شہداء اور انبیاء کی برزخی زندگی: حقائق اور غلط فہمیاں
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

{وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلَکِ الْخُلْدَ اَفَاْئِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخَالِدُوْنَ٭ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوکُمْ مبِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً وَّاِلَیْنَا تُرْجَعُونَ٭}
(الأنبیاء 21 : 34، 35)
ترجمہ: "ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی۔ اگر آپ وفات پائیں، تو کیا یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ ہر جان نے موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہیں بھلائی اور برائی میں آزمانے کے لیے مبتلا کرتے ہیں، اور تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے۔”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور موت

ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: "ہم نے آپ سے پہلے کسی کو دنیا میں ہمیشہ کی زندگی نہیں دی، اور آپ بھی دنیا میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ آپ کو بھی اسی طرح موت آئے گی جس طرح آپ سے پہلے رسولوں کو آئی تھی۔”
(تفسیر الطبری : 24/17)

قرآن میں موت کا ذکر

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

{اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتُونَ٭}
(الزمر 39 : 30)
ترجمہ: "بے شک آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ آیت ان آیات میں سے ہے جنہیں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت بطور دلیل پیش کیا تھا، تاکہ لوگوں کو نبی کی وفات کا یقین ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ آیت بھی پڑھی:

{وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ…}
(آل عمران 3 : 144)
ترجمہ: "محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔ اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید ہو جائیں تو کیا تم پلٹ جاؤ گے؟”

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کوئی ہمیشہ نہیں رہے گا اور سب کو آخرت میں اللہ کے سامنے حساب کے لیے جمع ہونا ہے۔
(تفسیر ابن کثیر : 488/6)

قبر کی زندگی اور اخروی حیات

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ موت کے بعد اخروی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اور جو شخص اس دنیا سے چلا جاتا ہے، اس کا دنیا والوں سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ اخروی زندگی ایک بالکل مختلف جہان ہے جو قبر سے شروع ہوتی ہے۔

افراط و تفریط کے نظریات

بعض لوگ اخروی زندگی کے بارے میں افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ اس کا انکار کرتے ہیں اور کچھ اسے دنیوی زندگی کی طرح سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قبر کی زندگی اخروی زندگی کا آغاز ہے اور اس میں درجات مختلف ہوتے ہیں۔

قبر کی حقیقت

ہانی مولیٰ عثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو روتے اور ان کی داڑھی تر ہو جاتی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ جنت و جہنم کا ذکر کرتے ہوئے آپ نہیں روتے، مگر قبر کا ذکر سنتے ہی آپ کیوں رونے لگتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی اس منزل میں کامیاب ہو گیا، تو اس کے بعد کی منزلیں آسان ہوں گی، اور اگر ناکام رہا، تو اس کے بعد کی منزلیں سخت ہوں گی۔”
(مسند الإمام أحمد : 63/1، سنن الترمذي : 2308)

اخروی زندگی کا آغاز

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے مسواک چھوٹ گئی اور آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کا لمحہ تھا۔ وہ فرماتی ہیں کہ آپ کی دنیوی زندگی کا آخری دن اور اخروی زندگی کا پہلا دن ایک ساتھ جمع ہو گئے۔
(صحیح البخاري : 4451)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ موت کے فوراً بعد اخروی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔

حیات النبی کا عقیدہ

کچھ لوگوں نے انبیا کے لیے ایک مخصوص دنیوی زندگی کا نظریہ اپنایا ہے، جو کہ حقیقت میں دینی دلائل کے خلاف ہے۔ انہوں نے یہ عقیدہ "حیات النبی” کے نام سے اپنایا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قبر کی زندگی اخروی زندگی ہے، نہ کہ دنیوی۔

حیات النبی کے قائلین انبیا کی قبروں میں نماز پڑھنے کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اسی طرح ایک عام مومن بھی قبر میں نماز پڑھتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ مومن قبر میں فرشتوں سے ہمکلام ہو کر عصر کی نماز پڑھنے کا ارادہ کرتا ہے۔
(صحیح ابن حبّان : 3113)

لہٰذا، حیات النبی کا نعرہ لگانے والوں کو یا تو عام مومنوں کے لیے بھی ایسی زندگی کا اقرار کرنا ہوگا، یا پھر اپنے عقیدے پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔

عقیدۂ "حیات النبی” اور اہل علم کا موقف

اہل علم نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ برزخی (قبر کی) زندگی ایک مستقل اور منفرد نوعیت کی زندگی ہے، جو ہرگز دنیوی یا دنیوی زندگی کی مانند نہیں ہے۔ آئیے چند اہل علم کے اقتباسات کا جائزہ لیتے ہیں:

حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (م: 744ھ)

حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "معلوم ہونا چاہیے کہ موت کے بعد روح کا جسم میں لوٹنا استمرارِ حیات کا متقاضی نہیں ہے اور نہ ہی یہ قیامت سے پہلے ایسی زندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو دنیاوی زندگی کی مانند ہو۔ برزخ میں روح کا جسم میں لوٹنا برزخی زندگی کا معاملہ ہے، اور اس کے باوجود مرنے والے کے لیے موت کا نام باقی رہتا ہے۔”

انہوں نے برا بن عازب رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث کی طرف اشارہ کیا، جو عذابِ قبر اور نعمتوں کے بارے میں ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے، لیکن یہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے دنیاوی زندگی جیسی زندگی ثابت ہوتی ہے۔ بلکہ یہ برزخی زندگی کی ایک خاص قسم ہے اور موت کا مفہوم اس کے ساتھ باقی رہتا ہے۔

مزید انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی طرف بھی اشارہ کیا، جب آپ نیند سے بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے:
"ہر قسم کی تعریف اس ذات کے لیے ہے جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے۔”
(سنن أبي داؤد : 4753)

برزخی زندگی کی اقسام

حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ نے برزخی زندگی کی مختلف اقسام کی وضاحت کی:

➊ دنیوی زندگی میں روح کا تعلق: یہ زندگی میں عام حالت اور نیند میں ہونے والے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
➋ برزخی زندگی میں روح کا تعلق: برزخی زندگی میں، انبیا، شہدا اور مومنین کے درجات مختلف ہوتے ہیں۔ انبیا کی زندگی سب سے افضل ہوتی ہے اور شہدا کی زندگی عام مومنین سے بہتر ہوتی ہے۔
➌ روزِ قیامت روح کا جسم سے تعلق: قیامت کے دن روح کا جسم میں دوبارہ لوٹنا، جو دنیاوی زندگی کی مانند نہیں ہوتا۔

برزخی زندگی اور دنیوی زندگی کا فرق

حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ برزخی زندگی کا دنیاوی زندگی جیسا ہونا ثابت کرنا غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو اس قسم کی زندگی کو دنیاوی زندگی کے برابر سمجھتا ہے، وہ غلطی کا شکار ہے اور شرعی، عقلی اور حسی دلائل کے خلاف جاتا ہے۔

خلاصہ

اہل علم کی وضاحت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ برزخی زندگی ایک الگ اور مستقل زندگی ہے، جو دنیاوی زندگی کی مانند نہیں ہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیا و شہدا کے لیے بھی دنیاوی زندگی جیسی نہیں ہے، بلکہ اس کا اپنا ایک خاص معیار اور حالت ہے۔

روح کا بدن کے ساتھ تعلق کی مختلف حالتیں

اہل علم کی وضاحت کے مطابق روح کا بدن کے ساتھ تعلق مختلف مراحل اور اقسام پر مشتمل ہوتا ہے:

دنیا میں روح کا تعلق:

حالتِ بیداری اور نیند میں روح کا جسم سے تعلق ہوتا ہے۔ یہ دنیاوی زندگی کے معاملات ہیں جن میں انسان کی روزمرہ کی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔

برزخ میں روح کا تعلق:

برزخی زندگی میں روح کا تعلق فوت شدگان کے جسم سے ہوتا ہے، لیکن یہ تعلق افراد کی حالت کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔
◄ انبیا اور رسولوں کی برزخی زندگی: انبیا کی زندگی شہدا سے زیادہ کامل ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے مبارک اجساد بوسیدہ نہیں ہوتے۔
◄ شہدا کی زندگی: شہدا کی زندگی عام مومنین سے زیادہ کامل ہوتی ہے، کیونکہ وہ شہادت کا شرف پاتے ہیں۔

قیامت کے دن روح کا جسم سے تعلق:

قیامت کے دن جب روح جسم میں لوٹائی جائے گی، یہ دنیوی زندگی کے طرز پر نہیں ہوگی۔ جو لوگ برزخ میں روح کے جسم میں لوٹنے سے دنیاوی زندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ حس، شریعت اور عقل کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
(الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص: 223)

محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا موقف

علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

◄ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کی زندگی، وفات سے قبل کی زندگی سے مختلف ہے کیونکہ برزخی حیات ایک غیبی معاملہ ہے، جس کی حقیقت صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
◄ یہ برزخی زندگی دنیوی زندگی کی مانند نہیں ہے اور نہ ہی اس کے قوانین کے تابع ہے۔ دنیا میں انسان کھاتا پیتا ہے، سانس لیتا ہے، شادی کرتا ہے اور بیماری کا سامنا کرتا ہے، لیکن موت کے بعد یہ امور کسی پر، حتیٰ کہ انبیا پر بھی، وارد نہیں ہوتے۔

مزید فرماتے ہیں:

برزخی زندگی دنیوی زندگی کی طرح نہیں ہے، بلکہ اس کا اپنا ایک منفرد نظام ہے۔ مومن کو اس پر ایمان لانا چاہیے اور اس کی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اس پر بس ایمان رکھنا چاہیے۔
بعض بدعتی حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں زندگی دنیوی زندگی جیسی ہے، اور وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں کھاتے پیتے ہیں اور اپنی ازواج سے تعلق قائم کرتے ہیں۔ یہ ایک غلط نظریہ ہے، کیونکہ برزخی حیات کی حقیقت کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
(التوسل؛ أنواعہ وأحکامہ، ص: 65)

شہیدوں کی زندگی: ایک منفرد مقام

یہ سوال اہم ہے کہ اگر تمام انسانوں کو قبر کی زندگی ملتی ہے اور اس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، تو پھر اسلامی تعلیمات میں شہدا کی زندگی کو خصوصیت کے ساتھ کیوں بیان کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خصوصیت شہدا کی زندگی کے اعلیٰ مقام کو ظاہر کرنے کے لیے ہے، نہ کہ اس لیے کہ انہیں کوئی الگ یا دنیاوی زندگی ملتی ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ شہدا کی زندگی دنیوی زندگی یا اس کی مثل نہیں ہے، بلکہ یہ ایک خاص قسم کی برزخی زندگی ہے۔

شہدا کی زندگی کی اہمیت

شہدا کی زندگی کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے تاکہ ان کے مقام کی فضیلت کو ظاہر کیا جا سکے، نہ کہ یہ کہا جائے کہ شہدا کو برزخی زندگی دوسروں سے مختلف یا دنیاوی زندگی جیسی ملتی ہے۔ مزید برآں، امت محمدیہ کے شہدا جو صحابہ کرام کا مقام نہیں رکھتے، ان کی برزخی زندگی صحابہ کرام کی زندگی سے بہتر یا افضل نہیں ہوسکتی۔

برزخی زندگی کا فرق

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ برزخی زندگی نیک اور بد تمام افراد کے لیے برابر ہے۔ اس میں استثنا کسی کے لیے نہیں، لیکن مختلف افراد کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ نیک لوگوں کی زندگی اچھی اور بدکار لوگوں کی زندگی بری ہوتی ہے۔ نیک افراد میں بھی انبیا کی برزخی زندگی سب سے افضل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا کے مقدس اجساد کو مٹی نقصان نہیں پہنچاتی اور وہ اپنی اصل حالت میں سلامت رہتے ہیں۔

انبیا کے اجساد کا محفوظ رہنا

حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے افضل ہے۔ اس دن سیدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ہوگی۔ اس دن مجھ پر زیادہ درود بھیجو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کی وفات کے بعد ہمارا درود آپ تک کیسے پہنچایا جائے گا؟ کیا آپ کا جسدِ مبارک مٹی میں نہیں مل چکا ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیا کے جسموں کو کھانا حرام کردیا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 8/4، سنن أبي داوٗد : 1047)

انبیا کے اجساد کا سلامت رہنا

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب صحابہ نے تُستر کا شہر فتح کیا تو انہوں نے وہاں ایک تابوت میں ایک نبی کا جسم پایا جس کی ناک کا حصہ بڑا تھا۔ وہاں کے لوگ اس تابوت کے ذریعے بارش کی دعا کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس واقعے کی اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں اور انبیا کے اجساد کو نہ آگ کھا سکتی ہے اور نہ زمین۔
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 27/13)

اسی طرح، تابعی ابو عالیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’انبیا کے اجساد کو نہ زمین بوسیدہ کرتی ہے اور نہ درندے انہیں کھا سکتے ہیں۔‘‘
(دلائل النبوّۃ للبیہقي : 382/1)

شہدا اور انبیا کی زندگی کا خلاصہ

یہ احادیث اور آثار صراحت کے ساتھ یہ بات بیان کرتے ہیں کہ انبیا کے اجساد کو مٹی نقصان نہیں پہنچاتی۔ تاہم، ان احادیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انبیا کرام کو قبروں میں دنیوی زندگی یا اس کی مثل زندگی ملی ہوئی ہے۔ یہ برزخی زندگی ہے، جو دنیاوی زندگی سے مختلف اور منفرد ہے، اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔

تنبیہ: شہدا اور برزخی زندگی کی حقیقت

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیہاتی کے پاس تشریف لے گئے، جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین مہمان نوازی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلایا اور اس کی ضروریات پوچھی، تو اس نے ایک اونٹنی اور بکریوں کا مطالبہ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم بنی اسرائیل کی بوڑھی عورت جیسی نہیں ہو سکتے؟” پھر آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ سنایا کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو راستہ بھول گئے، تب ایک بوڑھی عورت نے حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر کا پتہ بتایا اور ان کے جسم کو لے جانے کے بعد راستہ دن کی روشنی کی طرح صاف ہو گیا۔
(مسند أبي یعلی : 7254)

شہدا کی برزخی زندگی اور امت محمدیہ

اس حدیث کی سند کو امام ابن حبان اور امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ یہاں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے جسم مبارک کو مٹی نے نقصان پہنچایا تھا، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ حدیث میں "عظام” (ہڈیاں) کا ذکر مجازاً پورے جسم کے لیے کیا گیا ہے، جیسا کہ عربی زبان میں عام طور پر ہوتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو بیان کرتے ہوئے تمیم داری رضی اللہ عنہ نے "عظام” (ہڈیاں) کا لفظ استعمال کیا تھا، جس سے مراد پورا جسم تھا۔
(سنن أبي داوٗد : 1081)

برزخی زندگی کی وضاحت

محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ "عظام” پورے جسم کے لیے مجازاً استعمال کیا جاتا ہے، اور یہ بات عربی زبان میں معروف ہے کہ جز سے کل کو مراد لیا جاتا ہے۔
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 313)

اہل سنت والجماعت کا عقیدہ

اہل سنت والجماعت کا اتفاقی عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد ہر شخص کو برزخی زندگی ملتی ہے، اور یہ زندگی صرف انبیا اور شہدا کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ تاہم، انبیا اور شہدا کی زندگی پاکیزہ اور اعلیٰ ہوتی ہے۔ مومنین کو قبر میں نعمتیں دی جاتی ہیں جبکہ کفار اور فاسق لوگ عذاب قبر میں مبتلا ہوتے ہیں۔

افراط و تفریط سے بچنے کی ضرورت

کچھ لوگ حیات برزخیہ کا انکار کرتے ہیں، جبکہ کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات کو دنیوی زندگی کی مثل قرار دیتے ہیں۔ یہ دونوں نظریات افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں اور قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی یہ نظریات نہیں اپنائے۔

اعتدال پسند نظریہ

قرآن و سنت کی روشنی میں اعتدال پسندانہ نظریہ یہ ہے کہ ہر شخص کو برزخی زندگی ملتی ہے، لیکن یہ زندگی اخروی نوعیت کی ہوتی ہے، نہ کہ دنیوی۔ انبیا اور شہدا کی برزخی زندگی کو دنیوی زندگی کے برابر سمجھنا قرآن و سنت کی مخالفت ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عقائد کو قرآن و سنت کے مطابق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے