سوال:
کیا عیدین کے درمیانی ایام یعنی عید الفطر کے بعد شوال کے مہینے میں شادی کی جا سکتی ہے؟ بعض مکتبہ فکر کے لوگوں کے ہاں اس دوران شادی کرنا مکروہ ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔
جواب:
شوال اور محرم سمیت کسی بھی اسلامی مہینے کے کسی بھی دن شادی کی کوئی ممانعت نہیں۔ عید الفطر کے بعد ماہ شوال میں شادی کرنا بھی جائز و درست ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال کے مہینے میں شادی کی ہے۔ عہد جاہلیت میں اسے بہتر نہیں سمجھا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
زوجني رسول الله صلى الله عليه وسلم فى شوال وبنى بي فى شوال ف أى نساء رسول الله صلى الله عليه وسلم كان أحظ عنده مني
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ شوال میں نکاح کیا اور شوال میں ہی میرے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے کون سی عورت آپ کے ہاں مجھ سے زیادہ نصیب والی تھی۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی (رشتہ دار) عورتوں کے لیے بھی پسند کرتی تھیں کہ شوال میں ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کیے جائیں۔
علامہ سندھی مسند احمد کے حاشیہ میں رقمطراز ہیں کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد اس سے ان لوگوں کا رد ہے جو دو عیدوں کے درمیان نکاح کو جائز نہیں رکھتے۔ (مسند احمد: 319/30)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي دخوله عليه السلام بها فى شوال ردا لما يتوهمه بعض الناس من كراهية الدخول بين العيدين حشيا المفارقه بين الزوجين وهذا ليس بشيء
(البدایہ والنہایہ (41/3))
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ماہ شوال میں بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے میں ان لوگوں کا رد ہے جو اس وہم کا شکار ہیں کہ عیدین کے درمیان شادی کرنا مکروہ ہے۔ وہ اس ڈر سے شادی نہیں کرتے تھے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ہو جائے گی اور یہ کوئی بات نہیں ہے۔“
امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی اس حدیث پر یوں تبویب کی ہے: ”باب استحباب الزوج والتزویج فی شوال واسباب الدخول فیہ“ ماہ شوال میں شادی کرنے، کرانے اور بیوی سے صحبت کرنے کے مستحب ہونے کا بیان۔ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
فيه استحباب التزويج والتزوج والدخول فى شوال، وقد نص أصحابنا على استحبابه واستدلوا بهذا الحديث وقصدت عائشه بهذا الكلام رد ما كانت الجاهليه عليه وما يتخيله بعض العوام اليوم من كراهة التزوج والترويج والدخول فى شوال وهذا باطل لا أصل له وهو من آثار الجاهليه كانوا يتطيرون بذلك لما فى اسم شوال من الإشاله والرفع
(شرح صحیح مسلم (179/9) ط دار الکتب العلمیہ بیروت)
”اس حدیث سے شوال میں شادی کرنے، کرانے اور بیوی کے پاس جانے کا استحباب معلوم ہوتا ہے اور ہمارے اصحاب نے اس کے مستحب ہونے پر نص ذکر کی ہے۔ انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کلام کے ذریعے دور جاہلیت اور آج کے بعض عوام کے اس خیال کے رد کا قصد کیا ہے جو سمجھتے ہیں کہ شوال میں شادی کرنا، کرانا اور بیوی کے پاس جانا مکروہ ہے۔ یہ باطل ہے، اس کی کوئی اصل نہیں اور یہ جاہلیت کے آثار میں سے ہے۔ لوگ اس سے بدشگونی لیتے تھے، اس لیے کہ شوال کا نام اشالہ اور رفع سے ماخوذ ہے (یعنی اس ماہ میں کیا ہوا نکاح ٹوٹ جاتا ہے)۔“
دور جاہلیت کی بدشگونی کی وجہ یہ تھی کہ شوال کے معانی بلند کرنا، جدا کرنا اور خشک ہونا وغیرہ کے ہیں، اس نام سے بدشگونی لیتے ہوئے وہ لوگ سمجھتے تھے کہ شوال میں کیا ہوا نکاح درست نہیں کہ اس سے خاوند اور بیوی میں جدائی پڑ جاتی ہے۔
علامہ سخاوی فرماتے ہیں: ”ماہ شوال خصوصیت کے ساتھ شالت الإبل سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اونٹوں کے مستی سے دم اٹھانے کے ہیں، چونکہ اونٹنیاں ان دنوں میں مستی سے نروں کی تلاش میں دم اٹھائے پھرا کرتی تھیں، اس مناسبت سے ان دنوں کو ماہ شوال کے دنوں سے موسوم کر دیا گیا۔ گو عربوں کا شکار کے لیے اپنے گھروں کو خالی چھوڑ کر باہر چلے جانا اور جنگلوں اور شکار گاہوں میں متفرق ہو جانا، نیز ان کی اونٹنیوں کا دودھ خشک ہو جانا بھی اتفاق سے انہی ایام میں واقع ہوا کرتا تھا۔“
(تکریم کائنات (ص 172))
علامہ ابن منظور رقم طراز ہیں:
كانت العرب تطير من عقد المناكح فيه وتقول إن المنكوحه تمتنع من ناكحه كما تمتنع طروقه الحمل إذا لاحت وقالت ذنبها فأبطل النبى صلى الله عليه وسلم طيرتهم وقالت عائشه رضي الله عنها زوجني رسول الله صلى الله عليه وسلم فى شوال وكان أحظي عنده مني
(لسان العرب (243/7))
”عرب اس ماہ میں شادی کرنے سے بدشگونی لیتے اور کہتے کہ منکوحہ کو اس کے شوہر سے دور کر دیا جائے گا، جیسا کہ اونٹ کی جفتی سے حاملہ کو دور کر دیا جاتا ہے، اس کا دودھ خشک ہو جاتا ہے اور وہ اپنی دم اونچی کرتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شگون کو باطل کر دیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ شوال میں نکاح کیا اور شوال ہی میں میرے پاس آئے اور آپ کی ازواج میں سے کون سی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مجھ سے زیادہ نصیب والی تھی۔“
نیز دیکھیں تاج العروس (13/398) وغیرہ اور یہ بھی یاد رہے کہ اسلام میں بدشگونی باطل و حرام ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا عدوى ولا طيرة
”کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ کوئی بدشگونی ہے۔“
(بخاری، کتاب الطب، باب لا ہامہ (5707))
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الطيرة شرك
”بدشگونی شرک ہے۔“
(ترمذی (1614)، المستدرک للحاکم (018017/1 ح: 44043))
امام حاکم نے اسے صحیح کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ بدفالی و بدشگونی شرکیہ امور میں سے ہے اور جاہلیت کا کام ہے۔ ماہ شوال میں شادی سے رکنا یا روکنا بالکل ناجائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شوال میں شادی کی ہے اور بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اپنی لڑکیوں اور عورتوں کی شادیاں شوال میں بہتر سمجھتی تھیں۔ اس لیے جاہلیت اور توہم پرستی سے کلی اجتناب کیا جائے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے۔