شرک کا ایک چور دروازہ ’’شرکیہ تعویذات‘‘ بھی ہے
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

شرکیہ تعویذات

شرک کا ایک چور دروازہ ’’شرکیہ تعویذات‘‘ بھی ہے۔ عہد جاہلیت میں لوگ دھاگہ، چھلہ اور تعویذ وغیرہ بازو پر یا کندھے پر اس نظریہ سے لٹکاتے کہ یہ انہیں نظر بد اور جن و بخار سے بچائے گا۔ میاں بیوی کے درمیان محبت پیدا کرے گا ، اور اسی طرح وہ لوگ چھلہ یا تعویذ بچوں کو بھی باندھ دیا کرتے تاکہ اُن سے مصائب دُور ہو جائیں ، یہ سب امور شرکیہ اور جاہلانہ عادات ہیں، جنہیں اسلام نے باطل قرار دیا ہے۔ چنانچہ سیدنا عقبہ بن عامرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((من علق تميمة فقد أشرك))
مسند أحمد: ١٥٦/٤ ، رقم : ١٧٤٢٢ – معجم طبرانی کبیر : ٨٨٥/١٧، مستدرك حاكم: ٢١٩/٤ – سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم: ٤٩٢.

’’جس شخص نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔‘‘

بلکہ جوان شرکیہ تعویذوں کی طرف رجوع کرتا ہے اس کے حق میں رسول اللہ ﷺ نے بد دعا فرمائی ہے، چنانچہ عقبہ بن عامرؓ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

((مَنْ تَعَلَّقَ تَمِيمَةٌ فَلَا أَتَمَّ اللَّهُ لَهُ ، وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَةٌ ، فَلَا وَدعَ اللهُ لہُ.))
مسند أحمد، رقم : ١٧٤٠٤ ۔ اس کو شیخ شعیب الارناؤوط نے حسن کہا ہے۔ مزید دیکھیے: شرح معانی الآثار، رقم: ۷۰۳۲۔ مسندابی یعلی رقم ١٧٥٩، مستدرك حاكم: ٤١٧/٤، رقم: ٨٣٣٨- مجمع الزوائد : ۱۷٥/٥، رقم: ۸۳۹۸۸، ط: جديد و قال الهيثمي : رواه أحمد و أبو يعلى و الطبراني و رجالهم ثقات.

’’جس نے تمیمہ لٹکایا ، اللہ تعالیٰ اس کا کوئی کام پورا نہ کرے ، اور جس نے ’’ودعة‘‘ سپی لٹکائی ، اللہ تعالیٰ اسے بھی آرام نہ دے۔‘‘

معلوم ہوا کہ یہ عمل دوہری وعید کا حامل ہے۔

اولا:

شرک.

ثانیاً:

رسول اللہ ﷺ کی بد دعا ۔

عافانا الله منه

سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی ( زینب ) کے گلے میں ایک تعویذ دیکھا ، تو اسے پکڑ کر کاٹ دیا ، اور فرمایا:

’’عبداللہ کا خاندان شرک سے قطعی بے زار اور لاتعلق ہے۔ پھر فرمایا:

میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

(( إِنَّ الرُّقى وَالسَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرُكٌ .))

’’یقیناً جھاڑ پھونک ، تعویذ گنڈے اور ’’تولہ‘‘ یعنی محبت پیدا کرنے کے منتر شرک ہیں۔‘‘

اس پر لوگوں نے دریافت کیا ، اے ابو عبد الرحمٰن ! یہ دم اور تمائم کے متعلق تو ہمیں معلوم ہے، پس یہ ’’تولہ‘‘ کیا ہے۔ تو آپ نے فرمایا:

’’یہ ایسا منتر ہے جو عورتیں اپنے خاوندوں کی محبت حاصل کرنے کے لیے کرواتی ہیں ۔‘‘
صحیح ابن حبان، كتاب الرقى والتمائم، رقم : ٦٠٥٨ – سلسلة الأحاديث الصحيحة ، رقم: ٣٣١، ۲۹۷۲ – غاية المرام، رقم: ۲۹۹ – تخريج الإيمان لإبن سلام : ۸۱/۸۷۔

ابن ابی حاتم نے سیدنا حذیفہؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک مریض کے بازو میں بندھا دھاگہ دیکھا تو سیدنا حذیفہؓ نے اسے کاٹ دیا ، یا اُتار دیا، اور پھر قرآن کریم کی ( یہ ) آیت تلاوت فرمائی:

(مَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ)

(يوسف : ١٠٦)

’’ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے تو ہیں، مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘
تفسير ابن أبي حاتم : ٢٢٠٨/٧، رقم: ٢٤٠۔

قارئین ! ’’صحابی رسول ﷺ کا اس دھاگے کو کاٹنا یا اُتارنا اس عمل کے انکار شدید کی دلیل ہے ، اگر چہ اس شخص نے اس دھاگے کو شفا کا ایک سبب قرار دیا تھا ، لیکن اسباب تو صرف وہی جائز ہیں جن کی اباحت (جواز) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے ثابت ہو ، اور اس کے ساتھ ساتھ ان اسباب پر اعتماد نہ ہو ، بلکہ اللہ تعالیٰ سے حصولِ شفاء کا اعتقاد ہو۔ اب حالانکہ اس دھاگے پر ’’رقیہ‘‘ یعنی صحیح دم کیا گیا تھا مگر صحابی رسول ﷺ نے اسے اُتار دیا ، تو وہ چیزیں بذات خود شرک ہیں ، جیسے تمائم ، منکے اور طلاسم وغیرہ تو ان کا استعمال کس قدر خطر ناک ہوگا ؟
تيسير العزيز الحميد، ص : ١٦١ – ١٦٢ – توحيد إله العالمين : ١٨٥/١ – مغنى المريد : ۸۷۸/۳۔

احادیث نبویہ ﷺ ان تعویذ گنڈوں اور اس قسم کے دیگر تمام افعال کی نہ صرف مذمت کرتی ہیں بلکہ انہیں ’’شرکیہ افعال‘‘ قرار دیتی ہیں، جیسا کہ سطور بالا میں آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے۔

در اصل دشمنانِ اسلام گمراہ صوفیوں کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی صفوں میں کافی عرصہ سے موجود ہیں، ان کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسلمان رشد و ہدایت کے سرچشمہ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے احکامات پر عمل پیرا نہ ہوسکیں ، قرآن مجید سے لا پرواہی برتنے کے بعد انہیں صحیح احادیث سے دُور کرنے کے لیے کسی زیادہ محنت کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ کیونکہ ذخیرہ حدیث میں رطب و یابس ملا دینا ان کے لیے مشکل کام نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے تین لاکھ سے زیادہ احادیث وضع کر کے مسلمانوں میں رائج کر دیں۔ نتیجہ مسلمانوں کے ایمان و عمل میں وہ بگاڑ پیدا ہوا اور شرک و بدعت کے شجر خبیثہ کی ایسی آبیاری ہوئی کہ جس کے ترش ، کیلے اور کڑوے پھل آج ہمارے سامنے موجود ہیں۔

دشمنانِ اسلام مسلمانوں کو براہِ راست تو قرآن مجید کی تلاوت اور اس کی تعلیمات سے بیگانہ بنانے کی جرات تو نہیں کر سکتے تھے، چنانچہ انہوں نے سوچا کہ مسلمان آج قرآن مجید سے والہانہ محبت اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں کچھ مخصوص سورتوں کے فضائل پر یقین رکھتے ہیں ۔ مثلاً :

’’سورۃ الملک‘‘ کو روزانہ رات کو پڑھتے رہنے سے عذاب قبر سے حفاظت ، جمعہ کے دن ’’سورۃ الکھف‘‘ پڑھنے سے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک خیر و برکت اور فتنہ دجال سے حفاظت وغیرہ یا ’’معوذتین‘‘ کی تلاوت کے ذریعہ لبید بن عاصم یہودی کے جادو کے اثر کو دور کرنے کے لیے خود رسول اللہ ﷺ کے واقعہ وغیرہ ۔ لہٰذا کیوں نہ اسی راستے سے ان کے ایمان و عمل کے قلعہ میں شگاف ڈالا جائے ؟ اور یہ لوگ قرآن وسنت کے تقاضوں سے بے بہرہ ہو جائیں، چنانچہ انہوں نے بڑی سمجھ داری سے پورے قرآن مجید کی ایک ایک سورۃ کے بے شمار فوائد و فضائل تصنیف کیے اور جاہل صوفیوں نے ان موضوع ومن گھڑت روایات کو مشہور اور رائج کر دیا۔ اور انہیں یہ پٹی پڑھائی کہ اس طرح جو مسلمان تلاوت قرآن سے لا پرواہ ہیں، ان فضائل و فوائد کوسن کے بہت زیادہ قرآن کی طرف راغب ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر محمود طحان اپنی کتاب ’’تیسیر مصطلح الحدیث ،ص: ۹۰،۸۹‘‘ میں رقم کرتے ہیں:

’’واضع اپنی دانست میں لوگوں کو نیکی اور خیر کی ترغیب دینے کا حریص ہوتا ہے۔ یا انہیں منکرات سے روکنا چاہتا ہے۔ اور کچھ باتیں بنا کر احادیث کی صورت میں بیان کرتا ہے۔ ایسے لوگ بالعموم بظاہر زاہد اور صوفی منش سے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب سے بدترین وضاع شمار ہوتے ہیں ۔ کیونکہ لوگ ان کے ظاہری زہد و تقویٰ کے باعث ان کی باتوں کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں۔ مثلاً : میسرہ بن عبدربہ سے امام ابن حبانؒ اپنی کتاب ”الضعفاء‘‘ میں ابن مہدی ۔ روایت کرتے ہیں کہ میں نے میسرہ سے پوچھا کہ آپ یہ احادیث کہاں سے لاتے ہیں کہ اگر کوئی فلاں فلاں چیز پڑھے تو اسے یہ یہ اجر و ثواب ملتا ہے وغیرہ۔ تو اس نے جواب دیا کہ یہ باتیں میری اپنی خودساختہ ہوتی ہیں ۔ میں اس طرح لوگوں کو خیر اور نیکی کی طرف راغب کرتا ہوں ۔‘‘
تفصیل دیکھئے: تدریب الراوی ۲۸۳/۱.

مزید برآں دشمنانِ اسلام نے جب دیکھا کہ ہر شخص کے لیے قرآنِ مجید کی تمام بڑی بڑی سورتوں کو زبانی یاد کرنا محال ہے تو انہوں نے عوام الناس کی آسانی اور سہولت کے لئے قرآن کے حروف تہجی کے اعداد بنا ڈالے، اور اس علم الاعداد کو سیدنا علیؓ کی طرف منسوب کر دیا، تا کہ ان کے تعلق سے اس علم الاعداد پر کوئی اعتراض نہ کر سکے۔

یہود اور مجوسیوں نے حروف تہجی کو اس طرح اعداد میں تبدیل کیا تھا:

ا ب ج د ہ و ز

۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷

ح ط ی ک ل م ن

۸ ۹ ۱۰ ۲۰ ۳۰ ۴۰ ۵۰

س ع ف ص ق ر ش

۶۰ ۷۰ ۸۰ ۹۰ ۱۰۰ ۲۰۰ ۳۰۰

ت ث خ ذ ض ظ غ

۴۰۰ ۵۰۰ ۶۰۰ ۷۰۰ ۸۰۰ ۹۰۰ ۱۰۰۰

اس طرح حروف تہجی کے ہر حروف کے عدد اسی کے قائم مقام قرار پائے ۔
جدول ملاحظہ کریں شمع شبستان رضا ۳۳/۲.

’’انہوں نے پھر ہر عدد کو ایک خاص تاثیر کا حامل قرار دیا، اور تعویذ وطلسم لکھ کر عوام میں تقسیم کرنے شروع کر دئیے۔ اس طرح عوام بہت جلد ان کے معتقد ہو گئے ، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے قرآنی آیات کے نقوش مرتب کر کے ان سے غیر معمولی فوائد منسوب کر دیئے، چنانچہ کچھ عرصہ بعد ’’تصوف‘‘ اور ’’تعویذ‘‘ ” لازم و ملزوم ہو گئے ۔

صحابہ کرامؓ قرآنی آیات پر عمل کرتے تھے۔ ان صوفیاء کے زیر اثر آکر مسلمانوں نے قرآنی آیات لکھ کر گلے میں ڈالنا شروع کر دیا اور عمل چھوڑ دیا۔
اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش، پروفیسر یوسف سلیم چشتی ،ص:۱۶۶.

باطنی شیعوں نے علم الاعداد کیوں ایجاد کیا تھا ؟ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کے ذریعہ وام کے قلوب و اذہان کو بغیر کسی قیل وقال کے بہت جلد اور بڑی آسانی سے متاثر کیا جاسکتا تھا۔ مثال کے طور پر شیعوں کے مزعومہ بارہویں امام کی پیدائش سنہ ۲۵۶ھ بیان کی جاتی ہے۔ اس تاریخ کی عظمت روحانی کا ثبوت دلائل کے بجائے علم الاعداد کی مدد سے مہیا کیا گیا۔ عوام کو بتایا گیا کہ دیکھو! ’’نور‘‘ کے عدد بھی ’’۲۵۶‘‘ ہیں اس لئے ثابت ہوا کہ بارہویں امام مہدی نور ہیں !!

اسی طرح ’’ حَيٌّ‘‘ کے عدد ’’۱۸‘‘ ہیں اس لئے ’’۱۴‘‘ معصومین ائمہ اور ’’۴‘‘ ابواب یعنی یہ ’’۱۸‘‘ افراد بھی ’’ حی‘‘ یعنی زندہ ہیں ۔

’’ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ کے حروف کے عدد ’’۱۹‘‘ ہیں ، اس لیے ’’۱۹‘‘ کا عدد مبارک ہے، یہی وجہ ہے کہ ’’بہائی شیعوں‘‘ کا مہینہ ’’۱۹‘‘ دن کا ہوتا ہے۔

بہاء اللہ ’’بانی مذہب بہائی‘‘ نے سنہ ۱۲۶۱ء میں ’’ ظہور حق‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے پیرؤں نے عوام کو مسحور کرنے کے لئے دلیل یہ دی کہ ’’ ظہور الحق‘‘ یعنی بہاء اللہ کے لقب کے عدد بھی ’’۱۲۶۱‘‘ ہی ہیں۔ اسی طرح چونکہ ’’۹‘‘ کا عدد کامل ہے۔ اس لئے جس شہر میں ’’۹‘‘ بہائی ہو جائیں وہاں پر بہائی شیعوں کی ’’محفل‘‘ قائم کی جاسکتی ہے۔
باب کی نئی تاریخ، مؤلفہ براؤن، ضمیمه دوم، ص: ۳۲۸، ۳۲۹.

مزید برآں ’’شمع شبستان رضا از اقبال احمد نوری ،طبع ، شہباز پبلشرز، لاہور کا مطالعہ کیجئے گا، اس کتاب کی جلد ۳، صفحہ ۷۶ پر ’’سورہ نور‘‘ کے جو خواص درج کئے گئے ہیں وہ ملاحظہ ہوں:

’’اگر احتلام کثرت سے ہوتا ہو، تین بار ’’سورہ نور‘‘ پڑھ کر دم کرے، اور زبان بندی اعداء کے واسطے پانچ بار پڑھے، اور اگر نقش لکھ کر اپنے پاس رکھے گا وسواس شیطانی سے محفوظ رہے گا ۔ اس کے کل اعداد ’’۲۴۵۷ ۴۰‘‘ ہیں ۔ اور چال خانہ پنجم میں ہے نقش یہ ہے:

۱۰۰۶۰۶ ۱۰۰۶۲۰ ۱۰۰۶۱۷ ۱۰۰۶۱۴

۱۰۰۶۱۸ ۱۰۰۶۱۳ ۱۰۰۶۰۷ ۱۰۰۶۱۹

۱۰۰۶۱۲ ۱۰۰۶۱۵ ۱۰۰۶۰۲ ۱۰۰۶۰۸

۱۰۰۶۲۱ ۱۰۰۶۰۹ ۱۰۰۶۱۱ ۱۰۰۶۱۶

قرآنِ عظیم پر یہ ظلم تو شاید کفار نے بھی نہیں کیا ہوگا، بہر حال باطنی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ، موجودہ دور میں مسلمانوں کے اندر تعویذ گنڈوں کا غیر معمولی رواج اور عملیات و فال گیری کی گرم بازاری اور قرآنی آیات اور اس کے نقوش کو دھو دھو کر پینے پلانے کا مشغلہ تصوف کی برکات سے گھر گھر مسلمانوں میں رواج پا گیا ہے۔

قرآن مجید کی متعین اور مخصوص سورتوں کے جو خواص کتب احادیث میں درج ہیں ، ان کے علاوہ باقی وہ سب روایتیں موضوع ہیں۔ علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق مسلمانوں کو اپنا ہر کام ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ پڑھ کر شروع کرنا چاہیے ۔ ’’بسم اللہ‘‘ چونکہ قرآن کا جزو ہے اس لئے برکت کے علاوہ اس کے پڑھنے سے دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ قرآن کے ہر حرف پڑھنے یا لکھنے پر چونکہ دس نیکیاں ملتی ہیں اس لئے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ جو انیس (۱۹) حروف پر مشتمل ہے اس کو پڑھنے یا لکھنے والے کو گویا ہر مرتبہ ’’۱۹۰‘‘ نیکیاں ملتی ہیں، مگر ان ظالموں نے مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ چونکہ ہر جگہ ’’بسم اللہ‘‘ لکھنے سے ان قرآنی حروف کی بے حرمتی کا اندیشہ ہے، اس لئے اپنی تحریروں میں خاص کر ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ کے بجائے اعداد ’’۷۸۶‘‘ لکھا کریں۔ اس طرح مسلمانوں نے اپنی سادہ لوحی میں ’’۷۸۶‘‘ کے اعداد کو اپنا کر خود کو ہر دفعہ ’’۱۹۰‘‘ نیکیوں سے محروم کر لیا۔

بہر حال اس علم الاعداد کے سہارے ان دشمنانِ اسلام نے صوفیاء کا بھیس بدل کر مسلمانوں میں تعویذ گنڈوں کا رواج دیا اور مسلمانوں کا بڑا طبقہ اللہ تعالیٰ کو بھول کر شرک و بدعت کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑ نے لگا۔

(عافانا الله منه)
ملحض از اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات،ص: ۱۲۶،۱۵۹. بتغير يسير۔

حالانکہ حروف ابجد وغیرہ لکھ کر حساب کرنا اور علم نجوم سیکھنا شرکیہ امور میں سے ہے ، جو لوگ اس علم کو سکھتے ہیں، اس کے ذریعہ سے حساب کرتے ہیں ، لوگوں کی بیماریاں جانچتے ہیں، ان کے متعلق سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

((إِنَّ قَوْمًا يَحْسِبُونَ أَبَا جَادٍ، وَيَنْظُرُونَ فِى النُّجُومِ ، وَلَا أَرى لِمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْ خَلَاقٍ.))
مصنف عبدالرزاق : ٢٦/١١، رقم: ١٩٨٠٥۔ سن الکبری للبیھقی : ۱۳۹/۸۔اس کی سند حیح ہے، : دیکھئے: مغنى المريد : ١٨٩٤/٥۔

’’یقیناً جولوگ حروف ابجد لکھ کر ( لوگوں کی بیماریوں وغیرہ کا ) حساب کرتے اور علم نجوم سیکھتے ہیں، میرے نزدیک ان کا (آخرت میں ) کوئی حصہ اور اجر نہیں۔‘‘

پس حروف ابجد کے لکھے ہوئے تعویذات شرکیہ ہیں، ایسے تعویذ لٹکانے سے انسان مشرک قرار پاتا ہے۔

قرآنی تعویذات لٹکانے کا حکم:

قرآنی تعویذات لٹکانے کے متعلق صحیح بات یہ ہے کہ یہ چند وجوہ کے باعث ناجائز ہے، صحابہ کرام و تابعین عظام رحمہم اللہ کا صاف صاف فرمان ہے کہ تعویذ لٹکا نامنع ہے، اور یہ برگزیدہ لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کو ماننے اور جاننے والے ہیں ۔ چنانچہ ابراہیم نخعیؒ (امام ابوحنیفہؒ کے اُستاد) فرماتے ہیں:

((كَانُوا يَكْرَهُونَ السَّمَائِمَ كُلَّهَا مِنَ الْقُرْآنِ وَغَيْرِ الْقُرْآنِ.))
تيسير العزيز الحميد، ص : ١٧٤.

’’صحابہ کرام تمام تعویذوں کو حرام قرار دیتے تھے، خواہ وہ قرآنی آیات سے ہوں یا قرآن پاک کے علاوہ کسی اور چیز سے ہوں۔‘‘

فائدہ:

اس زمانہ میں ’’مکروہ‘‘ بول کر حرام مراد لیا جاتا تھا۔ یہ حرمت اور ممانعت تین اسباب سے ہے:

➊ تعویذ لٹکانے کی ممانعت کا حکم عام ہے، لہذا قرآنی تعویذات بھی اس میں داخل ہیں، تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

➋ قرآنی تعویذ لٹکانا ، غیر قرآن سے بنے ہوئے تعویذوں کے لٹکانے کا بہانہ بن جائے گا ، اور لوگوں کو اس سے منع کرنا مشکل ہو جائے گا۔

➌ قرآنی تعویذ لٹکانا اس کی بے حرمتی کا سبب ہوگا، کیونکہ قرآنی تعویذ لٹکانے والا بیت الخلاء ضرور داخل ہوگا۔
قرة عيون الموحدين، ص: ۹۹، ۱۰۰.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے