شعیہ کا عقیدہ تقیہ: عقلی و شرعی دلائل کی روشنی میں
یہ تحریر ڈاکٹر احمد بن سعد بن حمدان الغامدي رحمه الله کی کتاب اثناعشری گروہ کے ساتھ اصول میں عقلی گفتگو سے ماخوذ ہے جس کا اُردو ترجمہ محترم شفیق الرحمان شاہ صاحب نے کیا ہے۔

شعیہ کا عقیدہ تقیہ

اہل بیت اطہار پر جھوٹ گھڑنے والوں نے اپنی دروغ گوئی کو مذہبی پشت پناہی دینے کے لیے تقیہ کا عجیب و غریب عقیدہ گھڑ کر ایجاد کر لیا۔ در حقیقت یہ عقیدہ نہ صرف امامت بلکہ پورے دین کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے ، یہ عقیدہ در حقیقت عمداََ جھوٹ بولنے کا دوسرا نام ہے ۔
” ”تقیہ کا عملی کردار ابھی تک متعدد معاملات میں اپنا خطرناک اثر دکھا رہا ہے ۔ بطور مثال:
➊ امت مسلمہ میں تفرقہ بازی کو فروغ دینے والے شیعوں اور زندیقوں نے اس تقیہ کے عقیدہ سے فائدہ اٹھایا ہے اور مسلمانوں میں اختلافات کو فروغ دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث و آثار کو رد کر دیا ہے جو ان کے ائمہ سے مروی ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے ائمہ نے یہ آثار و احادیث اہل سنت کی موجودگی کی وجہ سے تقیہ کرتے ہوئے بیان کی ہیں۔ مثلاً وہ تمام احادیث جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں وارد ہیں وہ انہوں نے ردّ کر دی ہیں کہ یہ ہمارے ائمہ نے تقیہ کرتے ہوئے بیان کی تھیں …… اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی دو بیٹیوں کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے شادی کرنا اور ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ سے اپنی بیٹی کی شادی کرنا بھی تقیہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کرنا بھی تقیہ تھا۔ “
[مرأة العقول: 45/20 – ح: 2 ، باب: تزويج أم كلثوم]
➋ شیعہ علماء نے اپنی روایات اور احادیث میں تضاد اور تناقض سے چھٹکارا پانے کے لیے تقیہ کا سہارا لیا ہے۔ کیونکہ ان کی احادیث میں ظاہری تضاد سب سے مضبوط دلیل تھی کہ یہ روایات غیر اللہ کی طرف سے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا [النساء: 82]
”اور اگر وہ (قرآن ) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے ۔“
شیعہ عالم یوسف البحرانی نے یہ حقیقت بیان کر دی ہے کہ شیعہ اپنے ائمہ کی روایات میں شدید اختلاف اور تضاد کی وجہ سے از حد پریشان اور مضطرب ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کون سا قول اختیار کریں اور کس قول پر توقف کریں یا وہ اپنے پیروکاروں کو اختیار دے دیں کہ وہ جسے چاہیں اختیار کر لیں یا وہ کیا کریں؟ ان باہم متعارض اور مخالف روایات کا کیا حل نکالیں؟ بالآخر تقیہ سے حل نکل آیا۔ جیسا کہ البحرانی کہتا ہے: احکام کی علت میں شک و شبہ اور تردد ضرور ہے کیونکہ دلائل میں کثرت سے متعارض اور اختلاف پایا جاتا ہے نیز ان كل امارات باہم مختلف ہیں۔ “
[الدرة النجفية: 61]
اس لیے کہ یہ روایات گھڑنے والے ایک جگہ پر جمع نہیں ہو سکتے تھے؟ اور نہ ہی ان کا زمانہ ایک تھا، اور نہ ہی رائے میں وحدت تھی ۔ پس کوئی ایک امام کے نام پر ایک روایت گھڑ کر پیش کرتا تو اس کے مقابلہ میں دوسرے کی دوسری اس سے متناقض روائیت سامنے آتی۔ پس ان روایات میں دروغ گوئی کو تقیہ کے نام سے جواز فراہم کیا گیا۔
شیعہ کے عالم مفید کا کہنا ہے کہ تقیہ ، حق چھپانے کو کہتے ہیں اور اپنے عقیدے کو پوشیدہ رکھنا تقیہ ہے۔ مخالفین سے اپنا عقیدہ چھپانا اور ان کی مخالفت کو ترک کرنا جو کہ کسی دینی یا دنیوی نقصان کا باعث ہو ، تقیہ کہلاتا ہے۔
[تصحيح إعتقادات الإمامية: ص: 137 – شرح عقائد الصدق: 216 – ملحق بأوائل المقالات]
محمد جواد مغنیہ نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ اپنی جان یا مال کے نقصان سے بچنے کے لیے یا اپنی عزت کی حفاظت کے لیے اپنے عقیدے کے برخلاف کوئی بات کہنا یا عمل کرنا تقیہ ہے۔
[الشيعه فى الميزان: 48 ، التقیہ البدا ٔ والرجعۃ ۔ ۔ ۔ ۔]

شرعی تقیہ:

شیعہ کے ہاں مروج تقیہ وہ شرعی تقیہ نہیں ہے جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں خوف کی حالت میں مباح ٹھہرایا ہے۔ پھر یہ تقیہ واجب بھی نہیں۔؟ جب کہ شیعہ کے ہاں تقیہ کرنا واجب ہے۔ اور ان کے ہاں صاف واضح اور صریح روایات کے مطابق تقیہ کو ترک کرنا دین کو ترک کرنا ہے۔ جب کہ شرعی تقیہ میں بھی انسان پر ایسے حالات تو آتے ہیں کہ وہ مر تو سکتا مگر تقیہ نہیں کر سکتا۔ یہ ایک مباح عمل ہے۔ واجب نہیں ۔ فرمان الہی ہے:
مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ‎
[النحل: 106]
”جو شخص ایمان کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے، سوائے اس کے اُسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، اور لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔“
امام طبری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے۔
…..إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن….. [النحل: 106]
”مگر جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو ، لیکن …“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو کوئی ایمان لانے کے بعد کفر کرے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور درد ناک عذاب ہے۔ سوائے اس کے کہ اگر کسی کو مجبور کیا گیا ہو ، اور وہ ! کلمہ کفر زبان پر لے آیا؟ اور اس کے دل میں ایمان موجود ہو، مگر اس نے دشمن سے نجات پانے کے لیے ایسے کیا ، تو اس پر کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالی دل کے عقیدہ پر گرفت کرتے ہیں ۔ “
[الطبري: اس آيت كي تفسير ميں]
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ ‎ [آل عمران: 28]
”ایمان والے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگر یہ کہ تم ان سے بچو ، کسی طرح بچنا اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“
طبری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی تفسیر میں روایت کیا ہے:
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكَفِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ
”ایمان والے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں“
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کفار کے ساتھ نرمی سے پیش آنے ، یا اہل ایمان کو چھوڑ کر ان سے دوستی لگانے سے منع کیا ہے۔ ہاں اس کی صرف یہ صورت ہو سکتی ہے کہ کفار ان پر غالب ہوں؟ تو ان کے ساتھ ملاطفت کا اظہار کریں۔ اور دین کے معاملہ میں ان سے
اختلاف رکھیں ۔ یہ اس آیت کی تفسیر ہے:
إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ ……… [آل عمران: 28]
”مگر یہ کہ تم ان سے بچو، کی طرح بھی بچنا…..“
ان دونوں آیات میں اصل حکم ذکر کر کے اس میں استثناء بھی بیان کر دیا ہے۔ جیسا کہ إلا کے لفظ سے ظاہر ہے۔ یہ تو صرف اباحت کے لیے ہے ، واجب حکم یا دین کا جز نہیں ۔
یہ ہے شرعی تقیہ ۔

شیعہ کے ہاں تقیہ:

جب کہ شیعہ اثناء عشریہ کے ہاں تقیہ دین کا لازمی حصہ ہے۔ انہوں نے مختلف روایات نقل کی ہیں؟ جنہیں وہ اہل بیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ان میں سے جعفر صادق کا یہ قول بھی ہے:
”تقیہ دین کے نو حصے ہے۔“
اور ”اس کا کوئی دین نہیں جو تقیہ نہیں کرتا ۔“
اور ایک روایت ابو جعفر سے بھی منقول ہے جس میں ہے:
”تقیہ میرا دین ہے؟ اور میرے آباء کا دین ہے۔ “
[الكافي: باب التقية 217/2]
حقیقت میں اہل بیت اطہار اس قسم کے لغو کلام سے بالکل بری ہیں۔
شیعہ علماء کا اس عقیدہ پر اتنا زیادہ اعتماد ہے کہ اسے بھی نماز کی طرح دین کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول شمار کرتے ہیں ۔ ان کا ایک بڑا عالم ابن بابویہ قمی کہتا ہے:
”ہمارا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرنا واجب ہے۔ اور اس کا ترک کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے نماز کا ترک کرنے والا ۔“
” الاعتقادات: 144 – پھر غلو میں بڑھتے ہوئے کہتے ہیں: ”بیشک تقیہ کا ترک ہلاک کر دینے والا گناہ ہے جو کہ نبوت کا انکار ، امامت کا انکار ، بھائیوں پر ظلم کرنا یا ترک تقیہ ہے۔“
[المكاسب المحرمة: 163/2]
پھر تقیہ میں مزید غلو کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”دین کے دس میں سے نو حصے تقیہ میں ہیں۔ اور جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ہے۔“
[أصول الكافي: 572/2 – ح: 2 – باب التقيه]
پھر مبالغہ آرائی کرتے ہیں: تقیہ ترک کرنا ایسا گناہ ہے جو کبھی معاف نہ ہو گا۔ علی بن حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ مومن کا ہر گناہ معاف کر دیں گے اور اسے دنیا اور آخرت میں گناہوں سے پاک کر دیں گے سوائے دو گناہوں کے ➊ تقیہ ترک کرنا ۔ ➋ بھائیوں کے حقوق کا ضیاع ۔
[تفسير الحسن العسكري: 321 – ح: 166 – وسائل الشيعة: 223/16 – ح: 6]
الكليني روایت کرتا ہے کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: ”اے سلیمان ! تم ایسے دین کے پیروکار ہو جو اسے چھپائے گا اللہ اسے عزت دے گا اور جو اسے ظاہر کرے گا اللہ اسے ذلیل و رسوا کر دے گا۔“
[اصول الكافي: 576/2 – ح: 3 ، بـاب الكتمال: كتاب الايمان والكفر]
آخر میں یہ روایت ملاحظہ فرمائیں: ”تقیہ کا تارک کافر ہے، اللہ کے دین اور امامیہ کے دین سے خارج ہے۔ “
[الاعتقادات: 114-115 ، بحار الانوار: 347/75 – باب مواعظ موسي بن جعفر]
اس طرح ان لوگاں نے تقیہ یعنی جھوٹ کو دین کا حصہ بنا لیا، جس کے ذریعہ قربت الٰہی حاصل کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ جھوٹ دین کے نو حصے ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جو کوئی گفتگو میں جھوٹ بولے عمل سے دھوکہ دے، تو یہ انسان روزانہ دین کے نو حصوں پر عمل کرتا ہے۔ اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ تقیہ صرف امام کا دین نہیں ہے، بلکہ تمام اہل بیت کا دین ہے۔ جن میں تمہاری روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں ۔
اس میں استثناء کی صورت صرف یہ ہے کہ ائمہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ کیا جائے ۔ اور یہ طے کر لیا جائے کہ ان کا دین وہ نہیں ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے تھے۔
اس لیے کہ ان روایات میں: ”میرے آباء کے دین کا مفہوم یہی ہے۔“
کیا کوئی عقلمند اس بات پر راضی ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے متعلق ایسا عقیدہ رکھے، جو اللہ تعالیٰ نے نازل ہی نہیں کیا۔ تاکہ وہ اخلاق کی پاکیزگی کرے اور معاملات کی بنیاد سچائی، اور وضاحت و صراحت پر ہو، اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک واضح ہو۔ تاکہ زندگی درست سمت پر گامزن رہے۔ اور سچائی ، امانت ، اور وضاحت کی روشنی میں ترقی ہوتی رہے۔
خیال کیجیے کہ ! جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں، اگر وہ سچی ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟

تقیہ ، امام کے بھیانک نتائج:

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ:
➊ ”یہ دین جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے ، تقیہ یعنی جھوٹ کا دین ہے ۔“
تمام أدیان اور شہری معاشروں میں جھوٹ ایک بُرا وصف ہے حتیٰ کہ زمانہ جاہلیت میں بھی اسے بُرا سمجھا جاتا تھا۔ عام انسان بھی جھوٹ بولنے سے کتراتا تھا ، چہ جائے کہ وہ اسے اپنا دین سمجھتا ہو۔ اور پھر کیا یہ بات معقول ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی ایسا دین نازل کرے جس کے نو حصے جھوٹ پر مشتمل ہو؟
➋ جب تقیہ دین تھا (اور اس کا کوئی دین نہیں جو تقیہ نہیں کرتا ) (اور تقیہ تمام اہلِ بیت کا دین ہے) ، (اور تقیہ دین کے نو حصے ہے )۔ جیسا کہ تمہاری روایات سے ظاہر ہے۔
تو پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے یقین کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل دین پہنچا دیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کچھ حصہ چھپا دیا ہو، کیونکہ تقیہ کرنا آپ کا دین تھا؟ ۔
جیسا کہ تمہاری روایات کہتی ہیں، استغفر الله ، حاشا وکلا۔ یہ اہل بیت کا دین نہیں۔
➌ جب تقیہ دین تھا ، تو پھر ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ جن چیزوں کی خبریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہیں ، ان میں سے بعض باتیں تقیہ کرتے ہوئے حق کے خلاف کہی ہوں ۔
➍ جب تقیه دین ہے تو پھر کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ائمہ کے تمام اقوال و افعال تقیہ پر بنی ہوں؟ اور تقیہ کی بنا پر صادر ہوئے ہوں؟
➎ جب تقیہ دین ہے، تو امامت کا کیا فائدہ؟ کیونکہ امامت سے مقصود تو حق بات پہنچانا اور اس کی تعلیم دینا ہے ، اور امام ہی حقیقت کو چھپا رہا ہو، اور اپنی زندگی بچانے کے لئے دین ضائع کر رہا ہو تو پھر اس امامت کا کیا فائدہ؟
➏ جب تقیہ دین ہے ، تو پھر ہمیں کون بتائے گا کہ امام کا یہ فعل تقیہ کی بنا پر تھا اور یہ تقیہ کی بنا پر نہیں تھا، اور یوں امام کی وجہ سے پیدا ہونے والا اختلاف ختم ہو جائے گا۔ حسب زعمکم۔ کیونکہ تم لوگوں کا عقیدہ ہے کہ امام کا وجود اس لئے ہے کہ لوگوں کے مابین اختلاف کو ختم کیا جائے۔ جبکہ وہ خود ہی نت نئے اختلاف پیدا کرتا ہے، ایسے اعمال کرتا ہے اور ایسی باتیں کہتا ہے جو کہ تقیہ اور حقیقت کے خلاف ہوتی ہیں۔ اور وہ اپنے اتباع کاروں کو اختلاف میں حیران و پریشان اور سرگرداں چھوڑ دیتا ہے۔

اختلاف کا خاتمہ ، اور امام کو اس کے اتباع کی ضرورت:

یہی وجہ ہے کہ امام کو اس کے اتباع کی ضرورت پڑی تاکہ وہ ان کی اصلاح کر سکے، اور ان کے مابین اختلاف کو ختم کر سکے۔ پس اس لیے انہوں نے کتابیں تحریر کیں تاکہ لوگوں کے سامنے بیان کر سکیں کہ کیا کچھ تقیہ تھا، اور کیا کچھ تقیہ نہیں تھا۔ جیسا کہ طوسی نے اپنی دونوں کتابوں التہذیب اور الاستبصار میں کیا ہے۔ ان دونوں کتابوں کی تحریر کا مقصد بھی یہی تھا۔ یہ لوگ امام سے زیادہ بہادر تھے ، اس لئے انہوں نے وہ چیزیں بیان کر دیں جن کے بیان کی استطاعت امام میں نہ تھی، اور امام سے زیادہ فائدہ امت کو پہنچایا ، کیونکہ اختلاف اُن لوگوں نے ختم کیا امام نے نہیں۔
ان کا شیخ الطائفہ طوسی اپنی کتاب ”التهذیب“ کے مقدمہ میں کہتا ہے:
”مجھے بعض دوستوں نے یاد دلایا، اللہ اُن کی مدد فرمائے ، جن کا حق ہم پر ہمارے اصحاب کی احادیث کی روشنی میں واجب ہے ، اللہ اُن کی تائید فرمائے ، اور اُن کے سلف پر رحم کرے کہ وہ روایات جن میں اختلاف ، منافاۃ اور تضاد واقع ہوا ہے حتی کہ کوئی ایک روایت ایسی متفق علیہ نہیں ہے، جس کے مقابلہ میں اس کے متضاد دوسری روایت موجود نہ ہو۔ اور کوئی حدیث ایسی نہیں ، جس کے منافی دوسری حدیث نہ ہو ۔ حتی کہ ہمارے مخالفین کی طرف سے ہمارے دین میں سب سے بڑا طعن یہی باتیں ہیں ، اور اُن کی وجہ سے وہ ہمارے عقیدہ کو باطل ثابت کرنے لگے ہیں۔“
آگے چل کر وہ کہتا ہے:
”حتی کہ اس کا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے پاس زیادہ علم نہیں تھا، اور نہ ہی متشابہ الفاظ کی توجیہات اور معانی میں بصیرت تھی، جتنی کہ ان میں سے بہت سارے لوگوں نے حق عقیدہ کو ترک کر دیا۔ کیونکہ اس پر اس کی توجیہ مشتبہ ہو گئی تھی۔ اور وہ اس شبہ کے حل سے عاجز آ گیا تھا۔ میں نے اپنے شیخ ابو عبد اللہ سے سنا، وہ بتا رہے تھے کہ: ”ابوالحسن ھارونی علوی حق عقیدہ رکھتے تھے ، اور دین امامیہ پر تھے ، پھر انہوں نے اس دین کو ترک کر دیا، اس لئے کہ احادیث میں اختلاف کی وجہ سے ان پر حق ملتبس ہو گیا تھا۔ تو انہوں نے اپنا مذ ہب ترک کے دوسرا مذہب اختیار کر لیا ، کیونکہ ان پر معانی کی توجیہات واضح نہیں ہوسکیں ۔ “
[تهذيب الاحكام: 2/1-3]
آپ دیکھ رہے ہیں کہ شیخ الطائفہ کیسے اعتراف کر رہے ہیں کہ کوئی بھی روایت تناقض اور اختلاف سے خالی نہیں ۔ جس کی وجہ سے اصل خرد و دانش شیعہ کی عقلیں بیدار ہوئیں اور انہوں نے اس مذھب کو ترک کر دیا۔ جیسا کہ اس عالم نے خود بیان اور اعتراف کیا ہے۔

نئے امام نے پرانے امام کا تقیہ واضح کیوں نہیں کیا؟

جب پرانا امام تقیہ مبنی کوئی بات کہتا ہے تو بعد میں آنے والا دوسرا امام اپنے متبیعین کو نہیں بتاتا کہ اس کے باپ نے یہ بات تقیہ سے کہی ہے ۔ یہ روایات آپس میں متناقض کیوں کر باقی ہیں۔ ان تمام ائمہ کے بعد آخر میں ایک اور امام آیا۔ اس نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ حتٰی کہ اس طائفہ کے علماء آگے بڑھے تاکہ لوگوں کو یہ بتا سکیں ، اس میں بھی ان کے پاس ائمہ سے منقول کوئی دلیل نہیں، بلکہ محض تخمینہ اور اندازہ ہے، اور ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ یہ عالم جو بات کہہ رہا ہے وہ میچ ہے یا غلط؟
❀ پھر اس مقیاس پر: یہ شیعہ عالم اس بات کا مستحق ہے کہ اسے امام کہا جائے کیونکہ ائمہ کے اقوال میں اختلاف کا خاتمہ اس نے کیا ہے۔ بلکہ یہ امام الائمہ کے خطاب کا مستحق ہے۔ کیونکہ اس نے تمام ائمہ کے أقوال سے اختلاف ختم کیا ہے۔ جبکہ ائمہ نے تو لوگوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔ حتی کہ بعض اھل مذھب ان کے تناقضات کی وجہ سے مذھب چھوڑ کر چلے گئے۔ پس یہ لوگ امام کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ جبکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ائمہ اس جھوٹ اور خرافات سے بری ہیں جو کہ آپس میں متناقض ہے۔ لیکن ہم ان عجیب و غریب روایات پر کلام کو احاطہ تحریر میں لا رہے ہیں۔
➐ پھر وہ شجاعت کہاں گئی جو کہ امام کی شرائط میں سے ایک تھی کہ امام تمام بشریت سے شجاع اور بہادر ہونا چاہئے ۔ جیسا کہ ان لوگوں نے امام کی صفات کے متعلق خیالات تراش رکھے ہیں۔ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ:
”امام کا تمام بشریت سے زیادہ بہادر ہونا واجب ہے ۔“
[الاقتصاد: 312]
تو اس امام کی شجاعت کہاں گئی جو حقیقت بیان نہ کر سکتا ہو؟

تقیہ اور علم الغیب:

➑ پھر وہ علم الغیب کہا گیا جس کے لئے انہوں نے بیسیوں احادیث گھڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ”ائمہ علم الغیب جانتے ہیں.“ ۔
بیشک امام سائل کو فتویٰ بھی تقیہ کے ساتھ دیتا ہے ، اسے ڈر ہے کہ کہیں یہ سائل اس پر جاسوس نہ چھوڑا گیا ہو۔ پس اسے جھوٹا فتویٰ دیتا ہے تا کہ اسے دھوکہ میں رکھ سکے۔
بیشک ایسا انسان امام اور عالم نہیں ہوسکتا کوئی جاہل ہی ہو گا ۔ شیعہ اثنا عشریہ نے سینکڑوں احادیث گھڑ کر روایت کی ہیں کہ امام علم الغیب جانتا ہے۔ اور اسے: ما كان وما يكون اور ما هو كائن کا علم ہوتا ہے۔ اور جب وہ کسی چیز کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے ، تو اسے علم حاصل ہو جاتا ہے۔ تو پھر کیا اسے اس سائل کا علم نہیں ہو سکا کہ وہ اس کا پیروکار ہے یا نہیں؟
کلینی نے ”الکافی“ میں کہا ہے:
1۔ باب ائمہ علیہ السلام جب غیب جاننا چاہیں تو وہ جان سکتے ہیں۔
[الكافي: 258/1]
2۔ باب: ائمہ علیہ السلام کو ، جو تھا ، جو ہو گیا، جو ہونے والا ہے، سب کا علم ہوتا ہے اور ان پر کوئی چیز مخفی (چھپی ) نہیں ہوتی۔ [الكافي: 260/1]
3. باب: آئمہ علیہ السلام سے اگر کوئی چیز چھپائی جائے تو انہیں انسان کی ہر ایک چیز کے بارے میں آگاہ کر دیا جاتا ہے، جو کچھ اس نے کیا، یا کرنے والا ہے۔
[الكافي: 266/1]
پھر یہ خود ساختہ علمِ غیب کہاں گیا؟ کہ یہ اپنے سامنے کے شخص کو اس ڈر سے جھوٹ پر مبنی فتویٰ دیتے ہیں کہ کہیں وہ بادشاہ کا جاسوس نہ ہو۔

امام جان بوجھ کر سائل سے حق چھپاتا ہے:

➒ پھر یہ مسکین سائل جسے امام نے جھوٹا فتویٰ دیا ہے، جا کر جھوٹ کو عبادت سمجھ کر بجا لاتا ہے ، اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہی حق ہے۔ کیونکہ یہ فتویٰ ایک امام معصوم سے صادر ہوا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ ہے۔ تو پھر اس مسکین انسان کا کیا گناہ ہے؟ جو اللہ تعالیٰ کا دین سمجھنے کے لیے آیا تا کہ اس حق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکے جو اس نے نازل کیا ہے۔ اور جس کا اعتماد یہ ہے کہ ایسے امام معصوم کے علاوہ کسی سے سوال نہ کرے جو کہ عمداً و سھواََ جھوٹ بیانی اور خطاء سے معصوم ہے۔ جیسا کہ شیعہ لوگوں کا عقیدہ ہے۔ اور ادھر امام کی حالت یہ ہے کہ وہ سائل کے سامنے جھوٹ بولتا ہے، اور اسے ناحق اور غلط فتویٰ دیتا ہے۔

اگر امام حق نہ کہہ سکے تو خاموش رہے:

➓ پھر اگر امام حق نہیں کہہ سکتا تو اسے چاہیے کہ وہ خاموش رہے، اور جھوٹ نہ بولے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ [يونس: 70]
”دنیا میں تھوڑا سا فائدہ ہے ، پھر ہماری ہی طرف ان کا لوٹنا ہے ، پھر ہم انھیں بہت سخت عذاب چکھائیں گے ، اس وجہ سے جو وہ کفر کرتے تھے۔ “
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ [النحل: 105]
”جھوٹ تو وہی لوگ باندھتے ہیں کو اللہ تعالٰی کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی لوگ اصل جھوٹے ہیں۔“
وہ لوگ جو کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ ان کا دین ہے، تا کہ وہ اپنی زندگیوں کی حفاظت کر سکیں ۔ جبکہ انہیں حکم تو دین کی تبلیغ کا دیا گیا ہے۔ تو ایسے لوگ جو دنیا کی زندگی میں بہت تھوڑا سا فائدہ اٹھانے کے لیے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑتے ہیں، یقیناً ان لوگوں نے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اور اللہ نے ایسے لوگوں کو بہت سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔ حاشا و کلا ، آل بیت اطہار ہرگز اس قسم کے لوگ نہیں ہو سکتے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”جو کوئی اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ، اسے چاہیے کہ وہ خیر کی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔“
[رواه البخاري: 5559 ، مسلم: 67]

معصوم کے تناقضات:

لیکن یہ قصہ سنیں: جو کہ ایک شیعہ اثنی عشرہ عالم نو بختی نے نقل کیا ہے۔
وہ ایک امام سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے-
”ایک شیعہ آدمی جس کا نام عمر بن ریاح تھا، وہ اپنے امام کے پاس گیا تا کہ ان سے ایک مسئلہ دریافت کر سکے اور اس کو فتویٰ دیدیا گیا۔ اگلے سال وہ آدمی دوبارہ آیا، اور اس نے وہی مسئلہ دریافت کیا۔ اس بار امام صاحب نے پہلی بار کی برعکس جواب دیا۔ تو اس آدمی کو حیرت ہوئی اور اس نے پوچھا:
”پچھلے سال تو آپ نے اس کے برعکس فتوی دیا ہے؟ تو امام صاحب نے اس سے کہا: ”پیشک ہمارا جواب تقیہ کی صورت میں صادر ہوا تھا۔“
تو اس آدمی کو اس معاملہ میں اور آپ کی امامت میں شک ہونے لگا۔
پھر وہ شیعہ وہاں سے نکلا ، اسے ایک اور شیعہ ملا ، جس کا نام محمد بن قیس تھا، اس نے اس کے سامنے یہ سارا قصہ بیان کر دیا، اور اس سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ میں نے جب اس سے سوال کیا تو میرا ارادہ بالکل ٹھیک تھا۔ اور میں ان کے فتویٰ کو دین سمجھتا تھا۔ اور ان کے قول پر عمل کرتا تھا۔ اور پھر کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ میرے ساتھ تقیہ کرتے ، جب کہ میری حالت تو یہ ہے۔
تو محمد بن قیس نے کہا: شائد کہ تمہارے ساتھ کوئی ایسا آدمی موجود ہو، جس کی وجہ سے انہوں نے تقیہ کیا ہو ۔
تو اس آدمی نے کہا: ان دونوں مرتبہ میں ان کی مجلس میرے علاوہ کوئی دوسرا آدمی نہیں تھا۔ لیکن دونوں بار آپ کا جواب لاعلمی پر مبنی تھا۔ اور آپ کو پچھلے سال والا جواب یاد نہیں رہا تھا، تا کہ وہ وہی جواب دے سکتے جو پچھلے سال دیا تھا۔
اور پھر اس نے ان کی امامت سے یہ کہتے ہوئے رجوع کر لیا کہ:
”جو باطل فتوے دیتا ہو وہ امام نہیں ہو سکتا ۔ “
[فرق الشيعه: 59-61]
ہاں اللہ کی قسم ! یہی بات درست ہے کہ باطل فتوے دینے والا کبھی امام نہیں ہو سکتا۔
تو کیا شیعہ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ان روایات سے برأت کا اظہار کر سکتے ہیں جو کہ اہل بیت اطہار کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کا سبب بنتی ہیں۔
کلینی نے زرارہ بن اعین سے روایت کیا ہے ، وہ کہتا ہے: میں نے ابو جعفر سے ایک مسئلہ پوچھا، اور انہوں نے مجھے اس کا جواب دیا۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک اور آدمی آیا، اس نے بھی وہی مسئلہ پوچھا، آپ نے اس کو میرے والے جواب سے ہٹ کر ایک دوسرا جواب دیا۔
پھر ایک تیسرا آدمی آیا، اور اس نے بھی وہی مسئلہ پوچھا، تو اس کو جو جواب دیا، وہ میرے اور میرے دوسرے ساتھی کے جواب سے مختلف تھا۔
جب وہ دونوں چلے گئے تو میں نے عرض کی ! اے فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ دونوں افراد عراقی اور آپ کے شیعہ میں سے تھے ۔ یہ دونوں آپ سے مسئلہ دریافت کرنے کے لیے آئے تھے۔ آپ نے دونوں کو ایک ہی مسئلہ میں دو مختلف جواب دیے۔
تو آپ نے فرمایا: اے زرارہ! یہ ہمارے لیے اور تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور اگر تم سب یک زبان ہو جاؤ ، تو لوگ تمہیں ہمارے متعلق سچا خیال کریں، اور ایسا ہونا ہماری اور تمہاری بقاء کے کم ہونے کا سبب ہے۔
[اصول الكافي: 65/1]
یہ تو صرف ایک مثال تھی، اس طرح کے اس کے علاوہ ہزاروں فتوے ایسے ہیں جن میں تناقضات کی بھر مار ہے۔
تو پھر کیا یہ بات درست ہے کہ: امام جھوٹ بولتا ہے؟
معاذ الله کہ ان لوگوں کے یہ اخلاقیات ہوں وہ تو اہل بیت نبوت کے بہترین لوگ ہیں ۔
⓫ پھر یہ کہ جب لوگوں کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ تقیہ کرنا دین کا حصہ ہے، تو انہیں اپنے امام پر اعتماد کیسے ہو گا؟ اور وہ کیسے یہ پہچان سکیں گے کہ جو کچھ امام صاحب نے کہا ہے وہ تقیہ سے کہا ہے یا بغیر تقیہ کے کہا ہے۔

معرفت حق نہ ہو تو اہل سنت کے خلاف عمل:

⓬ پھر ان روایات کے گھڑنے والوں کا مقصد اور مراد یہ تھی کہ شیعہ کو باقی امت سے دور کیا جائے۔ اس لیے انہوں نے ان لوگوں کے لیے بھی علیحدہ سے روایات گھڑ لیں جو کہ امام تک پہنچنے کی قدرت نہیں رکھتے تھے، اور انہیں دو مختلف مسئلوں میں حق کا علم نہ ہو اور اس کا حل یہ نکالا کہ ایسے شیعہ اس مسئلہ کے مطابق عمل کر لیں جو اہل سنت والجماعت کے (عقیدہ و عمل کے) خلاف ہو۔
اس سلسلہ میں انہوں نے امام جعفر الصادق کی طرف ایک روایت منسوب کر رکھی ہے کہ ان سے ایک سائل نے دریافت کیا کہ:
”اگر ہمیں کسی معاملہ میں دو روایات ملیں، ان میں سے ایک عامہ (یعنی اہل سنت) کے موافق ہو، اور دوسری ان کے مخالف ہو، تو پھر کس روایت پر عمل کیا جائے؟ فرمایا:
”اس روایت پر جو اہل سنت کے مخالف ہو ، کامیابی اسی میں ہے۔ “
[اُصول الكافي: للكليتي: 67/1 ، من لا يحضره الفقيه: ابن بابويه القمي: 5/3 ، التهذيب از طوسي: 301/6 ، الاحتحاح للطبرسي 194 ، الحر العاملي: 75/18]
اللہ کی قسم ! شیعہ مذہب کا یہ وہ عجیب ترین قاعدہ ہے جس سے اہل بیت بری ہیں۔ میں کہتا ہوں: پھر اس صورت میں سائل کو امام کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟
بس اسے چاہیے کہ دیکھ لے اہل سنت کیا کر رہے ہیں اور پھر ان کی مخالفت شروع کر دے۔

تقیہ اور منصبِ امامت سے معزولی:

⓭ پھر یہ امام اگر اللہ تعالی کی طرف سے دین کی حفاظت اور دعوت کے لئے متعین تھا تو پھر اس نے تقیہ کیوں کیا؟
اور اگر یہ کہیں کہ تقیہ امام کی جان کی حفاظت ، جیل ، سزا اور قتل سے بچنے کے لئے ہے۔
تو ہم پوچھتے ہیں کہ:
امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ انبیاء کی طرح لوگوں تک دین پہنچائیں، اگرچہ اس راہ میں وہ قتل ہو جائیں، یا تکالیف اٹھانا پڑیں۔ اس لئے کہ انبیاء کے لئے لوگوں کے خوف سے اللہ کا حکم ترک کرنا جائز نہیں۔ فرمان الٰہی ہے:
الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا [الأحزاب: 39]
”یہ سب ایسے تھے کے اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے اللہ تعالیٰ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔“
قرآن میں یہ کہاں ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے کسی نبی نے تقیہ کیا ہو؟ اور انہوں نے واضح طور پر اپنی قوم کو دین نہ پہنچایا ہو؟
تمہارے نزدیک امامت بھی نبوت کی طرح ہے۔ یعنی یہ واجب ہے کہ امام بھی شجاعت اور برداشت میں انبیاء کی طرح ہو۔ کیونکہ اس پر واجب ہوتا ہے کہ وہ دین کی تبلیغ کھل کر کرے ، بھلے اسے قتل ہی کر دیا جائے ۔ اس لیے کہ اس کا دین اور رب کی رضا مندی اس کی اپنی جان سے بڑھ کر قیمتی ہے۔ کسی نبی یا وصی کی زندگی کی ۔ تمہاری روایات کے مطابق کون سی قیمت باقی رہ جاتی ہے جب دین ضائع ہو جائے؟ !!۔
⓮ اور اگر امام بھی اپنے اتباع کاروں کی طرح ہو جو کہ تبلیغِ دین کی ذمہ داری کما حقہ نہ نبھا سکے تو پھر اس کی امامت کا کیا فائدہ ہے؟ ۔
⓯ امام صاحب تقیہ کیوں کرتے ہیں؟ جبکہ اس کے پاس خارقِ عادت قوت ہے جس کا تصور بھی ممکن نہیں اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تابع ہے ۔ جیسا کہ تم لوگوں کا عقیدہ ہے۔
آخر میں یہ گزارش ہے کہ: ذرا سید ھاشم البحرانی کی کتاب مدينة المعاجز کا مطالعہ کریں تو آپ کو عجائب و غرائب ملیں گے ۔ اس میں اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پانچ سو (500) معجزات ذکر کئے ہیں ۔
تو پھر آپ ان معجزات کو دعوت کے لئے کام میں کیوں نہ لائے؟ ۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جن کی طرف امامت منسوب کی جاتی ہے وہ بھی عام بشر کی طرح بشر ہیں۔ انہوں نے بھی ویسی زندگی گزاری جیسی زندگی اُن جیسے دوسرے عابد و زاہد اور صالحین نے گزاری۔ نہ ہی انہیں امامت کا علم تھا اور نہ ہی کبھی انہوں ایسا کوئی دعویٰ کیا ۔
ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کی گئی ہیں، جو انہوں نے نہیں کہیں۔ اور نہ ہی ان کے پاس کوئی خارقِ عادت چیز ہے اور نہ ہی کوئی معجزہ ، اگر واقعی ایسا ہوتا تو پھر معاملہ کچھ دیگر ہوتا۔ اور عنقریب یہ حضرات اُن لوگوں کے خلاف دعویدار ہوں گے جو اس طرح کی باتوں سے انہیں تکلیف دیتے ہیں جو کہ انہوں نے نہیں کہیں۔ اور اللہ عزوجل کے ہاں اس کا وقت مقرر ہے ۔ جب سینوں کے راز آشکار ہوں گے ، اور مردے قبروں سے نکل پڑیں گے اور ہر فاسق و فاجر کو اس کے کیے کی سزا ملے گی۔
⓰ پھر اُن شیعہ علما ٔ کا کیا موقف ہے جو لوگوں کو فتویٰ دیتے ہیں؟
کیا وہ بھی اپنے ائمہ کی طرح تقیہ کریں گے یا نہیں؟
اگر وہ تقیہ کریں گے تو ان کے قول اور فتویٰ کا کیا اعتبار رہے گا؟
اگر وہ تقیہ نہیں کرتے تو پھر کیوں؟
کیا وہ اپنے ائمہ سے زیادہ بہادر ہیں یا پھر تقیہ پر ایمان نہیں رکھتے؟
اگر وہ اپنے ائمہ سے زیادہ بہادر ہیں ، تو یہ ائمہ کی شان میں طعنہ زنی ہے۔
اور اگر وہ تقیہ پر ایمان نہیں رکھتے ، تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے جب کہ ان کے ائمہ اس پر ایمان رکھتے تھے ، اور تقیہ کیا کرتے تھے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ائمہ کے اتباع گزار ہیں، مگر ان کے اعمال جیسے اعمال نہیں کر رہے؟
شیعہ نے ساری زندگی خوف کے زمانہ میں گزار دی ہے۔ سوائے ایک مختصر سے زمانہ کے، جب بنو بویہ اور صفوی شیعہ کی حکومتیں قائم تھیں۔ اور ابھی تقریباً تیسں سال کا عرصہ ہوا ہے (جب سے ایران کی حکومت قائم ہوئی ہے)۔
پھر یہ دین روایات کی نصوص اور اقوال مجتہدین کے مطابق ہے۔
ان نصوص پر عمل کرنے سے ان کی منزلت گر جاتی ہے، اور ان کے فتوے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اور اگر وہ ان پر عمل نہیں کرتے تو اس سے ان کے ائمہ کی سیرت و کردار شک و شبہ کا شکار ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے ائمہ سے بھی بہادر نکلے ، اور انہوں نے اس تقیہ پرعمل نہیں کیا جس پر ان کے ائمہ عمل پیرا رہے ہیں، تا کہ اپنی زندگیوں کی حفاظت کر سکیں۔
⓱ آخری بات: وہ حق جس کو بیان کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے عائد کی ہے، اسے چھپانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ‎(159)‏ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ‎(160) [البقرة 159 -160]
بے شک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔ مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی اور اصلاح کر لی اور کھول کر بیان کر دیا تو یہ لوگ ہیں جن کی میں توبہ قبول کرتا ہوں اور میں ہی بہت توبہ قبول کرنے والا ، نہایت رحم والا ہوں۔“
تو کیا یہ ممکن ہے کہ امام جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ ہو، وہ ایسا بھونڈا عمل کرے جس کی وجہ سے اس کا دین ضائع ہو جائے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم حق بات کو اس کی حقیقی صورت میں دکھائے اور اس کی اتباع کی توفیق دے۔ اور باطل کو اس کی باطل صورت میں دکھائے ، اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے