دلیل پیش کرنا مدعی پر اور قسم کھانا منکر (مدعی علیہ ) پر لازم ہے
لفظِ خصومة کا معنی ہے ”جھگڑا“ ۔ باب خَاصَمَ يُخَاصِمُ (مفاعلة) ”جھگڑا کرنا“ ۔ باب خَصَمَ يَخْصِمُ (ضرب) ”جھگڑے میں غالب آنا“ ۔ الْخَصم ”مد مقابل“ باب تَخَاصَمَ وَاخْتَصَمَ (تفاعل ، افتعال ) ”ایک دوسرے سے جھگڑنا“ ۔
[المنجد: ص / 208 ، القاموس المحيط: ص / 994]
➊ حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور ایک آدمی جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
شاهداك أو يمينه
”تجھے دو گواہ پیش کرنے ہوں گے یا پھر اس سے قسم لی جائے گی ۔“
[بخاري: 2669 ، كتاب الشهادات: باب اليمين على المدعى عليه فى الأموال والحدود ، مسلم: 138 ، احمد: 211/5 ، ابو داود: 3621 ، ترمذي: 2996 ، ابن ماجة: 2322]
➋ حضرت وائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضر موت کا اور ایک کندہ کا جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی کے لیے کہا:
الك بينة؟ قال لا ، قال فلك يمينه
”کیا تیرے پاس ثبوت ہے؟ اس نے کہا نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تجھے اس کی قسم کو تسلیم کرنا ہو گا ۔“
[مسلم: 139 ، كتاب الإيمان: باب وعيد من اقتطع حق مسلم بيمين فاجرة بالنار ، ابو داود: 3623 ، ترمدي: 1340 ، احمد: 317/4 ، طيالسي: 1025 ، مشكل الآثار: 248/4 ، دار قطني: 211/4 ، بيهقي: 137/10]
➌ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم قضى باليمين على المدعى عليه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی علیہ پر قسم اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔“
[بخاري: 2668 ، كتاب الشهادات: باب اليمين على المدعى عليه فى الأموال والحدود ، مسلم: 1711 ، ابو داود: 3619 ، ترمذي: 1342 ، نسائي: 248/8]
➍ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
البينة على المدعى واليمين على من أنكر
”مدعی پر دلیل پیش کرنا لازم ہے اور قسم وہ اٹھائے گا جس نے انکار کیا ۔“