ اونچی زمین ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، قسطلانی رحمہ اللہ اور شارحین احناف علامہ کرمانی و عینی حنفی نے بھی اپنی اپنی شروح صحیح بخاری میں نجد کا معنی بالا اتفاق یوں لکھا ہے کہ نجد کوئی خاص ملک نہیں، بلکہ اونچی سطح زمین کا علاقہ جو اپنے بالمقابل غور علاقہ زمین سے بلند ہو نجد نام سے پکارا جاتا ہے۔
سطور فوق سے ثابت ہو چکا ہے کہ اہل عرب ہر اونچی زمین کو جو غور سے بلند ہو نجد کہتے ہیں۔ اسی اعتبار سے ملک عرب میں کئی ایک نجد اونچی زمین کے علاقے ہیں، جیسے دوسرے ملکوں میں بھی عام طور پر اوتار و ہٹھاڑ ہیں، وہ اپنے اپنے ناموں سے موجود ہیں۔ ملک عرب کے نجد نام علاقوں کی مختصر فہرست مستند اور قدیم جغرافیہ عرب معجم البلدان اور لغت عرب کی کتاب تاج العروس شرح قاموس سے پڑھیے:
➊ نجد البرق ➋ نجد اجار ➌ نجد عقیر یمامہ
اور اس کا نواحی نجد یمامہ کے نام سے موسوم ہے۔ تہامہ ملک یمن کا وہ علاقہ ہے جو مکہ اور یمن کے درمیان واقع ہے۔ یہ تہامہ کے غور یا ڈھلان سے شروع ہو کر یمن کے ڈھلان تک ہے اور عہد حاضرہ میں نجد سعودیہ کے نام سے شہرہ آفاق ہے۔ نجد خال، نجد کبکب، نجد مربع، نجد شری، نجد الوذ، نجد مجاز، نجد عقاب یہ دمشق میں واقع ہے۔ نجد عراق یا نجد بادو بہ عراق، یہ وہ نجد ہے جو کسری ایران کی خندق سے مقام حرہ عراق تک، یہ مکہ سے شروع ہو کر کوفہ وغیرہ پر ختم ہوتا ہے۔ (ملخصاً معجم البلدان، صفحہ نمبر؛ تاج العروس، جلد ثانی، بحوالہ اکمل البیان فی شرح حدیث قرن الشیطان، صفحہ 17)
نجد قرن الشیطان:
نجد عرب کی فہرست میں سے نجد قرن الشیطان وہ علاقہ ہے جو مدینہ منورہ سے مشرق میں ہے، جس کی نشان دہی معجم البلدان ایسی مسلمہ جغرافیہ عرب میں خندق کسری ایران سے مقام حرہ تک اور تاج العروس، نہایہ، ابن ایثر وغیرہ مستند کتب لغت میں خندق کسری ایران سے سواد عراق یا تہامہ سے شروع ہو کر کوفہ، عراق وغیرہ پر ختم ہوتا ہے۔ گویا کہ کسری ایران کی خندق اور تہامہ حجاز یا مکہ مکرمہ کے درمیان کی سرزمین عراق کا اونچا علاقہ ہے، یہی نجد قرن الشیطان ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امت مسلمہ پر آنے والے خطرناک فتنے عراق ہی سے اٹھے اور تمام گمراہ و بدعتی فرقوں کا ظہور بھی عراق ہی سے ہوا، گویا کہ قرن الشیطان کا مصداق عراق ہی ہے۔ شارحین حدیث نے وضاحت کی ہے۔ علامہ کرمانی حنفی فرماتے ہیں کہ تہامہ سے عراق تک اونچی زمین کا علاقہ، یہی وہ نجد ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نجد کو گمراہ فرقوں کا موجب اعلان فرمایا ہے، وہ نجد عراق ہے جو مدینہ منورہ سے عین مشرق کی جانب ہے، جیسا کہ لغت عرب و حدیث اور جغرافیہ عرب کے ماہر امام خطابی رحمہ اللہ نے اعلان کیا ہے کہ اس سے مراد نجد عراق ہے اور اس سے بہت سے فتنے اٹھے۔
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اپنی تحقیقی و مایہ ناز تصنیف میں عراق مشرق اور فتن اسلام کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ مستند اور معتبر حدیثوں میں پوری تشریح کے ساتھ بروایت کثیرہ مذکورہ ہے کہ اسلام میں فتنوں کا آغاز مشرق کی طرف سے ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی سے اشارہ کر کے بار بار فرمایا کہ ادھر سے شیطان کی سینگیں، یعنی سورج کی کرنیں نکلتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اشارہ مدینہ منورہ سے مشرق کی جانب تھا اور مدینہ کی مشرقی جانب عراق ہے۔
➊ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا فتنہ عراق سے اٹھ کر مصر تک پھیلا۔
➋ جمل کی جنگ اسی سرزمین عراق پر ہوئی۔
➌ حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔
➍ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جنگ صفین یہیں پیش آئی۔
➎ خوارج، جو اسلام کا پہلا گمراہ فرقہ ہے، یہی کوفہ سے نکلا۔
➏ جبریہ اور قدریہ وغیرہ۔
➐ اسلام کے دیگر تمام فرقوں کی سب بدعتیں جنہوں نے اسلامی عقائد کی سادگی کو پارہ پارہ کر دیا تھا، یہیں عراق سے پیدا ہوئے۔
➑ جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قافلہ یہیں فرات کے کنارے لٹا۔
➒ مختار ثقفی نے دعوٰی نبوت کا ذبح کا فتنہ یہیں عراق سے پیدا کیا۔
➓ شیعیت، جس نے اسلام کو دو حصوں میں تقسیم کیا، یہی عراق کی پیداوار ہے۔
⓫ حجاج کی سفاکیاں اسی سرزمین سے ہوئیں، حجاج عراق ہی کا گورنر تھا۔
⓬ ترک اور تاتار کی غارت گریوں کے نتائج، جنہوں نے اسلام کی رہی سہی طاقت اور خلافت عربیہ کا تار تار کر دیا، یہیں عراق سے رونما ہوئے۔
⓭ حتیٰ کہ اس جنگ عظیم اول 1913ء میں بھی واحد اسلامی طاقت خلافت عثمانیہ کو ترکیہ کے ساتھ غداری کے نتائج بھی اولاً عراق ہی سے ظاہر ہوئے اور پھر اسی کے اثرات بعد کو اور اطراف میں بھی رونما ہوئے۔ (سیرت النبی، جلد 3، صفحہ 208-607، بحوالہ اکمل البیان، صفحہ 31)
علامہ شبلی نعمانی حنفی فرماتے ہیں کہ زیادہ تر فساد کا مرکز عراق اور عراق میں خاص طور پر کوفہ تھا۔
(سیرت النعمان، عنوان درس و افتا و باقیہ زندگی، صفحہ 44، جلد 1)
خارجیوں کا صدر مقام بصرہ تھا اور واصل بن عطا و عمر بن عبید ، جو مذہب اعتزال کے بانی و مروج تھے، بصرہ ہی کے رہنے والے تھے۔ جہم بن صفوان ، جو فرقہ جہمیہ کا بانی و مقتدا ہے، عراقی ہی تھا۔ (سیرت النعمان، جلد 2، صفحہ 15، بحوالہ اکمل البیان، صفحہ 31)
الغرض، مدینہ منورہ کے پورب کی طرف عراق ہے۔ عرب، ایران وغیرہ ممالک واقع ہوئے ہیں۔ ان ہی ممالک سے بہت سے فتنے شروع ہوئے۔ شیطان کے سینگ کا اشارہ بہت سے فتنوں کی طرف اشارہ ہے۔ دجال جو مشرق کے ملک کی طرف سے آئے گا، اس طرف سے یا یاجوج ماجوج آئیں گے۔ نجد سے مراد وہ ملک ہے عراق کا جو بلندی پر واقع ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا نہیں فرمائی کیونکہ ادھر سے بڑی بڑی آفتوں کا ظہور ہونے والا تھا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی اسی سرزمین میں شہید ہوئے۔ کوفہ، بابل وغیرہ یہ نجد میں داخل ہیں اور بعض بے وقوفوں نے نجد کے فتنے سے شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کا نکلنا مراد لے رکھا ہے۔ ان کو یہ معلوم نہیں کہ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ تو مسلمان اور موحد تھے۔ وہ تو لوگوں کو توحید اور اتباع سنت کی طرف بلاتے تھے اور شرک و بدعت سے منع کرتے تھے۔ ان کا نکلنا تو رحمت تھا، نہ کہ فتنہ۔ اور اہل مکہ کو جو رسالہ انہوں نے لکھا ہے، اس میں سراسر پاکیزہ مضامین ہیں کہ توحید اور اتباع سنت اختیار کرو اور شرک کی بدعی امور سے اجتناب کرو۔ سب امور نہایت عمدہ اور سنت نبوی کے موافق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اونچی قبریں گرانے کا حکم دیا تھا۔ پھر محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے اگر اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی، تو کیا قصور کیا؟ (شرح صحیح بخاری، جلد 3، صفحہ 508)
اس بات کی وضاحت صحیح بخاری کی دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے کہ قرن الشیطان کون سا نجد ہے۔
چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق کی طرف منہ کر کے یہ کہتے ہوئے سنا کہ: بیشک فتنہ یہاں سے نکلے گا، جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔ (صحیح بخاری، صفحہ 1050)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کب اور کس جگہ کھڑے ہو کر مشرق کی طرف اشارہ کیا تھا؟ اس کی تشریح کے لیے امام بخاري رحمہ اللہ ایک تیسری حدیث حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے واسطے سے لائے ہیں، جس میں یہ الفاظ ہیں کہ:
إنه قام إلى جنب المنبر
(بخاری، جلد 2، صفحہ 1050)
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات منبر کی جانب کھڑے ہو کر کہی تھی۔
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ قرن شیطان اس طرف سے نکلے گا اور مدینہ طیبہ سے عین مشرق کی طرف نجد عراق ہے، جو کہ اہل الرائے کا مرکز ہے۔
مزید وضاحت اس روایت سے بھی ہو جاتی ہے کہ قرن شیطان عراق ہے۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ: اے اللہ! ہمارے مدینہ کو ہمارے لیے برکت والا بنا، اے اللہ! ہمارے شام میں ہمارے لیے برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے یمن کو ہمارے لیے بابرکت بنا۔
ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! عراق کے لیے بھی دعا فرمائیں کیونکہ وہاں سے ہمارے لیے گندم اور دیگر ضروریات کا سامان مہیا ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اس نے یہ دیکھ کر پھر گزارش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا، وہاں زلزلے اور فتنے برپا ہوں گے۔ (کنز العمال، جلد 14، رقم الحدیث: 38273)
تمام تر حوالہ جات اور تاریخی شواہد اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حفیظ الرحمن قادری صاحب کی ذکر کردہ حدیث مبارکہ شیطان کے سینگ نکلنے کی جگہ نجد عراق ہے اور ویسے ہی جہالت کی وجہ سے لوگوں نے اس حدیث سے شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ لیا ہے، جس کا حدیث میں اشارہ تک نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صحیح مسئلہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
تعصب ہے وہ بری بلا کہ خدا کسی کو نہ دے
دے موت اور یہ بد ادا کسی کو نہ دے
شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کا آبائی مسکن و مولد عینیہ ہے اور یہ نجد یمامہ ہے۔ حدیث میں آپ رحمہ اللہ نے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ آپ رحمہ اللہ کا آبائی وطن وادی یمامہ ہی ہے اور نجد یمن کا اکثر و بیش تر علاقہ یمامہ ہی کے ماتحت ہے۔ چنانچہ ”معجم البلدان“ کے الفاظ یہ ہیں:
ويقال إن النجد كلها من عمل اليمامة
(معجم البلدان، بحوالہ اکمل البیان، صفحہ 50)
یعنی تہامہ اور یمن کا درمیانی علاقہ نجد یمامہ ہی کے نام سے مشہور ہے۔